دہشت گردی: ٹھوس منصوبہ بندی کرنا ہوگی

اگر کوئی برانہ مانے تو مجھے یہ کہنے کی اجازت دیں کہ اسلام آباد ایف ایٹ میں کچہری پر دہشت گردوں کے حملے کو درست تناظر میں نہیں دیکھا جا رہا۔ یہ حملہ ایک نئے ٹرینڈ کی نشاندہی کر رہا ہے۔ اس حملے میں قیمتی جانوں کانقصان اپنی جگہ، اس کی بے پناہ اہمیت ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ اس حملے کے ذریعے جو نادیدہ پیغام دیا گیاہے اوراس سے جو اشارے ملتے ہیں، انہیں بھی دیکھنا اور سمجھنا چاہیے۔ میری ناچیز رائے میں سکیورٹی کے انتظامات ناقص ہونا، واک تھروگیٹ کی خرابی، پولیس اہلکاروں کا موجود نہ ہونایا درست طریقے سے مسلح نہ ہونا، موقعے سے بھاگ جانا،دہشت گردوں کو کھل کھیلنے کا پورا موقعہ مل جانا... یہ سب بہت اہم چیزیں ہیں۔ان کا نوٹس لینا چاہیے ، یہ سب کمزوریاں دور ہونی چاہئیں۔ دہشت گردوں کا اگرمقابلہ کرنا ہے تو اس قسم کی کمزوریوں سے نجات پانا اشد ضروری ہے، مگر کہانی یہاں سے شروع نہیں ہوتی، اس کی ابتدا بہت پہلے سے ہوتی ہے۔ اس الجھی ڈورکو سلجھانے کے لیے اس کا سرا پکڑنا ہوگااور اس کے لیے ذرا پیچھے جانا پڑے گا؛ تاہم وہاں جانے سے پہلے ہم اس طریقہ واردات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
ہمارے خفیہ ادارے اس حوالے سے تحقیقات کر رہے ہوں گے، ان کے پاس اس کے وسائل بھی ہیں اوراندرونی کہانی ان تک چَھن چَھن کرپہنچ ہی جائے گی، مگر بادی النظر میں یہ اسی طرزکی کارروائی ہے جوماضی میں طالبان اور القاعدہ سے منسلک گروپ کرتے رہے۔ سری لنکن ٹیم کو نشانہ بنایا جانا، لاہور میں پولیس ٹریننگ سکول اوراہم اداروں کے دفاتر پر حملے، جی ایچ کیو پر حملہ، مہران بیس پرکارروائی یا اسی طرزکی دیگر کارروائیوں میں یہی طریقہ 
اپنایاگیا تھا۔ ایسی ہرکارروائی میں خودکش بمباروں کے ساتھ گن فائٹ والے لڑکے بھی شامل ہوتے تھے جنہوں نے تربیت یافتہ کمانڈوزکی طرح انتہائی تیز رفتاری سے آپریشن کیا،چاروں طرف فائرنگ کرکے خوف اور دہشت کی فضا پھیلائی اورپھر ان میں سے کچھ فرار بھی ہوگئے۔ جی ایچ کیویا بعض دوسرے حملوں میں چونکہ اہم اہداف کو یرغمال بنانا بھی منصوبے میں شامل تھا، اس لیے وہاں کسی ایسے کمرے یا بند جگہ پر پناہ لے لی گئی جہاں سے اگلے کئی گھنٹے جنگ لڑی جا سکے۔ ایسی کارروائیوں میں پانی کی بوتلیں یا ڈرائی فروٹ وغیرہ بھی ساتھ رکھے جاتے رہے ہیں۔
اسلام آباد کی کارروائی میں چونکہ یہ منصوبہ نہیں تھا، اس لیے حملہ آورصرف آئے، اندھا دھند فائرنگ کر کے دہشت پھیلائی اور پھر ان میں سے بیشتر نکل گئے، جو دو پھنس گئے انہوںنے خودکو اڑا لیا۔ ممکن ہے ان خودکش بمباروں کو اس لیے ساتھ لیا گیا ہوکہ اگر واک تھروگیٹ کام کر رہے ہوں یا انہیں اندر داخل ہوتے ہوئے روکا جائے تو یہ خود کو اڑا کر سکیورٹی گارڈزکو ہلاک کردیں اورافراتفری پھیلانے کے ساتھ راستہ صاف کریں۔ چونکہ ایف ایٹ کچہری میں کسی نے دہشت گردوں کو روکنے کی زحمت ہی نہیں فرمائی، اس لیے وہ خودکش بمبار آرام سے اندر چلے آئے، اپنے آپ کواڑانے کا کام انہوں نے بعد میں کیا۔ القاعدہ سے متعلق کئی گروپ ایسی کارروائیاں مختلف ممالک میں کر رہے ہیں۔ 
جس تنظیم نے ذمہ داری قبول کی، اس نے اپنا نام ''احرارالہند‘‘بتایا۔ انتہائی آسانی سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک فرضی اورکیموفلاج کرنے والا نام ہے۔ اس نام کی کوئی تنظیم پہلے موجود نہیں تھی اوریہ بھی اہم ہے کہ اس طرح کی کارروائی کوئی نوزائیدہ تنظیم کر ہی نہیں سکتی۔ یہ ایک منظم کارروائی ہے۔ جس گروپ نے یہ کام کیا، اس کے پاس انتہائی اعلیٰ تربیت یافتہ گن فائٹ کرنے والے لڑکے اور خودکش بمبار موجود تھے۔ ان کامضبوط نیٹ ورک ہے جس کی پشت پناہی سے وہ یہ کارروائی کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ ٹی ٹی پی سے وابستہ کسی گروپ کا کام ہے یا ان سے الگ یاکٹے ہوئے کسی گروپ نے یہ کام کیا ہے۔ ٹی ٹی پی نے اس کی تردید اور(نرم سی) مذمت بھی کی ہے۔ فرض کریں اگر ان کا بیان درست نہیںاور یہ ٹی ٹی پی کی درپردہ کارروائی ہے تو یہ مستقبل میں امنڈنے والے خونی طوفان کی نشاندہی کر رہی ہے۔اس اندیشے کی تصدیق ہوگئی کہ ٹی ٹی پی کے پاس اتنی قوت اور نیٹ ورک ہے کہ وہ کسی بھی شہر میں اس طرزکی کارروائی کر سکے۔ اگر وہ اسلام آباد جیسے ہائی پروفائل شہر میںایسا کر سکتے ہیں تو پھرکسی دوسرے میںکرنا ان کے لیے نسبتاً آسان ہوگا۔ اگرہم ٹی ٹی پی کی تردید تسلیم کر لیں اور یہ مان لیں کہ یہ کوئی اجنبی گروپ ہے تواس صورت میں خطرہ زیادہ بڑھ جاتا ہے، یعنی ایسے گروپ موجود ہیں جو ہمارے اداروں کے ریڈار پر بھی نہیں، مگر وہ اتنی قوت اور نیٹ ورک رکھتے ہیں کہ جب اور جہاں چاہیں ہمارے پورے سکیورٹی سسٹم کو درہم برہم کر کے رکھ دیں۔ دونوں صورتوں میں یہ انتہائی خطرناک بات ہے۔ ہمارے اداروںکواب آنے والے چیلنج کے حجم اوراس کی قیامت خیزی کے حوالے سے کلیئر ہوجانا چاہیے۔ 
ہمیں اب یہ مان لینا چاہیے کہ ہمارا سویلین سکیورٹی نظام جو پولیس پر مشتمل ہے، وہ موجودہ چیلنج سے نمٹنے کے لیے انتہائی ناکافی ہے۔ اس سطح کے کمانڈو ایکشن کا مقابلہ کرنا موجودہ پولیس فورس کے بس کی بات نہیں۔ یہ سپاہی عام سطح کے مجرموں کے مقابلے کے لیے تیار ہوتے ہیں، ان کی تربیت ، اسلحہ اور سب سے بڑھ کرکمٹمنٹ بھی اسی سطح کی ہوتی ہے۔یہ ایسے چھوٹے موٹے ملزموں کے لیے ہوتے ہیں جن پر پولیس کا خوف سوار ہو اور وہ شیر سپاہیوںکو دیکھتے ہی رفو چکر ہوجائیں یاکوئی کارروائی کرنے سے بازآجائیں ، زیادہ سے زیادہ خاندانی دشمنی کے شکار وہ لوگ جو اپنے مخالف کو مارنے کے لیے پستول یاگن وغیرہ کپڑوں میں چھپا کرکچہری میں آئیں اورکارروائی کریں۔ایسے لوگوں کو پولیس واک تھروگیٹ سے پکڑسکتی ہے۔ جس لیول کاکمانڈو ایکشن ہوا، اس کے جواب میں ویسی ہی کمانڈوتربیت ،کمٹمنٹ اوراسلحے کے محافظ چاہئیں۔ 
اس قسم کے حملوں کو روکنے کے لیے سکیورٹی کی دو تین پرتیں یا دیواریں بنانی پڑتی ہیں۔ پہلی دیوار ہمیشہ قربان ہی ہوتی ہے، اصل دفاع تو دوسری اور تیسری دیوار نے کرنا ہوتا ہے، جنہیں سنبھلنے کے لیے چند لمحے مل جائیں اور وہ جوابی فائرنگ کر کے دہشت گردوں کو نشانہ بنا سکیں۔ یہاں پر ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ اس نوعیت کی سکیورٹی فورس اور سکیورٹی کی دیواریں ہم کہاں کہاں بنائیں۔ کچہری ،حساس اداروں کے دفاتر، سرکاری دفاتر، تھانے، اہم عمارتیں ... ممکنہ اہداف کی ایک لمبی فہرست ہے ۔ پھربھی جب ان سب کو محفوظ بنا لیں تو بازار،گنجان علاقے، شاپنگ مالز، سینما ہائوسز، پارک وغیرہ ٹارگٹ بنیں گے جیسے عراق میں ہوا۔ یہ سب کچھ میں خوف پھیلانے یا ڈرانے کے لیے نہیں لکھ رہا، صرف قارئین کو آنے والے گمبھیر چیلنج کی ہلکی سی جھلک دکھا رہا ہوں۔ ظاہر ہے ، ہمارے اداروں کے پاس ایک عام اخبار نویس سے کئی گنا زیادہ معلومات اور زیادہ بہتر تصویر موجود ہوگی، ہم تو ایک دھندلا سا خاکہ ہی بتا سکتے ہیں۔ شروع میں عرض کیا تھا کہ عسکریت پسندی کی تازہ شکل بڑی پیچیدہ اور الجھی ہوئی ہے، اس کا سرا پکڑنے کے لیے پیچھے جانا پڑے گا اور ایف ایٹ کچہری پر حملے کے واقعے کو بڑے تناظر میں دیکھنا ہوگا۔ اس قسم کے و اقعات کی روک تھام کے لیے ہمیں آئوٹ آف باکس سوچنا ہوگا۔ ہر تجزیہ نگارپرفرض ہے کہ وہ اپنی فہم وفراست کے مطابق اس کا کوئی نہ کوئی حل یا روڈ میپ بھی تجویزکرے۔ انشاء اللہ ہم بھی اس پر بات کریں گے، مگر اس کے لیے کم سے کم ایک مکمل کالم مختص کرنا پڑے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں