دوسرا رائونڈ

حکومت اور پاکستانی طالبان کے مابین مذاکرات کے حوالے سے دوسرا رائونڈ شروع ہوچکا۔ پہلے رائونڈ میں فریقین نے اپنی اپنی کمیٹی کا اعلان کیا۔ دونوں اطراف سے اعلان کردہ افراد کا نام دیکھنے سے ان کی حکمت عملی اور مائنڈ سیٹ کا بڑی حد تک اندازہ ہوجاتا ہے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے قدآور سیاسی شخصیات یا ہیوی ویٹ علما کرام کو شامل کرنے کے بجائے ایسی کمیٹی بنائی ،جس میںدینی حلقوں اور سیاسی جماعتوں سے باہر کے مگر بڑی حد تک غیر متنازع اورطالبان کے ساتھ رابطے رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ جب حکومتی کمیٹی کا اعلان ہوا تو دوسروں کی طرح پہلے مجھے بھی قدرے حیرت ہوئی۔ پھرغور کیا تو اندازہ ہوا کہ یہ کمیٹی میاں نواز شریف کی طرف سے مذاکرات کے لئے سنجیدگی کی علامت ہے۔ اس میں کوئی ایسا شخص نہیں ،جس کی بلند وبالا قسم کی انا ہو اور وہ معمولی مسائل پر اڑ جائے ۔وزیراعظم نے یہ کمیٹی بنا کر اس معاملے کی اونر شپ خود لے لی ہے۔ اس کمیٹی کی کامیابی ان کی کامیابی اور ناکامی براہ راست ان کی ناکامی تصور ہوگی۔ عرفان صدیقی صاحب کی موجودگی سے کمیٹی کا وزیراعظم سے براہ راست رابطہ اور ہمہ وقت رسائی یقینی ہوگئی۔رستم شاہ مہمند کے پشتون علاقوں میں خاصے رابطے ہیں۔ رحیم اللہ یوسف زئی تو خیبر پی کے میں استاد صحافی تصور ہوتے ہیں۔ دل کے مریض ہیں، عملی طور پر زیادہ فعال نہیں، دفتر بھی کم ہی آتے ہیں، مگر خبر ان تک اڑ کر پہنچتی ہے۔ ہر جگہ ان کی رسائی اور احترام ہے۔ میجر عامر اس کمیٹی کے ایسے ممبر ہیں ،جو غیرمعمولی کردار ادا کرسکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پنج پیری خاندان سے تعلق کی وجہ سے ان کا ٹی ٹی پی کے فیصلہ ساز حلقوں میں اثرورسوخ ہے۔ تاہم ان کے دیگر حلقوں میں بھی گہرے روابط اور تعلقات ہیں۔ سردار مہتاب عباسی کی وزارت اعلیٰ میں وہ صوبائی حکومت کے اہم ترین مشیر تھے۔ امن مذاکرات میں ایک کردار مقامی قبائل کا بھی ہوگا، میجر عامر کے وہاں بھی اچھے تعلقات اور روابط ہیں۔ ان کی خاص بات یہ ہے کہ میڈیا میں اپنے وسیع تعلقات اور دوستیوں کے باوجود وہ لو پروفائل میں رہتے اورٹی وی سکرین پر آنے سے گریز کرتے ہیں۔
طالبان کی جانب سے اعلان کردہ پانچ رکنی کمیٹی نے بعض حلقوں کو پریشان اور خفیف بھی کیا۔ عمران خان خاصی دفاعی پوزیشن میں چلے گئے۔حالانکہ اس میں کوئی برائی نہیں بلکہ یہ تو عمران خان کا مثبت پوائنٹ تھا کہ اس پولرائزایشن کے دور میں کوئی تو ایسا قومی لیڈر ہے ،جو عسکریت پسندوںکے لئے بھی قابل قبول ہے۔طالبان نے براہ راست اونر شپ لینے کے بجائے ان لوگوں کا انتخاب کیا، جو مذاکرات ناکام ہونے کی صورت میں ان کامقدمہ پاکستانی عوام کے سامنے پیش کر سکیں۔ مولانا فضل الرحمن کو نظر انداز کرکے پاکستانی طالبان کے کسی کمانڈر نے اپنا پرانا بدلہ چکایا ہے۔ بے چارے مولوی صاحب ہمیشہ یہ تاثر دیتے رہے کہ ان کا طالبان حلقوں میں بڑا اثر ہے اور وہ مصالحت کنندہ بن سکتے ہیں۔اب معلوم ہوا کہ وہ اتنے جوگے نہیں، مولانا سمیع الحق ان سے زیادہ بااثر ہیں۔ ٹی ٹی پی نے اپنی مذاکراتی کمیٹی سے رابطے کرنے کے لئے جو 9 رکنی شوریٰ کمیٹی بنائی، وہ اہم لوگوں پر مشتمل ہے۔ اس میں ٹی ٹی پی کے نائب امیر خالد حقانی، پنجابی طالبان کے عصمت اللہ معاویہ، تنظیم کے ترجمان شاہد اللہ شاہد، جنوبی وزیرستان کے ترجمان اعظم طارق، طاقتور مہمند گروپ کے سربراہ عمر خالد خراسانی اور کنوینر قاری شکیل وغیرہ شامل ہیں۔ قاری شکیل عمر خالدکے ڈپٹی رہے ہیں، کچھ عرصہ قبل یہ خبریں آئی تھیں کہ انہوں نے اپنا الگ گروپ بنا لیا ہے، انہیں اس کمیٹی کا کنوینر بنانا دلچسپ امر ہے، کیونکہ ان سے کہیں زیادہ سینئر رہنما کمیٹی میں موجود ہیں۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ ہو کہ خالد حقانی وغیرہ وزیرستان سے دور ہیں، عمر خالد افغان صوبہ نورستان آتے جاتے رہتے ہیں، دوسرے لوگ بھی ضرورت پڑنے پر افغان سرحدی علاقوں میں روپوش رہتے ہیں، اس لئے ان کے لئے منظرعام پر آنا آسان نہیں ہوگا، یہ کام قاری شکیل کو کرنا ہوگا۔ 
حکومت اور پاکستانی طالبان کے مابین مذاکرات کے حوالے سے اب دوسرا رائونڈ شروع ہوگیا ہے۔ ہمارے خیال میں مذاکرات کامیاب کرنے کے لئے دو تین بنیادی فیصلے اور اعلانات کرنے ہوں گے۔ سب سے اہم تو مذاکراتی کمیٹیوں کا میڈیا سے دور رہنا ہے۔ کامیابی کے لئے زباں بندی اورکیمرے کے سامنے آنے سے اجتناب کرنا ہوگا۔ جو بھی گلے شکوے، اعتراضات، 
صفائی، وضاحتیں کرنی ہیں، وہ دونوں کمیٹیوں کے ارکان کو آپس میں کرنا ہوں گی۔ میڈیا ہائپ مذاکرات کے لئے زہر قاتل کی حیثیت رکھتی ہے۔ طالبان کی جانب سے مذاکرات کی جو فہرست موصول ہوگی، اسے بھی ہر صورت خفیہ رکھا جائے ، اس پر حکومتی کمیٹی کی جانب سے آنے والے اعتراضات اور جوابی مطالبات بھی پس پردہ رکھے جائیں۔بہتر تو یہ ہوگا کہ ملاقاتوں کے حوالے سے بھی میڈیا کو نہ بتایا جائے، خفیہ ملاقاتیں کی جائیں۔ فریقین کو باقاعدہ نوعیت کے سیز فائر کا اعلان بھی کرنا چاہیے۔ ہر قسم کا آپریشن روک دیا جائے، ٹی ٹی پی بھی اپنے چھوٹے بڑے تمام گروپوں کو مکمل طور پرغیر فعال کر دے۔حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد بعض میڈیا اینکرز نے اعتراض کیاتھا کہ حکومت نے حکیم اللہ کے سر کی مقرر کردہ قیمت ختم نہیں کی تھی۔ اس بار احتیاط کرنا ہوگی، اگر کسی ٹی ٹی پی کے رہنما کے سر کی قیمت مقرر ہے تو اسے بلا تاخیر ختم یامعطل کر دینا چاہیے۔ بعض اوقات کلریکل غلطی کے باعث مخالفین کو پروپیگنڈہ کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔
پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کامیاب بھی ہوسکتے ہیں، ناکام بھی۔ اہم بات مگر یہ ہے کہ حکومت کو سنجیدگی سے یہ کوشش کرنی چاہیے۔ ان کی جانب سے کوئی ایسی غلطی نہ ہو، جس سے امن مذاکرات سبوتاژ ہوجائیں۔پہلی بار پاکستانی طالبان پر بھی مذاکرات کے لئے اندر اور باہر دونوں اطراف سے دبائو ہے۔ شمالی وزیرستان کے ملا نذیر اور حافظ گل بہادر گروپوں کے ساتھ ساتھ حقانی نیٹ ورک کی جانب سے بھی ٹی ٹی پی پر دبائو ہے۔ ہر ایک کو اندازہ ہے کہ ناکامی کی صورت میں شمالی وزیرستان میں بھرپور آپریشن ہوگا، جس کا تمام تر نقصان شمالی وزیرستان کے لوگوں کو ہوگا۔چھ سات لاکھ کے قریب لوگ نقل مقانی پر مجبو رہوں گے۔ شمالی وزیرستان کے لوگوں کے لئے ایک بڑا اعلان حکومت کی جانب سے کیا گیا، اگرچہ اسے میڈیا میں نظر انداز کیا گیا۔ وہاں کے لوگوں کا دیرینہ مطالبہ تھا کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے لئے شمالی وزیرستان کا افغانستان سے منسلک غلام خان بارڈر کھولا جائے۔ اس حوالے سے پچھلے دنوں اعلان کیا گیا۔ اگر اس روٹ سے ٹریڈ شروع ہوئی تو مقامی قبائل کی زندگیاں بدل جائیں گی، روزگار کے بے پناہ مواقع پیدا ہوں گے۔ طالبان اپنے قیدی چھڑانے، فورسز کی واپسی اور متاثرین کی مالی تلافی کے ساتھ ساتھ شریعت کے نفاذ کا مطالبہ بھی کریں گے۔ باقی توکسی نہ کسی حد تک پورے ہوجائیں گے، نفاذ شریعت البتہ ایسا مطالبہ ہے ،جس کی پاکستان کے دینی اور عوامی حلقوں میں بھی حمایت موجود ہے،مگر اس مطالبے کو واضح طور پر سمجھنا آسان نہیں۔عام آدمی کا اس حوالے سے تصور مبہم ہے، وہ اسلامی نظام لانے کو ہر مسئلے کا حل سمجھتا ہے، مگر اس سے مراد کیا ہے، یہ اسے خود بھی نہیں معلوم۔ہماری دینی سیاسی جماعتوں کا یہ بنیادی نعرہ اور مطالبہ رہا ہے ۔ کیا اب وقت نہیں آگیا کہ لگے ہاتھوں، اس حوالے سے بھی کوئی ٹھوس اور واضح نقشہ سامنے لے آیا جائے؟ ہمارے دینی حلقوں ،خاص کر طالبان کی سپورٹ کرنے والے ''جید علماء‘‘کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس ایشو پر پوری یکسوئی کے ساتھ تحریری شکل میں روڈمیپ دیں، جسے قومی سطح پر بحث کا موضوع بنایا جاسکے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں