پولیوویکسین‘ حقیقت کیا ہے؟

پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں سے ہے، جہاں ہر قسم کا سازشی نظریہ فوراً قبول کر لیا جاتا ہے۔کسی بھی موضوع کے حوالے سے، کچھ بھی کہہ دیا جائے، کچھ لوگ اسے دل وجاں سے ماننے کیلئے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ چند سال پہلے ایک ریسرچ سامنے آئی کہ نہار منہ چار گلاس پانی پینے کی غیرمعمولی افادیت ہے۔ اس سے شوگر، بلڈ پریشر سمیت کئی بیماریوں میں نفع ہوتا ہے۔ ان دنوں کہا جاتا تھا کہ یہ جاپانی سائنس دانوں کی تحقیق ہے۔اس ریسرچ کے آج بھی فیس بک پر بے شمار حوالے ملتے ہیں۔ کئی بزرگوں سے بھی یہ نسخہ منسوب کیا جاتا ہے۔ابھی پچھلے دنوں ایک حکیم صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ کوالیفائیڈ حکیم ہیں اور ایک معروف دواساز کمپنی کے مطب میں بھی ذمہ داریاں سرانجام دیتے رہے ہیں۔ ان سے گپ شپ ہوتی رہی، باتوں کے دوران انہوںنے انکشاف کیا کہ نہار منہ چار گلاس پانی پینا پرلے درجے کی حماقت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض ملٹی نیشنل کمپنیوں نے دانستہ طور پر یہ بات مشہور کی ہے تاکہ بیماریاں پھیلیں اور ان کی دوائیاں فروخت ہوتی رہیں۔میں حیرانی سے ان کا منہ دیکھتا رہا کہ کیسے آسانی سے انہوں نے بیٹھے بٹھائے ایک سازشی تھیوری تخلیق کر لی ہے۔ امید واثق ہے کہ دو چار دنوں میں'' یہود وہنود‘‘کی یہ نئی ''سازش‘‘ فیس بک پر ہٹ ہوجائے گی اور ریکارڈ تعداد میں لائیک اور شئیرکی جائے گی۔ 
آج کل ایک اور حوالے سے نت نئے سازشی نظریے گردش کر رہے ہیں، یہ موضوع پولیو ویکسین کا ہے۔
اس کے مخالفین کے دلائل کا نچوڑ یہ ہے کہ پولیو کے قطروں میں کوئی ایسی شے شامل ہے، جس سے تولیدی صلاحیت متاثر ہوگی اور یہ ایک بہت بڑی مغربی سازش ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کی آبادی کم کی جائے۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ امریکہ اور یورپ ہمارا دشمن ہے تو اسے ہم سے اتنی کیا ہمدردی کہ وہ ہمارے لئے پولیو ویکسین کی مدد فراہم کرے۔اس پر لکھنے سے پہلے میں نے سوچا کہ پہلے اس حوالے سے خود تحقیق کی جائے۔ اس حوالے سے دستیاب لٹریچر پڑھنے اور انٹرنیٹ پر ریسرچ کر نے کے بعد میںنے کئی ڈاکٹروں سے بات کی۔ وائرالوجی کے ماہرین اور فارمسسٹوں سے بھی بات ہوئی، بیرون ملک مقیم بعض سپیشلسٹ ڈاکٹر دوستوں سے بھی ڈسکس کیا ۔ اس کے بعد ہی قلم اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ 
پولیو ویکسین کے بارے میں موجود مغالطوں کی اصلیت جاننے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ پہلے ویکسین اور پولیو ویکسین کے تصور کو سمجھ لیا جائے۔ ویکسین دراصل بیماریوں کے خلاف پہلے سے جسم کے اندر مدافعت پیدا کرنے کا نام ہے۔ جن امراض کی ویکسین ابھی تک ایجاد ہوچکی ہے، ان میں اس مرض کے مردہ یا غیر فعال (inactive)وائرس یانہایت کمزور اور کم قوت والے (Attenuated)وائرس کو جسم کے اندر داخل کیا جاتا ہے۔ یہ وائرس چونکہ مردہ یا نیم مردہ ہوتے ہیں، اس لئے یہ جسم کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت نہیں رکھتے، مگر انسانی جسم اپنی تربیت کے مطابق انہیں بطور دشمن یا فارن باڈی کے شناخت کر لیتا ہے، انہیں اپنی یادداشت میں رجسٹر کر لیتا اور ان کے خلاف اینٹی باڈی تیار کر لیتا ہے۔اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جب اس بیماری کے اصل جراثیم حملہ آور ہوں تو جسم ان کے لئے پہلے سے تیار ہوتا ہے اوراس کا مدافعتی نظام وقت ضائع کئے بغیر ان پر حملہ کر کے خاتمہ کر دیتا ہے ۔ اس کا نام ویکسین اس لئے رکھا گیا کہ شروع میں اٹھارویں، انیسویں صدی کی ایک نہایت خطرناک بیماری پلیگ (طائون) کے خلاف ویکسین تیار ہوئی۔ چونکہ اسے گائے کو متاثر کرنے والے وائرس سے بنایا گیا، لاطینی میں گائے یعنی cowکو vaccaکہتے ہیں، اس لئے اسی مناسبت سے اسے vaccine کہا گیا۔ پلیگ نے لاکھوں کروڑوں لوگوں کو ہلاک کیا تھا، اس کا علاج مشکل تھا، اس کا شکار ہونے والے مریضوں میں سے بیس تیس فیصد تک جانبر نہیں ہوپاتے۔ اس لئے جب ویکسین بنی تو بڑے پیمانے پر اس کی مہم چلائی گئی۔1853ء میں انگلینڈ میں طائون کی لازمی ویکسی نیشن کا قانون بنا، پابندی نہ کرنے والوں پر بھاری جرمانے لگائے گئے ۔ امریکہ اور یورپ میں حکومتوں نے اس ویکسی نیشن کو کامیاب بنایا، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جس بیماری نے تین سے پانچ کروڑ لوگوں کوہلاک کیا، آج اس کا دنیا سے نام ونشان ہی مٹ گیا۔ اسی طرح انفلوئنزا وائرس ہے، جس نے یورپ کے لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا تھا، کامیاب ویکسی نیشن سے یہ خطرہ بھی ٹل گیا۔ اسی طرح چیچک (سمال پاکس) ہے، جس نے صرف پچاس سال پہلے پاکستان کے ہزاروںلوگوں کو نشانہ بنایا تھا۔ آج بھی پچاس ساٹھ برس کی عمر کے چیچک زدہ چہرے والے لوگ نظر آجاتے ہیں، مگر جب اس کی ویکسین بنی اور اسے موثر مہم کے ذریعے ہر بچے تک پہنچا دیا گیا تو اس موذی مرض کا خاتمہ ہوگیا۔ 
خوش قسمتی سے پولیو جیسے خطرناک مرض کی ویکسین بھی ایجاد ہوچکی ہے۔ پولیو کا کوئی علاج نہیں ہے، اس کا وائرس مرکزی اعصابی نظام کونشانہ بناتا ہے اور ایک دفعہ اس کا حملہ ہوجائے تو مریض کے پاس معذوری کے سوا کوئی اور چارہ نہیں؛ تاہم اس کی ویکسین بہت کامیاب ہے ۔ پولیو کے حوالے سے ستر اور اسی کے عشرے سے ویکسی نیشن جاری تھی؛ تاہم 1988ء میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور یونیسف نے مل کر بڑے پیمانے پر اس کی ویکسی نیشن شروع کی،پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، مڈل ایسٹ سمیت افریقہ کے ممالک میں اس بیماری پرقابو پانے کیلئے امدادی پروگرام شروع کئے گئے۔ 88ء میں دنیا بھر میںپولیو کے ساڑھے تین لاکھ کیس سامنے آئے ، مگر 2011ء میں ان کی تعداد صرف ساڑھے چار سو رہ گئی۔ یورپ اور امریکہ میں یہ بالکل ختم ہوگئی۔ بھارت میں پچھلے دو برسوں کے دوران کوئی بھی کیس سامنے نہیں آیا، اس سال کے آخر تک یہی صورتحال رہی تو اسے بھی پولیو فری ملک قرار دیا جائے گا۔بنگلہ دیش پہلے ہی پولیو فری بن چکا ہے۔ اس وقت دنیا کے تین ممالک نائجیریا، پاکستان اور افغانستان میں پولیو کے مریض موجود ہیں، شام میں بھی چند کیسز سامنے آئے ہیں، مگر وہاں خانہ جنگی کے باعث ویکسی نیشن ہو ہی نہیں سکی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کی طرح نائجیریا کی مسلم ریاستوں میں بھی بعض شدت پسند مسلم گروپوں نے فتویٰ دیا کہ اس ویکسی نیشن کے ذریعے مسلمانوں کی آبادی کم کرنے کی سازش کی جارہی ہے، وہاں کے ایک اہم شہر کانو میں پولیو ویکسی نیشن کرنے والے کارکنوں پر القاعدہ کے حامی گروپوںنے حملے بھی کئے ہیں۔ 
مزے کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں بچے کو پیدائش کے بعد جن چھ مہلک بیماریوں کالی کھانسی، خناق، تشنج وغیرہ کے حفاظتی ٹیکے لگتے ہیں، وہ بھی ویکسین ہی ہے ،باہر ہی سے آئی ہے، مگر کبھی کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔بچوں کو خسرے سے بچائو کے لئے ویکسین بھی لگوائی جاتی ہے۔ حج یا عمرے پر جانے کیلئے گردن توڑ بخار کی ویکسین لینے کی شرط ہے، ہر کوئی بڑے شوق سے یہ ٹیکہ لگواتا ہے۔ نجانے صرف پولیو کے حوالے سے یہ تھیوری کیوں گھڑ لی گئی ہے؟ ویسے بھی مسلم ممالک میں سے فلسطین کی آبادی کے حوالے سے اسرائیل اور اس کی پشت پناہی کرنے والی عالمی قوتوں کو تشویش ہوسکتی ہے۔ فلسطین میںپولیو کی ویکسین پچھلے تیس برسوں سے جاری ہے، ان کی آبادی کم ہونے کے بجائے بڑھ ہی رہی ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق ایک فلسطینی عورت اوسطاً4.38 بچے پیدا کرتی ہے، جبکہ اسرائیلی عورت اوسطاً تین اور پاکستانی عورت اوسطاً 3.34بچے پیدا کرتی ہے۔ ہر فلسطینی نوجوان کو پولیو کی ویکسین لگ چکی ہے ،ان کے نتائج تو الٹا ان کے حق میں گئے ہیں ۔ ویسے پاکستان کے شہری علاقوں میں پچھلے تیس برسوں سے پولیو ویکسین لگ رہی ہے، ان سطور کے مصنف سمیت لاکھوں، کروڑوں نوجوانوں کو اس کا ٹیکہ یا قطرے پلائے جا چکے ہیں۔ اگر یہ نقصان دہ ہوتی تو آج شہر ویران ہوتے، حقیقت اس کے برعکس ہے۔پولیو ویکسین نہ کرانا ایک طرح کا جرم ہے ہی،جو لوگ سوچے سمجھے بغیر اس حوالے سے بے بنیاد افواہوں کو پھیلاتے ہیں، وہ اس سے بھی زیادہ بڑے جرم کا ارتکاب کررہے ہیں۔ خدا را اپنی عام زندگی میں بے شک نت نئے سازشی نظریے گھڑکر خوش ہوتے رہیے ، مگر اپنے معصوم بچو ں کی زندگیوں کے ساتھ تو کھلواڑ نہ کریں۔ یہ ہمارا مستقبل ہیں، معذورمستقبل کی فصل تو کاشت نہ کیجئے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں