رائٹ اور لیفٹ ونگ کا قضیہ

چند دن پہلے میں نے اپنی فیس بک وال پر بنگلہ دیش کے معروف سیاسی رہنما عبدالقادر ملا کی پھانسی کے حوالے سے ایک نوٹ لکھا تو مجھے دلچسپ ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔جہاں اسے فیس بک فرینڈز کی خاصی تعداد نے سراہا وہاں بعض نے ناراضی بھی ظاہر کی۔ایک دیرینہ دوست نے میسیج کیا کہ آپ اپنے ٹیلنٹ اورصلاحیتوںکونان ایشوزمیں ضائع کر رہے ہیں۔ چند اورلوگوں نے بھی رائٹ ونگ کی حمایت پر مطعون کیا۔کچھ نے باقاعدہ پوچھا،یہ رائٹ ونگ لیفٹ ونگ کیا بلا ہے۔چنانچہ میں نے سوچا،اس حوالے سے کچھ لکھنا چاہیے۔
ہمارے ہاں سیاسی اور فکری تقسیم ہمیشہ سے رہی ہے۔کبھی سرخ ایشیا کے نعرے لگتے تھے،جواب میں ایشیا سبز ہے کا نعرہ لگایا گیا۔ ستّرکی پوری دہائی اوراسّی کی دہائی کے وسط تک رائٹ اور لیفٹ کی لڑائی واضح تھی، بعد میںبتدریج اس کی شکل بدلتی گئی۔سوویت یونین کی شکست وریخت نے سوشلسٹ فلاسفی کواڑاکررکھ دیا۔ ہمارے ہاں کے لیفٹ ونگ کی کمر ٹوٹ گئی، بڑے بڑے جغادری لیفٹسٹ کچھ عرصہ تومبہوت رہے، پھرآہستہ آہستہ انہوں نے لبرل ازم کی آڑ لیتے ہوئے این جی اوز میںگھسنا شروع کیا۔جو زیادہ تیز تھے انہوں نے اپنی این جی اوز بناکر پاکستانی معاشرے میں روشن خیالی لانے اوردوسری سماجی اصلاحات کے نام پرفنڈز لینے شروع کئے۔آج صورتحال یہ ہے کہ کہنے کوتولیفٹ کی دوتین جماعتیں موجود ہیںمگر ان کی حیثیت تانگہ پارٹیوں سے زیادہ نہیں، اس لیے ہمارے ہاں آج کل سیاسی فکری بساط پر رائٹ ونگ بمقابلہ لبرل پلس سیکولر پلس این جی اوز ہیں۔
رائٹ اور لیفٹ کی روایتی تقسیم بھی ہمارے ہاں بدل چکی ہے۔ تاریخی اعتبار سے رائٹ ونگ کی اصطلاح انقلاب فرانس سے کچھ پہلے ان لوگوں کے لیے استعمال کی گئی جو شہنشاہیت کے حامی تھے۔ 
اتفاق سے یہ گروپ پارلیمنٹ میں دائیں جانب بیٹھا کرتاتھا،اسی مناسبت سے اس کورائٹ ونگ کہا جانے لگاجبکہ شہنشاہ کامخالف اور جمہوریہ کا حامی گروپ لیفٹ ونگ کہلاتاتھاکیونکہ وہ پارلیمنٹ میں لیفٹ سائیڈ پر بیٹھتا تھا۔ بعد میں یہ اصطلاح بتدریج اپنا چہرہ بدلتی گئی۔قدامت پسند یا بنیاد پرست اور روایتی اقدارکے حامی رائٹسٹ یا رائٹ ونگ والے تصور کیے جانے لگے جبکہ نسبتاً پروگریسو، روشن خیال لوگ لیفٹسٹ کہلانے لگے۔ سوویت انقلاب کے بعد لکیریں مزید واضح ہوگئیں،لیفٹسٹ سے مراد سوشلسٹ لیا جانے لگا۔ واضح رہے کہ میں نے صحافیانہ انداز میںبہت سادہ اورکچی پکی سی تعریف بیان کی ہے تاکہ جسے علم نہیں اس کے ذہن میں ہلکا سا امیج بن جائے، ورنہ یہ کالم کا نہیںکتابوں کا موضوع ہے۔اس میں گہرائی اور بہت سے زاویے ہیں۔دلچسپی رکھنے والے لوگ اس موضوع پر تفصیل سے پڑھ سکتے ہیں۔ دنیا کے بہت سے ممالک میںروایتی مذہبی حلقوںکورائٹسٹ کہا جانے لگاجو مذہبی احکام، روایتی معاشرت اوراخلاقی روایات کے تحفظ پرزیادہ زوردیتے تھے ۔ امریکہ میں بھی ری پبلکن پارٹی نسبتازیادہ مذہبی اوررائٹ ونگ کے قریب ہے۔ بھارت میں بی جی پی کورائٹسٹ جماعت کہا جاتا ہے۔ہمارے ہاں روایتی مذہبی حلقے اور جماعت اسلامی جیسی دینی سیاسی جماعتوں کو رائٹ ونگ کہا گیا۔جب سوشلزم کی یلغار تھی اور پیپلزپارٹی نے بھی خود کو لیفٹ کے نظریات سے ہم آہنگ کر رکھا تھا،اس وقت لیفٹ کے نظریات اور تصورات کا مقابلہ بنیادی طور پرجماعت اسلامی اور اس کی فکر سے متاثر ہونے والے صحافیوں، کالم نگاروں اور دانشوروں 
نے کیاجس کی انہیں بھاری قیمت بھی ادا کرنا پڑی۔ان دنوں اردوڈائجسٹ اور ہفت روزہ زندگی نے باقاعدہ مورچہ لگا کر بھٹو حکومت کی فسطائیت کا مقابلہ کیاجس پران کے ڈیکلریشن منسوخ ہوتے رہے؛چنانچہ مختلف ناموں کے ڈیکلریشن لے کر یہ جنگ لڑی جاتی رہی۔ جنرل ضیاء نے مارشل لاء لگایاتوبھٹو صاحب سے متاثرہونے والے رائٹسٹوں نے جنرل صاحب کا ساتھ دیا۔ایک بڑا فیکٹر افغانستان میں روس کی آمد اور پھر اس کے خلاف شروع ہونے والی افغان تحریکِ مزاحمت تھی جس کی پہلے پاکستان اوربعد میں پوری مغربی دنیا،سعودی عرب اورخلیجی ریاستوں نے کھل کر حمایت کی۔کمیونزم کی فکری یلغارکی برسوں سے مزاحمت کرنے والے رائٹسٹوںنے یہ موقع غنیمت جانا اورافغان تحریک کی بھرپور حمایت کی۔آج ان میں سے بعض کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے مگر یہ بہرحال حقیقت ہے کہ رائٹسٹوں نے غیر مشروط طور پر پاکستانی تاریخ کے بدترین ڈکٹیٹر کے ہاتھ مضبوط کیے۔ 
نوے کے عشرے اوراس کے بعد سے دنیا بھر میں کیپیٹل ازم ہی کا دور دورہ ہے،اسے کسی نے منظم فکر بنا کر چیلنج نہیں کیا، بعض دینی گروپ کسی اسلامک ماڈل کی بات ضرور کرتے ہیںمگرتاحال ٹھوس علمی انداز سے ایسا کچھ نہیں کرسکے جس سے دوسرے قائل ہوسکیںاوراس ماڈل کواپنانے کا سوچیں۔اس اعتبار سے روایتی رائٹ اور لیفٹ کی تعریف خاصی حد تک بدل گئی ہے۔اقتصادی پالیسیوںکی حد تک پاکستان کی تمام اہم سیاسی جماعتیں ایک جیسا ایجنڈا رکھتی ہیں، کسی کے پاس ہٹ کے کچھ نہیں،اینٹی امریکن جذبات کے علم بردار البتہ بدل گئے۔پرانے لیفٹسٹ توامریکہ دشمنی کوخیر باد کہتے ہوئے باقاعدہ امریکہ کی گود میں جا بیٹھے،لہٰذاپاکستان میں امریکہ کی مخالفت رائٹسٹوں کے ہاتھ میں آگئی، خاص طورپر نائن الیون کے بعد جب امریکی اہداف بدلے توامریکہ اوررائٹسٹ ایک دوسرے کے سامنے آگئے ۔ یہ رائٹ کا نیا چہرہ ہے جس کے اندر بھی کئی پرتیں ہیں۔ القاعدہ اور طالبان جیسی عسکریت پسند تنظیمیں رائٹ ونگ کی انتہائی شکل ہیں، حزب التحریر جیسی خلافت کی داعی تنظیموںکا اپنا ایجنڈا ہے اور عالمی اسلامی تحریکوں جیسے اخوان المسلمون وغیرہ سے جڑی ہوئی جماعت اسلامی بھی اسی رائٹ ونگ میں موجود ہے۔دوسرے دینی گروپ بھی اپنے اپنے انداز سے رائٹسٹوں کا حصہ ہیں،کسی مشترک ایجنڈے پر وہ دفاع پاکستان کونسل میں شامل ہوجاتے ہیں توکہیں ایک دوسرے سے فاصلہ اختیار کر لیتے ہیں۔ 
لیفٹ تو ختم ہوا،اب لبرل سیکولر لکھنے والوں کا دور ہے،پچھلے چند برسوں سے یہ خاصی طاقتور پوزیشن اختیارکرگئے ہیں ،لیکن ان کے بھی کئی گروپ اور کئی سطحیں ہیں۔ بعض طالبان مخالفت میں اس طرف چلے آئے، کچھ کی مجبوری ہے کہ مغربی این جی اوزکی فنڈنگ مخصوص ایجنڈے کے بغیر ممکن نہیں، بعض کی زندگی مذہبی حلقوں کی مخالفت میں بسر ہوئی اور اس ناسٹلجیا سے وہ نکل نہیں پائے۔ چند ایک ایسے بھی ہیں جو پوری دیانت داری سے سمجھتے ہیں کہ ریاست کو مذہب سے دور رہنا چاہیے اور پاکستانی سماج میں مذہبی شدت پسندی کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہمارے رائٹسٹ ہوں یا لبرل اورنیولبرل ... یہ سب ردعمل کی نفسیات کا شکار ہیں۔انہوں نے ہر حال میں دوسرے گروپ کی مخالفت کرنا سیکھا ہے اور اسی روش پرقائم ہیں۔ برسوں پہلے ایک مزاح نگارکامولانا شاہ احمد نورانی کے بارے میں مزے کا فقرہ پڑھا۔نورانی میاں جماعت اسلامی کے سخت مخالف تھے،اس حوالے سے انہوں نے لکھا:'' نورانی میاں جب بھی بیرونی دورے سے پاکستان لوٹتے ہیں، اپنے سیکرٹری کو بلا کر کہتے ہیں کہ معلوم کرو جماعت اسلامی کا تازہ موقف کیا ہے اوراس موقف کے خلاف میرا ایک بیان جاری کر دو‘‘۔یہ بات توازراہ تفنن تحریر کی گئی تھی مگر ہمارے بیشتر لبرل دوستوں کا یہی حال ہے کہ وہ جماعت اسلامی یا رائٹ ونگ کے لکھنے والوں کے تازہ موقف کے خلاف فوری طور پر قلمی مہم شروع کر دیتے ہیں۔ کالم لکھے جاتے اور ٹاک شوز کرائے جاتے ہیں، موقف پہلے بنا لیا جاتا ہے اوردلائل تراشنے کی باری بعد میں آتی ہے۔ بعض معاملات میں رائٹسٹوں کا بھی یہی حال ہے۔ 
ہمارے خیال میں تو اب نئے لکھنے والوں کو رائٹ لیفٹ کی اس روایتی تقسیم اور مخاصمت سے نکل کر ''رائٹ اور رانگ‘‘ کی بنیاد پرسوچنا اور لکھنا چاہیے ۔ انٹیلی جنشیا کا کام عدالت کی طرح ہے ،وہ کیس ٹو کیس رائے دیتی ہے۔ جو بھی ایشو سامنے آئے سوچنے، لکھنے اور بولنے والے اس کے تمام تر پہلوئوں کو سامنے رکھ کر دیانت داری سے رائے قائم کریں اوراس کا اظہارکریں۔ یہ سوچنا ان کا کام نہیں کہ اس سے رائٹ ونگ کو فائدہ پہنچے گا یا لبرل حلقوں کو،انہیں صرف سچائی ہی کواپنا شعار بنانا چاہیے۔ پاکستان جیسے ملک اور معاشرے میں مکمل سچ بولنا توشاید ممکن نہیں، جس حد تک ہو سکے، اتنا سچ تو بول اور لکھ لینا چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں