جنگ کے کرداروں کا درست تعین کر لیں!

دہشت گردی کے حوالے سے جاری حالیہ جنگ کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس میں ایک خاص نوعیت کا ابہام اور الجھائو موجود ہے۔ آئے روز کہیں نہ کہیں دھماکہ ہوتا ہے۔ ٹارگٹ کلنگ میں کوئی نہ کوئی نشانہ بنتا ہے یا پھر پولیس، رینجرز اور فوج کے کانوائے پر حملے ہوتے ہیں۔ ملک کے مختلف علاقوں میں ان حوالوں سے لہو رنگ واقعات رونما ہونے کے باوجود بہت سے لوگ کنفیوژن کا شکار ہیں۔ انہیں معلوم نہیں ہو پاتا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے، جنگ کے کردار واضح نہیں ہو رہے۔ بہت کچھ صاف ہو جانے کے باوجود بعض حلقوں کی جانب سے دانستہ طور پر منظر دھندلایا جا رہا ہے تاکہ کردار پہچانے نہ جا سکیں۔ بدقسمتی سے اس میں ہمارے میڈیا کے کچھ لوگ بھی شامل ہیں۔ ابہام پیدا کرنے کی اس کوشش میں کئی ممتاز اور سینئر لکھنے والے شامل ہو گئے ہیں۔ معلوم نہیں، ایسا کرنے میں وہ کوئی خاص لذت محسوس کرتے ہیں یا پھر انہیں اپنے پسندیدہ گروپ یا تنظیم کو بچانا مقصود ہے۔ ہمارے خیال میں اس وقت انٹیلی جنشیا کا یہ فرض اور ذمہ داری ہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے ملک میں جاری جنگ کے مختلف کرداروں کو واضح کرے۔ آگے بڑھنا یا قومی اتفاق رائے تب ہی ممکن ہو گا‘ جب دونوں طرف کی قوتوں کو ٹھیک ٹھیک پہچان لیا جائے۔
ملک میں جاری دہشت گردی کی تین چار مختلف سطحیں ہیں۔ مختلف قوتوں نے الگ الگ محاذ کھول رکھے ہیں۔ سب سے اہم اور زیادہ وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی کارروائیاں عسکریت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی ہیں۔ اس کی سرگرمیاں ملک بھر میں کسی نہ کسی حوالے سے جاری ہیں۔ فاٹا کی قبائلی ایجنسیاں اور صوبہ خیبر پختون خوا کے بعض علاقے اس کا مرکز ہیں؛ تاہم اس کی جڑیں پنجاب کے کئی اہم شہروں اور کراچی میں بھی خاصی گہری ہو چکی ہیں۔ اندرون سندھ اور بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں البتہ اس کا نیٹ ورک نہ ہونے کے برابر ہے۔
دہشت گردی کا دوسرا چہرہ شدت پسند قوم پرست مسلح تنظیمیں ہیں۔ ان میں سب سے اہم بی ایل اے ، بی ایس او کے سابق صدر ڈاکٹر اللہ نذر کی بی ایل ایف، نواب اکبر بگٹی کے پوتے میر براہمداغ بگٹی کی بی آر اے اور میر عطااللہ مینگل کے صاحبزادے جاوید مینگل کی لشکر بلوچستان ہیں۔ چھوٹے موٹے کئی اور گروپ بھی بلوچستان میں سرگرم ہیں۔ بلوچ مسلح تنظیموں کا پشتون علاقوں میں کوئی خاص نیٹ ورک نہیں، اگر چہ کچھ عرصہ قبل انہوں نے زیارت ریزیڈنسی کو جلا کر راکھ کر دیا تھا۔ یہ کارروائی باہر سے آکر کی گئی‘ جسے لوکل پشتون سپورٹ حاصل نہیں تھی۔ بی آر اے ڈیرہ بگٹی، ڈیرہ الہ یار اور سوئی وغیرہ میں زیادہ سرگرم ہے۔ بی ایل اے کا دائرہ کار زیادہ وسیع اور ہمہ گیر ہے۔ ڈاکٹر اللہ نذرکا تعلق ماشکے سے ہے، آواران ان کا مرکز ہے؛ تاہم تربت، پنجگور وغیرہ میں بھی بی ایل ایف کا اچھا خاصا نیٹ ورک موجود ہے۔ اللہ نذر کے گروپ کی خاص بات یہ ہے کہ دوسرے گروپ سرداروں یا سردار زادوں کے بنائے ہوئے ہیں جبکہ اللہ نذر لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے کے ساتھ روایتی طور پر سرداروں اور سردار سیاست کے مخالف ہیں؛ تاہم اس تنظیم پر بھارت سے گہرے تعلقات اور فنڈنگ لینے کا الزام بھی ہے۔
دہشت گردی کا تیسرا محاذ کراچی میں کھلا ہے۔ پچھلے دو تین برسوں سے اس میں شدت آ گئی ہے۔کراچی میں پہلے تو سیاسی جماعتوں کی کشمکش تھی، جن سے وابستہ مسلح گروپوں نے بھتے کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے میں اس بات کو باقاعدہ طور پر تسلیم بھی کیا گیا۔ اب وہاں دہشت گردی کا کوئی ایک چہرہ نہیں رہا، اس میں خاصا الجھائو اور پیچیدگی آ چکی ہے۔ لیاری گینگ وار پندرہ بیس برسوں سے کسی نہ کسی صورت میں جاری تھی، مگر پیپلزپارٹی کے سابق دور میں اسے غیرمعمولی قوت اور توانائی ملی۔ بعض لوگوں نے اس میں ملوث عناصر کی سرپرستی کی مگر یہ حقیقت ہے کہ لیاری امن کمیٹی کے عزیر بلوچ اور بابا لاڈلا کے گروپ پہلے اتنے طاقتور نہیں تھے۔ سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگ، لیاری گینگ وار، ڈرگ مافیا، لینڈ مافیا اور روٹین کے سٹریٹ کرائم کرنے والے گروپوں کے ساتھ ساتھ پچھلے چند برسوں میں ٹی ٹی پی نے بھی کراچی میں اپنی جڑیں مضبوط کر لی ہیں۔
ٹی ٹی پی پہلے کراچی کو ریسٹ کیمپ کے طور پر استعمال کرتی تھی۔ بیت اللہ محسود کے دور میں یہ پالیسی بنائی گئی تھی کہ کراچی میں کوئی بڑی کارروائی نہیں کرنی تاکہ وہاں مقیم ہزاروں محسود گھرانے کسی انتقامی یا انتظامی کارروائی کا نشانہ نہ بنیں۔ اُس وقت کراچی کو ٹی ٹی پی کے زخمی لڑکوں کا علاج کرانے، جنگ سے کچھ وقفہ لینے، آرام کرنے اور عطیات جمع کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا؛ تاہم اب صورت حال خاصی بدل چکی ہے۔ ایک تو ٹی ٹی پی کے دو الگ الگ گروپ بن گئے۔ مفتی ولی الرحمٰن محسود اور حکیم اللہ محسود اگرچہ دونوں اپنے اختلافات کے باوجود آخر وقت تک ٹی ٹی پی میں اکٹھے رہے مگر ان کے نام پر کراچی میں دو الگ الگ مقامی گروپ بن گئے تھے۔ یہ بھتے اور اغوا برائے تاوان کے تنازعات پر ایک دوسرے کے کئی آدمی مار چکے ہیں۔ کراچی میں ملا فضل اللہ سے ہمدردی رکھنے والے سواتی گروپ اور مہمند ایجنسی کے عبدالولی عرف عمر خالد (خراسانی) گروپ کے حوالے سے مہمند گروپ بھی کام کر رہے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ مذکورہ گروپ ٹی ٹی پی کا حصہ ہیں بلکہ سواتی کمانڈر ملا فضل اللہ تو اب ٹی ٹی پی کے امیر بھی بن چکے ہیں، مگر کراچی کی سطح پر کسی نہ کسی حوالے سے یہ گروپ مقامی سرگرمیوں میں بھی ملوث ہیں۔ چند دن پہلے ہلاک ہونے والے ایس پی سی آئی ڈی چودھری اسلم کو نشانہ بنانے کی ذمہ داری اسی مہمند گروپ نے قبول کی تھی۔ یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ احسان اللہ احسان‘ جو ایک زمانے میں ٹی ٹی پی کے ترجمان تھے اور جنہیں (افغان طالبان کے حوالے سے) ایک تنازع کے بعد ترجمانی سے ہٹا دیا گیا تھا‘ مہمند گروپ کے ترجمان بن گئے۔ چودھری اسلم کو نشانہ بنانے کی ذمہ داری انہی نے قبول کی تھی۔
دہشت گردی کا ایک اور چہرہ فرقہ وارانہ کالعدم تنظیموں کا بھی ہے۔ مختلف گروپ اپنے اپنے انداز میں کارروائیاں کرتے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔ ان میں سے بعض گروپ القاعدہ کے زیراثر رہے اور اگرچہ وہ ٹی ٹی پی کا پلیٹ فارم استعمال کرتے ہیں، مگر ان کی اصل ہمدردی القاعدہ کے ساتھ ہے۔ پنجابی طالبان میں بھی سابق جہادی تنظیموں کے سپلنٹر گروپ ہیں، ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو لشکر جھنگوی والی تکفیری فکر کے حامل ہیں، اس لیے کہیں کہیں وہ ان کے ساتھ بھی تعاون کر لیتے ہیں۔ بلوچستان میں لشکر جھنگوی کا ایک الگ چہرہ ہے جس کا اصل ہدف ہزارہ کمیونٹی ہے۔ دائود بادینی اور عثمان کرد اس کے کمانڈر ہیں۔ یہ ایک وقت میں پکڑے گئے مگر فرار ہو جانے میں کامیاب ہو گئے۔
دہشت گردی میں ملوث ان مختلف گروپوں کے ساتھ مختلف سطحوں پر نمٹنے کی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے مگر اس سے پہلے یہ سمجھ لیا جائے کہ ان کے اہداف کیا ہیں اورکون انہیں سپورٹ کر رہا ہے ... اس پر مگر اگلی نشست میں بات ہو گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں