نئے سال کو کارآمد بنانے کے لیے لائف سٹائل بدلئے

ایک زمانے میں میں اپنے دوستوں کے ساتھ دسمبرکے آخری دن کا سورج ڈوبتے دیکھنے کا خاص اہتمام کیا کرتا تھا۔ دو تین دوست کسی جگہ اکٹھے ہوتے، گپ شپ لگاتے، سال بھر کے واقعات کا تجزیہ کرتے، ان چیزوں پر غور کرتے جو ہم نے نہیں کیں اور ہمیں آئندہ سال کرنے کی ضرورت ہے۔ نیو ائیر نائیٹ پر بھی بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح ہم بھی اگلے سال کو خاص انداز میں گزارنے کی کمٹمنٹس کرتے، بہت سے کاموں کی لسٹ بنائی جاتی۔ نئے سال کے لیے اہداف مقرر کیے جاتے، اس موضوع پر شائع ہونے والی کتابوں کی ہدایات کے مطابق لانگ ٹرم گول اور شارٹ ٹرم گول رکھے جاتے۔ یہ اور بات کہ سال کے آخر میں پھر پتا چلتا کہ ان میں سے بیشتر پر عمل نہیں ہوپایا۔ میرا خیال ہے کہ نئے سال کی کمٹمنٹس یا نیو ائیر ریزولوشن کی اہمیت اپنی جگہ ،مگر زیادہ اہم بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لانا ہے۔ایسی تبدیلیاں جو زیادہ دیر پا اور مستقل نوعیت کی ہوں ۔ اس لیے ان قارئین کے لیے جو نئے سال کے لیے اہداف مقررکر چکے ہیں، میں بھی دو تین مشورے دینا چاہوں گا۔ 
سب سے پہلے تو اپنے لائف سٹائل میں بنیادی نوعیت کی کچھ تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔زیادہ نہیں تو کم از کم دو تین تبدیلیاں تو اس سال لے آئیے۔ سب سے اہم یہ ہے کہ اپنے آپ کو فطرت سے قریب اور ہم آہنگ کیجئے۔ پچھلے کچھ عرصے کے دوران میں نے اس حوالے سے خاصا کچھ پڑھا،سچی بات تو یہ ہے کہ آدمی شرمندہ ہوتا ہے کہ ہم بہت سی ایسی بنیادی باتیں جو اپنے بڑوں، بزرگوں سے سنتے آئے ہیں ، اسے نظرانداز کیوں کر چکے ہیں۔ جدید طرز زندگی نے ہمارے اندر بہت سی خامیاں ، کئی ایسے مسائل پیدا کر دئیے ہیں، جن سے چھٹکارا پانا بہت ضروری ہوگیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک لمبے زمانے تک ہمارے اوپر والدین کی جانب سے پابندی تھی کہ رات کو عشا ء کی نماز کے بعد سو جایا کریں اور صبح فجر کے لئے بیدار ہوں۔ اس زمانے میں خوش قسمتی سے ایک ہی ٹی وی چینل تھا، جس پر الا ماشاء اللہ رات نو بجے کے خبرنامے کے بعد کوئی کام کا پروگرام لگتا ہی نہیں تھا۔ خبرنامہ اس زمانے میں ایک طرح سے سونے کے الارم کا کام دیتا تھا۔فطری طور پر اتنا جلدی سونے کے باعث صبح جلدی اٹھنا ممکن ہوپاتا۔ پھر جب ڈش اور کیبل کلچرآیا تو رات گئے تک جاگنا معمول بن گیا۔آج کل رات کو ایک دو بجے سونا عام بات ہے۔ ٹی وی چینلز، انٹرنیٹ اور فیس بک وغیرہ نے ایسا گھیر رکھا ہے کہ نصف شب کے بعد سونے اور صبح دس گیارہ بجے اٹھنے کی عادت سی ہوگئی ۔ سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ سات آٹھ گھنٹے سونے کے باوجود تھکن ختم نہیں ہوتی، ایک عجب سی کہولت اور بیزاری سی دن بھر چھائی رہتی ہے، جسے چائے اور کافی کے کپ پر کپ چڑھا کر دور کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔اگلے روز ایک دوست نے ایک تفصیلی میڈیکل ریسرچ رپورٹ کا لنک بھیجا،جس میں بتایا گیا تھا کہ جو لوگ رات کو جلد سوتے ہیں، ان کی یادداشت بہتر اور ذہن زیادہ پرسکون رہتا ہے ۔ بتایا گیا کہ انسان کا جسم ایک خاص قسم کے بائیالوجیکل دائرے یا سائیکل میں کام کرتا ہے، جس کے تحت رات آرام کرنے اور دن کام کرنے کے لئے ہے۔ فطرت کے اس نظام سے ہم آہنگ ہونا زیادہ بہتر نتائج لاتا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ رات دس سے بارہ بجے تک کی نیند کے دو گھنٹے اپنی افادیت اورجسم پر اثرات مرتب کرنے کے حوالے سے چار گھنٹوں کے برابر ہیں۔ جو لوگ رات دس بجے تک سوجائیں، وہ اگر چھ گھنٹے نیند لیں گے تو وہ عملی طور پر آٹھ گھنٹوں کے برابر ہوگی ۔سچی بات یہ ہے کہ نیند کے اس نئے نظام کو اپنانا آسان نہیں، لیکن نئے سال کی کمٹمنٹ میں اسے بھی اگر شامل کر لیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ وقت کی ایک خاص تقسیم اور اس میں ایک خاص قسم کی پراسراریت ہے، وقت میں برکت ڈالنے کی دعائیں بھی ہیں۔ ہمارے ایک دانشور دوست، قرآن اور دینی علوم جن کا خاص میدان ہیں، ان کا کہنا ہے کہ دن کا آغاز جس قدر جلد کر لیا جائے ، اتنا ہی اس کو بھرپور استعمال کیا جاسکتا ہے، اس میں برکت بھی پڑتی ہے اور جسم کے بائیالوجیکل سائیکل کے بھرپور نتائج بھی برآمد ہوں گے۔
لائف سٹائل تبدیل کرنے کے حوالے سے دوسری اہم چیز اپنی خوراک میں تبدیلی لانا ہے۔ نقطہ پھر وہی ہے کہ فطرت سے قریب رہا 
جائے۔ پانی کا زیادہ استعمال ، سادہ خوراک جس میں ہرے پتے والی سبزیاں زیادہ ہوں، سلاد اور پھلوں کو کثرت سے شامل کیا جائے۔ شہد، انجیر،بادام اور دودھ جیسی نعمتیں جو افورڈ کر سکتے ہوں، وہ روزانہ شامل کریں۔ گرین ٹی یعنی سبز چائے کے دو کپ دن بھر میں لیے جائیں کہ یہ کئی اقسام کے کینسر کے لئے مفید ہیں۔ یہ درست ہے کہ ان میں بعض چیزیں آج کل کی کمرتوڑ مہنگائی کے باعث لیناآسان نہیں، مگر میںیقین دلاتا ہوں کہ اگر تھوڑی سی توجہ دی جائے تو کئی چیزیں آسانی سے روزانہ لی جا سکتی ہیں کہ مہنگائی سے زیادہ ترجیحات میں شامل نہ ہونے کے باعث ہم ان سے دور ہیں۔لاہور میں توریڑھی والے پٹھانوں سے خشک انجیرتین چار سو روپے کلو مل جاتی ہے، جس کے دو تین دانے روزانہ کھائے جا سکتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست کریم احمد ریڈیوپاکستان میں پروڈیوسر ہیں، کچھ عرصے سے ان کے چہرے پر خاصی گہری قسم کی چھائیاں اور سیاہ رنگ کے دھبے پڑ گئے۔ وہ سکن سپیشلسٹ کے پاس گئے، ہزار روپے فیس بھری، ڈیڑھ دو ہزار کی ادویات لیں اور پھر بھی کچھ نہ بنا ،بلکہ نشانات بڑھ گئے۔ کئی اور جتن بھی کیے،مگر ناکامی ہوئی۔ ایک دوست کے مشورے پر انہوں نے دیسی علاج کیا یعنی روزانہ ایک سیب اور دوتین فروٹر کھانے شروع کیے۔ بتانے لگے کہ چالیس روپے درجن فروٹر مل جاتے ہیں۔ ان کا استعمال شروع کیا تو صرف پندرہ دنوں کے اندر چہرہ صاف ہوگیا۔وہ حیران تھے کہ صرف غذا کے ذریعے ان کا 
دیرینہ مسئلہ حل ہوگیا۔حکیم محمد سعید مرحوم سادہ اور فطرت کے قریب لائف سٹائل اپنانے پر بہت زور دیتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر موسم میں قدرت نے دستیاب سبزیوں میں مقامی لوگوں کے لیے مکمل اور متوازن غذائیت رکھی ہے۔صرف موسمی پھلوں اور سبزیوں کو اپنی غذا میں شامل کرنے کی اہمیت سمجھنے کی ضرورت ہے۔ 
ایک اور بات جس پر میں اکثر زور دیتا ہوں ،وہ ہے کتابوں کو اپنی زندگی میں شامل کرنا ۔اس سال کے لیے کتابوں کی فہرست بنائیے، جوخریدکر پڑھیں۔ اس سے دو فائدے ہوں گے، ایک تو جس کتاب پر پیسے لگیں، آدمی اسے پڑھ ہی لیتا ہے، دوسرا آپ کی اپنی لائبریری بننا شروع ہوجاتی ہے۔ ہر مہینے ایک کتاب کا ہدف رکھا جائے، صرف پانچ سو روپے مختص کیے جائیں تو بڑی اعلیٰ قسم کی کتابیں لی جاسکتی ہیں۔ یہ مفروضہ ہی ہے کہ کتابیں بہت زیادہ مہنگی ہوچکی ہیں،آج بھی بے شمار بہت عمدہ کتابیں پانچ سو سے کم میں مل جاتی ہیں۔ کتابوں کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں اور ایک کام جو اگر پہلے نہیں کیا تو اس سال ضرور کر لینا چاہیے۔ وہ ہے قرآن پاک کو ترجمے کے ساتھ پڑھنا۔ 
مجھے حیرت ہوتی ہے کہ بہت سے ایسے دوست جو مطالعے کے ازحد شائق ہیں، کتابیں ان کا اوڑھنا بچھونا ہیں ،وہ بھی اہم ترین کتاب کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ قرآن پاک کی عظمت اس بات کی متقاضی ہے کہ اسے سمجھنے اور اس پر غور کرنے کے لئے اپنی زندگیوں کا بڑا حصہ مختص کیا جائے ،مگر پہلے مرحلے میں کم ازکم اسے ترجمے کے ساتھ تو پڑھا جائے تاکہ علم وحکمت کے اس عظیم خزانے سے معمولی سا تعارف تو حاصل ہوسکے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں