لیبل لگانے سے گریز کیاجائے!

کچھ عرصہ قبل ایک مضمون میں ایک معروف پاکستانی ماہر تعلیم کے حوالے سے ایک دلچسپ بات پڑھنے کو ملی۔آج کل ہمارے ہاں نصاب میں مختصر سوال جواب کے سٹائل( MCQs یعنی ملٹی پل چوائس کوئسچنز) کا رواج ہو چکا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں تین چار آپشنزآتی ہیں، جن میں سے ایک درست اور باقی غلط ہوتی ہیں۔ درست آپشن پر ٹک کرنے والے کو سو فیصد مارکس ملتے ہیں۔ اس سسٹم کی سب سے بڑی افادیت یہ بیان کی جاتی ہے کہ رٹالگانے والوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور جس نے اچھی طرح سمجھ کر پڑھا ہے، وہی کامیاب ہوتا ہے۔اس ماہر تعلیم نے البتہ ایک چونکا دینے والی بات کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرز تعلیم اور سوچ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ نوجوان سنگل ریالٹی (حقیقت)کے قائل ہوجاتے ہیں۔زندگی کے تمام تر پہلوئوں کے حوالے سے ان کی سوچ یہ بن جاتی ہے کہ مختلف آرا میں سے ایک درست اور باقی غلط ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان میں دوسرے کی رائے برداشت کرنے کی صلاحیت ختم ہو رہی ہے۔ رفتہ رفتہ یہ رویہ اور فکر شدت پسندی کی طرف لے جا رہی ہے۔ 
معلوم نہیں اس کی وجہ ملٹی پل چوائس کوئسچنز ہیں یا کچھ اور ،مگر یہ حقیقت ہے کہ یہ سوچ ہماری انٹیلی جنشیا میں بھی در آئی ہے۔اچھے خاصے صاحب علم لکھنے اور بولنے والے بھی اکثر معاملات میں اپنا توازن اور برداشت کھو بیٹھتے ہیں۔ جیسے ہی کسی معاملے پر کسی نے اپنی رائے دی، اس سے اتفاق نہ کرنے والے فوراً اس پر کوئی ٹیگ یالیبل چسپاں کر دیتے ہیں۔ پروامریکہ، اینٹی امریکہ، پروطالبان، مذہب دشمن، اسٹیبلشمنٹ یا خفیہ اداروں کا ایجنٹ... وغیرہ۔ مجھے یاد ہے کہ دو تین سال پہلے ایک ٹی وی پروگرام میں‘ میزبان سجاد میر نے افغانستان کی صورتحال پر ایک سوال کیا۔ ہمارے ایک سینئر صحافی‘ جو ہمیشہ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کے لئے کوشاں رہتے ہیں‘ نے افغان طالبان پر تنقید کی اور دعویٰ کیا کہ امریکی فوجیں افغانستان سے کبھی نہیں جائیں گی۔ اپنی باری آنے پر اس خاکسار نے عرض کیا: ''کسی کو اچھا لگے یا بُرا لیکن یہ حقیقت ہے کہ امریکی افواج افغانستان میں اپنے اہداف پورے نہیں کرسکیں‘ جب کوئی سپرپاور اپنا ایجنڈا مکمل نہ کرسکے، اپنی مخالف قوت کو شکست نہ دے سکے تو ایک اعتبار سے یہ اس کی شکست ہی ہوتی ہے، امریکیوں کو افغانستان سے نکلنا پڑے گا کیونکہ ان کی حکمت عملیاں بری طرح ناکام ہوئی ہیں۔ وہ افغان طالبان کی قیادت کو ختم کر سکے نہ ہی ان کے نیٹ ورک کو توڑ پائے۔ سب سے بڑھ کر وہ افغانستان کی پشتون آبادی کو اکاموڈیٹ کرنے میں ناکام رہے۔ طالبان دوبارہ پشتون علاقوں کی سب سے بڑی قوت بن گئے، اس لئے امریکیوں کا جانا تو طے ہوچکا،سوال اب صرف یہ ہے کہ وہ کس قدر نقصان اٹھا کر جاتے ہیں اور جانے سے پہلے وہ افغانستان میں کیا متبادل سیٹ اپ چھوڑیں گے اور وہ کتنا عرصہ طالبان کا مقابلہ کر پائے گا‘‘۔ پروگرام ختم ہوا ، ہم باہر نکلنے لگے توان صاحب نے مسکرا کر مجھے دیکھا اور طنزیہ لہجے میں بولے: ''تو آپ بھی طالبان ہیں‘‘۔ میں نے جواباً کچھ کہنا چاہا تو انہوں نے بات ختم کرتے ہوئے کہا‘ ''امریکہ پر تنقید کرنے والے طالبان ہی کے حامی ہیں‘‘۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ اتنے سینئرآدمی‘ جنہیں دنیا بھر کا ایکسپوژر حاصل ہے، کو اتنا بھی نہیں معلوم کہ کسی ملک، گروہ یا تنظیم پر تنقید کرنے والا ضروری نہیں کہ اس کا مخالف ہو۔ اسی طرح ایک گروہ یا کمیونٹی کی کسی خاص حوالے سے حمایت کرنے والا ممکن ہے اس کا نظریاتی مخالف ہو، مگر کسی اصولی نکتے پر اس کو سپورٹ کر رہا ہو۔ 
یہ فکری تقسیم کا شاخسانہ ہی ہے کہ ہم اپنے سے مختلف کسی بھی رائے کو فوری طور پر غلط قرار دے کر کسی نہ کسی کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ اصل میں ایک طویل عرصے تک ہم سنگل ریالٹی ورلڈ میں زندہ رہے۔ ہمارا دوست یا ہمارا دشمن۔ تیسری کوئی صورت ہم نے کبھی سوچی ہی نہیں۔ یہ سوچ درحقیقت شدت پسندوں اوردہشت گردوں کی رہی ہے۔ انہوں نے ہمیشہ درمیان میں رہنے والوں کی حوصلہ شکنی کی،انہیں بزدلی اور غیر جانبداری کے طعنے دئیے ۔ شدت پسند جانتے ہیں کہ اگر اعتدال اور درمیان کی بات کہنے والے بڑھے تو اس کے فطری نتیجے میںسماج سے شدت پسندی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ افسوس یہ ہے کہ ہمارے پڑھے لکھے لوگ بھی اسی روش پر چل نکلتے ہیں۔ ہم نے طلبہ کو، نوجوانوں کو ، اپنے عوام کو کبھی بتایا ہی نہیں کہ ملٹی ریالٹی ورلڈ بھی ہے۔ زندگی صرف بلیک اینڈ وائیٹ کا نام نہیں۔ اس میں گرے شیڈز بھی ہوتے ہیں۔ اس میں کہیں ہاف بلیک، ہاف وائیٹ، لائیٹ بلیک ،لائیٹ گرے شیڈ بھی آتے ہیں۔ 
اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے۔ اہم بات مگر یہ ہے کہ اس دہشت گردی کی مختلف سطحیں اور چہرے ہیں۔ سب سے نمایاں پاکستانی طالبان یا ٹی ٹی پی کے مختلف گروپس کے جانب سے کیے جانے والے حملے ہیں۔ فطری طور پر ہماری توجہ اس جانب زیادہ مبذول ہوگی ،مگرکہیں ایسا نہ ہو کہ دہشت گردی کرنے والے دوسرے گروہ نظر انداز ہوجائیں۔مثال کے طور پر کراچی کی دہشت گردی کی اپنی ساخت ہے اور اس کے مخصوص عوامل ہیں۔ اس میں شامل کئی دوسرے فیکٹرز کے ساتھ ٹی ٹی پی کے گروپس بھی شامل ہیں، تاہم اگر کراچی سے پاکستانی طالبان اور کالعدم تنظیموں کا صفایا ہوجائے تو پھر بھی وہاں دہشت گردی ختم نہیں ہوگی۔ مقامی سیاسی گروپوں، لینڈ مافیا، ڈرگ مافیا اور لیاری گینگ وار پہلے کی طرح موجود رہیں گے۔ اسی طرح کالعدم فرقہ وارانہ تنظیموں کی دہشت گردی ایک الگ ہی مضمون ہے۔ بلوچ شدت پسندوں کی جانب سے کی جانے والی ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی بھی ایک الگ موضوع ہے۔ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ 
جہاں تک پاکستانی طالبان یا ٹی ٹی پی کا تعلق ہے ، ان کے حوالے سے جو بھی حکمت عملی اپنائی جائے ، اس کا جامع ہونا ضروری ہے۔یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ ٹی ٹی پی ایک نظریاتی گروہ ہے اور اس کے ارکان اپنی خاص مذہبی فکر رکھتے ہیں اور اس کی بنا پر بعض حلقوں میں سپورٹ حاصل کرتے ہیں۔برادرم خورشید احمد ندیم کو اللہ جزائے خیر دے، انہوں نے اپنے گزشتہ کالم میں کمال خوبصورتی سے اس موضوع کو سمیٹا ہے۔ اتنی عمدگی سے کہ اس باب میں مزید کچھ لکھنے کی گنجائش ہی نہیں رہ گئی۔کسی بھی مسلح گروہ کو کائونٹر کرنے کی دو حکمت عملیاں بنائی جاتی ہیں۔ ان سے بات کر کے، قائل کر کے ہتھیار رکھنے پر مجبور کر دیا جائے یا پھر ان کے خلاف جوابی کارروائی کی جائے۔ان دونوں آپشنز کی تفصیل میں سردست جائے بغیر میں صرف اتنا کہوں گا کہ اگر کوئی ان میں سے کسی آپشن کا حامی یا مخالف ہے تو براہ کرم اس پر کوئی لیبل نہ لگایا جائے۔ جو طالبان سے مذاکرات کی بات کرتے ہیں، انہیں دہشت گردی کا حامی کہنا زیادتی اور ظلم ہوگا۔یہ ممکن ہے کہ ان کا استدلال غلط ہو یاان مسلح گروہوں کے ساتھ مذاکرات ممکن نہ ہوپائیں، مگر ایسی سوچ رکھنے والوں کو ان کے اخلاص، درد مندی اور امن پسندی کی رعایت تو دینی چاہیے۔ جو لوگ سینکڑوںبلکہ ہزاروں نان بلوچی سیٹلرز کے قاتل بلوچ مسلح گروہوں کے ساتھ مذاکرات کی بات کرتے ہیں ، انہیں تو اینٹی اسٹیبلشمنٹ، امن دوست اور پرو ہیومن رائٹس قرار دیا جائے جبکہ یہی حکمت عملی دوسری طرف اپنانے والے پر طعنہ زنی سمجھ سے باہر ہے۔ اسی طرح پاکستانی طالبان کے خلاف آپریشن کی بات کرنے والوں پر امریکی ایجنٹ ہونے کی پھبتی کسنا بھی غلط ہے۔ ملک میں ہر طرف بہتے خو ن اور انتہائی سفاکانہ کارروائیاں کر کے ان کا اعتراف جرم کرنے والوں کے خلاف شدید جذبات پیدا ہونا فطری امر ہے۔ اہم نکتہ صرف یہ ہے کہ ہمیں اہم معاملات جذبات کی بجائے عقل وتدبر سے حل کرنے چاہئیں۔ انٹیلی جنشیا کا کام جذبات میں بہنا نہیں۔ ٹھنڈے دل ودماغ سے معاملے پر غور کرنا اور اخذ کردہ تجزیے کو دیانت داری سے پیش کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔ ٹاک شوز میں اڑائی جانے والی گرد اورجذباتی نعروں سے بے نیاز ہو کر انہیں اپنا کام کرتے رہنا چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں