چار فیصلے

اس سولہ سالہ لڑکے کے لئے امریکہ نئی دنیا کے مترادف تھا۔ ہر چیز اسے بدلی ہوئی لگ رہی تھی۔ اس کے آبائی وطن یوکرائن کی گھٹی، حبس زدہ فضا کے مقابلے میں کیلی فورنیا کا یہ شہر مائونٹین ویوکسی ارضی جنت کی طرح تھا۔معاشی تنگی نے البتہ لڑکے اور اس کی ماں پر مشتمل دو نفری خاندان کا پیچھا نہ چھوڑا۔ ویلفیئر دفتر سے انہیں فوڈ کوپن ملتے، جن کی مدد سے وہ اپنا پیٹ بھرنے کے قابل ہوپاتے،رہنے کے لئے دو کمروں کا مختصر فلیٹ بھی ریاستی امداد سے ملا ۔ ان کا آبائی گائوں یوکرائن کے دارالحکومت کیف کے قریب واقع تھا، وہاں پر معاشی تنگی اور سیاسی عدم استحکام نے انہیں ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا ۔ اس کا والد البتہ وہیں مقیم رہا، ماں نے اپنے لڑکے کو ساتھ لیا اوربہتر معاشی مستقبل کا سپناا ٓنکھوں میں سجائے امریکہ کا رخ کیا۔ وہ اپنے ساتھ سوٹ کیس میں سستے مقامی پین اور بیس پچیس روسی نوٹ بکس بھی لے آئی کہ بعد میں اپنے بیٹے کی تعلیم کے دوران سٹیشنری اخراجات سے بچا جا سکے ۔لڑکے نے مائونٹین ویو کے ایک سکول میں داخلہ لے لیا۔ ماں کوبے بی سٹنگ کی ملازمت مل گئی جبکہ اس کے بیٹے کو پڑھائی کے ساتھ ساتھ شام کو ایک سبزی کی دکان میں فرش دھونا پڑتا کہ چند ڈالر حاصل ہوسکیں۔ جلد ہی اس کی کمپیوٹر میں دلچسپی پیدا ہوگئی۔ اس نے پرانی کتابوں کی ایک دکان سے استعمال شدہ مینول خریدے اور کمپیوٹر نیٹ ورکنگ سیکھ لی۔ وہ اپنے نوٹس بنا لینے کے بعد استعمال شدہ کتاب دوبارہ دکان کو لوٹا دیتا اور اس کی جگہ دوسری لے لیتا۔ کمپیوٹر کی دنیا اس کے لئے نئی مگر پرکشش ثابت ہوئی۔اس نے دل وجان سے اسے اپنانے کی کوشش کی۔ گھنٹوں کمپیوٹر پر بیٹھا رہتا۔ اس دوران اس نے یونیورسٹی میں بی ایس سی کمپیوٹر سائنس کے لئے داخلہ لے لیا۔وہ ملازمت کے لئے بھی کوشاں رہا۔ 
1997 ء اس نوجوان کے لئے نیا موڑ لے کر آیا۔ اسے مشہور سرچ انجن ''یاہو‘‘ میں انفراسٹرکچر انجینئر کے طور پر ملازمت مل گئی۔ یہیں پر اس کی دوستی ایک ایسے شخص کے ساتھ ہوئی، جس نے آنے والے برسوں میں اس کا کاروباری پارٹنر بننا اور دنیا کو حیران کر دینا تھا۔ برائن ایکٹن نامی یہ شخص اس سے عمر اور تجربے میں کئی سال بڑا اور یاہو میں سافٹ وئیر انجینئر تھا۔ دونوں ہی سنجیدہ مزاج، اپنے کام سے محبت کرنے والے اور تخلیقی قوت سے مالامال تھے۔ یوکرائنی نوجوان نے شروع میں ملازمت اور یونیورسٹی ایک ساتھ چلانے کی کوشش کی،مگر ناکام رہا، آخر اسے یونیورسٹی چھوڑنا پڑی۔ اس وقت یقینا وہ اس بات سے بے خبر ہوگا کہ سولہ سترہ برس بعد مالیاتی تجزیہ کاروں نے اس کا شمار بل گیٹس اور فیس بک کے بانی مارک زکر برگ کے ساتھ کرنا ہے کہ ان سب کو کسی نہ کسی وجہ سے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کریونیورسٹی سے نکلنا پڑا۔ اگلے نوبرسوں میں دونوں دوستوں نے یاہو کے کاروباری نشیب وفراز کو قریب سے دیکھا۔ گوگل سرچ انجن نے یاہوکو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔یوکرائنی نوجوان ،جو اب اتنا زیادہ نوجوان نہیں رہاتھا، اسے اشتہارات کبھی بھی پسند نہیں رہے تھے۔ اس کی ایک نفسیاتی وجہ بھی تھی، اس کے آبائی وطن یوکرائن میں حکومت کارویہ عوام کے لئے دوستانہ نہیں تھا۔ ہر طرف جبر اور پابندی تھی، لوگوں کے لئے آزادی سے سانس لینا بھی محال تھا، ان کے فون، ای میلز، دستاویزات ... غرض ہر چیزکہیں نہ کہیں چیک ہوتی تھی۔ اسے محسوس ہوا کہ یاہو یا دوسرے آئی ٹی ادارے بھی کم وبیش وہی کام کر رہے ہیں۔ یہاں بھی صارفین کے ڈیٹا کو حاصل کرنے ، اسے کھنگالنے ، تجزیہ کرنے اور پھر کمرشل استعمال کرنے کے لئے دوڑ لگی ہوئی تھی۔ ستم ظریفی یہ ہوئی کہ اسے یاہو کی اس تکنیکی ٹیم میں شامل ہونا پڑا، جس نے یاہو کے اشتہاری پراجیکٹ پاناما کو لانچ کرنا تھا۔وہ کام تو کرتا رہا،مگر اپنے آپ کو خالی محسوس کرنے لگا۔
ستمبر 2007ء میں اس نے ایک بڑا فیصلہ کیا اور یاہو چھوڑ دیا۔یہ اس یوکرائنی نوجوان ،جسے دنیا آج جیری کوم کے نام سے جانتی ہے، اس کی زندگی کا سب سے اہم موڑ تھا۔ اس رات بیٹھ کر اپنی اگلی زندگی کے لئے چار بنیادی فیصلے کئے۔ پہلا یہ کہ وہ پروفیشن اپنا نا ہے ، جس سے محبت ہو، وہ کام نہیں کرنا،جس سے پیسے تو آجائیں،مگر آدمی اندر سے خالی ہوجائے۔ دوسرا جو بھی کام کرنا ہے، اس پر پورا فوکس کرنا ہے،ایک وقت میں ایک سے زیادہ کام کر کے فکری انتشار کا شکار نہیں ہونا۔ تیسرا اصول یہ کہ کبھی ہمت نہیں ہارنی، زندگی کی دوڑ میں اگر تھکن ہونے بھی لگے تو اسے فوری جھٹک کر دوبارہ سے کھڑا ہوجانا ہے۔ آخری ،مگر اہم اصول یہ کہ کچھ نیا کرنا ہے، روٹین کا کام کرنے کے بجائے مختلف اور نیا کرنا ہے، اپنے لئے ایک نیا راستہ کھوجنا ہے، جس پر کبھی کوئی چلا نہ ہو۔ 
جیری کے دوست برائن ایکٹن نے بھی اس کے ساتھ استعفیٰ دے دیا۔ دونوںنے اپنی زندگی کے خالی پن کو بھرنے کی کوشش کی، کئی ماہ تک کوئی کام نہیں کیا، مختلف جنوبی امریکی ریاستوں کی سیر کرتے اور فریزبی کھیلتے رہے۔ اس دوران ان دونوں نے فیس بک میں ملازمت کے لئے اپلائی کیا، مگر انکار ہوگیا۔سات برس بعد ایک امریکی اخبار نے فیس بک کی جانب سے یوکرائنی کمپیوٹر انجینئر کو ملازمت نہ دینے کے فیصلے کو ملٹی بلین ڈالر مس ٹیک (کئی ارب ڈالر کی غلطی)قرار دیا۔ٹوئٹر نے بھی انہیں ملازمت نہیں دی۔ اس دوران جیری کوم اپنی جمع پونجی استعمال کرتا رہا اور مستقبل کے لئے نئے پلان بناتا رہا۔2009 ء کے اوائل میں اس نے آئی فون خریدا، چند دن استعمال کے بعد اسے محسوس ہوا کہ سمارٹ فون کے ایپلی کیشنز کے حوالے سے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے ایک ایسا انسٹنٹ میسجنگ ایپلی کیشن بنانے کا خیال آیا ، جو فری ہو اور جسے تمام اقسام کے فون پر استعمال کیا جا سکتا۔ اس آئیڈیے پر اس نے برائن ایکٹن اور بعض دوسرے دوستوں سے ڈسکس کیا اور آخرفروری2009ء میں واٹس ایپ (Whats App) کمپنی کی بنیاد ڈالی۔ شروع میں کچھ تکنیکی مشکلات رہیں، مگر پھر واٹس ایپ نے نہایت تیزرفتاری سے مقبولیت حاصل کر لی۔ انہوں نے واٹس ایپ کے حوالے سے بھی دو بنیادی فیصلے کئے۔ اشتہارات نہیں دینے، خواہ کتنا بھی مالی نقصان ہو، ان کے نزدیک صارف کی پرائیویسی زیادہ اہم تھی، اشتہارات کی دوڑ 
میں شامل ہونے کا مطلب زیادہ سے زیادہ ڈیٹا اکٹھا کرنا، اسے استعمال کرنا اور آخر کارصارف کو ایک پراڈکٹ سمجھ لینا ہے۔ وہ ایسا نہیں کرنا چاہتے تھے،انہوں نے فری انسٹنٹ میسجنگ ایپلی کیشن بنائی، جہاں صرف ایک ڈالر سالانہ پیمنٹ کرنی تھی،جو کسی ایک فون کے بجائے بلیک بیری، نوکیا، ایپل، مائیکرو سافٹ ونڈو فون وغیرہ پر چل سکے۔ آج یہ صورتحال ہے کہ واٹس ایپ کے پینتالیس کروڑ صارف ہیں، تیس چالیس کروڑ لوگ روزانہ واٹس ایپ استعمال کرتے ہیں،دس لاکھ افراد ہر روز رجسٹر ہو رہے ہیں، ساٹھ کروڑ فوٹو روزانہ اپ لوڈ ہوتی ہیں، بیس کروڑ وائس میسجزجبکہ دس ارب میسجز روزانہ بھیجے جاتے ہیں۔اس غیرمعمولی مقبولیت کا صلہ یہ ملا کہ دو دن قبل فیس بک نے واٹس ایپ کو انیس ارب ڈالر میں خرید لیا۔ مشہور مالیاتی میگزین فوربس کے مطابق یوکرائنی نژادجیری کوم ایک ہی دن میں سات ارب ڈالر یعنی ساڑھے سات سو ارب سے زیادہ پاکستانی روپوں کا مالک بن گیا۔جیری کوم اس غیرمعمولی بریک تھرو کے بعد بھی پہلے ہی کی طرح پرسکون ہے۔ اس نے اپنے صارفین سے وعدہ کیا کہ انہیں اشتہارات کی یلغار کا نشانہ نہیں بنایا جا ئے گا، ان کے لئے زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔فیس بک کی ڈیل سے کچھ عرصہ پہلے ایک اخبارنویس نے جیری کوم سے اس کی کامیابی کا رازپوچھا۔ واٹس ایپ کے بانی کا مختصر جواب تھا،'' میں نے وہ کام کیا جو مجھے دل سے پسند تھا، جس میں نیا پن اور تخلیقی تازگی تھی اورمیں اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ اس پر فوکس رہا۔ میں نے ایک لمحے کے لئے بھی اپنے ہدف سے نظر نہیں ہٹائی۔کامیابی میرا حق بن چکی تھی، اس کا نہ ملنا البتہ زیادتی اور اچنبھا ہوتا‘‘۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں