اتنی عجلت کیوں؟

ہمارے ہاں جو موضوعات متنازع ہوچکے ہیں،ان میں پاک بھارت تعلقات سرفہرست ہے، خاص طور پر پڑوسی ملک کے ساتھ تجارت اوراسے موسٹ فیورٹ نیشن قرار دینے کے معاملے میں معتدل رائے کم ملتی ہے۔ ایک بڑے حلقے کے خیال میں ہمیں بھارت کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات قائم نہیں رکھنے چاہئیں اس لیے کہ وہ ہمارا دشمن ہے، اس کی طرف سے ہمیشہ وار ہی ہوا اور مستقبل میں بھی ایسا ہوگا۔ہمارا روایتی دایاں بازوکم وبیش یہی سوچ رکھتا ہے۔ دوسری طرف ایک حلقہ ایسا ہے جو ہر قیمت پر بھارت کے ساتھ قریبی تجارتی اور دوستانہ تعلقات چاہتا ہے۔ ان میں دو تین قسم کے لوگ ہیں۔۔۔ وہ این جی اوز جو مغربی اداروں سے فنڈز لیتی اور ایک خاص ایجنڈے کو آگے بڑھاتی ہیں ، لبرل حلقے جن کی دلیل یہ ہے کہ پاکستانیوں کے بھارتیوں کے ساتھ بہت سے مشترک رشتے اور تعلق ہیں، اس لیے انہیں ایک دوسرے کے قریب آنا چاہیے، ان میں سے بعض سافٹ بارڈرزتک کے حامی ہیں ، وہ تاجر اوربڑے سرمایہ دار جنہیں بھارت کے ساتھ تجارت میں مالی مفاد نظر آ رہا ہے، اس کمپین میں وہ بھی خاموشی سے شامل ہیں۔ 
ہمسایہ ممالک کے درمیان تجارت کے کئی فوائد ہیں۔ ظاہر ہے کہ ٹرانسپورٹیشن کا خرچ کم ہوجائے گا ، بھارت کو موسٹ فیورٹ نیشن قرار دینے کے حامی یہ دلیل بڑے زور شور سے دیتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پاک بھارت کشیدگی کب تک چلے گی، ہم کتنی دیر تک اپنے ماضی کے اسیر رہیں گے، اکانومی کا دور ہے، ہم اپنی معیشت ٹھیک کریں، تجارت کریں اور اس پورے خطے کو اقتصادی زون بنائیں... وغیرہ وغیرہ۔ ان باتوں میں بھی کچھ نہ کچھ وزن ہے جنہیں یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ مخالفت کی آواز چونکہ روایتی رائٹ ونگ سے اٹھتی ہے، جن کا بیانیہ اور دلائل جذباتیت اور شعلہ بیان خطابت پر مبنی ہیں، اس لیے یہ لوگ ان اہم اور بنیادی نکات کو اس طرح آگے نہیں بڑھا پاتے جن پر سنجیدگی سے بات ہونی چاہیے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مذہبی اور جذباتی دلائل سے ہٹ کر ماضی کی تاریخ کاکوئی''منفی‘‘حوالہ دینے سے گریزکرتے ہوئے، پرانی 'تلخیوں‘ کا یرغمال بنے بغیر پروفیشنل انداز میں اس ایشو پر بات کی جائے۔ کیا ہرج ہے اگر بھارت کو موسٹ فیورٹ نیشن کا سٹیٹس یا پاکستانی منڈی تک انہیں' غیر امتیازی رسائی‘ دینے سے پہلے اس کے مضمرات پر بھی نظر ڈال لی جائے۔ 
سب سے پہلے تو ہمیں اپنے مفادات کا خیال رکھنا چاہیے۔ اپنے صنعتکاروں، مینوفیکچررز اور زرعی شعبے سے وابستہ کاشت کاروں کا تحفظ کرنا ہماری اولین ذمہ داری ہے۔ قوی امکانات ہیںکہ اگر بھارتی مال بغیر کسی شرط کے پاکستانی منڈیوں میں آنے دیا گیاتو ہمارے کئی شعبے تباہ ہو جائیں گے۔ بھارتی گاڑیاں، موٹرسائیکل وغیرہ بہت سستے ہیں، ہماری مقامی انڈسٹری چند ماہ میں ختم ہوجائے گی، زرعی اور فارماسیوٹیکل شعبے کا بھی یہی حال ہوگا۔ ہماری مقامی دوا سازکمپنیاں کروڑوں ڈالر کا زرمبادلہ کما رہی ہیں، وہ سب ختم ہوجائے گا۔اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ بھارتی حکومت بعض شعبوں میں اپنے مینوفیکچررزکو سپورٹ کرتی ہے ، وہاں لیبر بھی مقابلتاً سستی ہے اور ویسے بھی جہاں لارج سکیل پرمینوفیکچرنگ ہوگی‘ وہاں کاسٹ لیول کم ہوجائے گا۔مثلاً ایک لاکھ پینسلیں بنانے کے مقابلے میں ایک کروڑ پنسلیں بنانے کا فی پنسل خرچہ بہت کم ہوگا۔ بھارتی کسانوں کو پاکستانی کسانوں سے زیادہ سہولتیں حاصل ہیں، وہاں ٹیکنالوجی جدید، بجلی سستی، پانی کی فراوانی، عمدہ بیج ،کھاد اور زرعی ادویات کم قیمت پردستیاب ہیں۔ پاکستان میں صورت حال بالکل الٹ ہے۔ ہمارے کسان مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں۔ اگر بھارتی زرعی مصنوعات، جنس اور سبزیوں وغیرہ پر سے ڈیوٹی صفر ہوگئی تو ہماری منڈیوں میں گندم، چاول، ٹماٹر، آلو، لہسن وغیرہ بھارت سے درآمد شدہ ہی ملیں گے۔دنیا کا ہر ملک اپنے مینوفیکچررز کا خیال رکھتا ہے،کسی انڈسٹری کا ختم ہونا ایک بزنس مین کاہی نقصان نہیں،اس سے ہزارہا لوگ بیروزگاربھی ہوجاتے ہیں۔
دوسرا مسئلہ بھارت کاایک خاص علاقائی ایجنڈا ہے۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ اس حوالے سے بڑی یکسواورفوکسڈ ہے،اسے ہر حال میں بالادستی درکار ہے۔افغانستان میں اس کا اپنا جارحانہ ایجنڈا ہے جس کی خاطر وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ قبائلی علاقوں میں جاری عسکریت پسندی کے پیچھے بھارتی منصوبہ سازوں کے کارفرما ہونے کے اشارے ملے ہیں۔ بلوچستان میں شدت پسند عسکریت پسندگروپوںکو بھارتی حمایت حاصل ہے۔ ڈاکٹرا للہ نذر جیسے لوگوں کے بارے میں تصور ہے کہ انہیں کھلی بھارتی مدد حاصل ہے۔ بھارت کے ساتھ غیرمعمولی کاروباری اور تجارتی تعلقات سے پہلے بھارتی اسٹیبلشمنٹ سے یہ ضمانت لینی چاہیے کہ وہ پاکستان پر جاری دبائو ختم کرے ، افغانستان میں اپنے سفارت خانوں کے ذریعے ہونے والی مداخلت روکے اور بلوچستان میں فنڈنگ سے پیچھے ہٹے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک طرف تو وہ بلوچ عسکریت پسندوں کے ذریعے فورسز اور عام شہریوں پر حملے کرائے اور یہ بھی امید کرے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ مسکرا کرگلدستے تھامے اس کا استقبال کرے گی۔
یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ پاک بھارت تجارتی تعلقات کا زیادہ فائدہ کس ملک کو ہوگا؟ میری مختلف ماہرین سے بات ہوئی ، سب متفق تھے کہ بھارت کو زیادہ فائدہ ہوگا کیونکہ وہ بڑی معیشت ہے اور اسے کئی حوالوں سے ہم پر برتری حاصل ہے۔ان کے خیال میں ان پاکستانی صنعتکاروں کو فائدہ ضرور ملے گا کہ جن کی مصنوعات کی بھارتی مارکیٹ میں مانگ ہے ، مگرقوی امکانات یہ ہیں کہ بھارتی مصنوعات پاکستانی منڈی پر چھا جائیں گی۔ سادہ لفظوں میںاگر ہم اپنی ایک ارب ڈالرکی اشیابھارت میں جاکر بیچ آئیں تو بھارتی یہاں آٹھ دس ارب ڈالرکی اشیا بیچ جائیں گے۔ ہم پہلے ہی تجارتی خسارے سے دوچار ہیںجس میں اربوں ڈالرکا اضافہ ہوجائے گا۔یہ دستر خوان کاصرف ایک کونہ ہے، بھارتی سرمایہ دار پاکستان کے راستے افغانستان اور پھر سنٹرل ایشیا کی منڈیوں پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ انہیں اربوں کھربوں ڈالر کا منافع اور بے پناہ نئے امکانات نظرآ رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہم بھارت کو اتنی بڑی سہولت دینے پر تیار ہیں تو بدلے میں بہترین قیمت کیوں نہ وصول کی جائے؟ ہم بھارت کو تاریخ ساز موقع فراہم کررہے ہیں، بدلے میں اتنے ہی بڑے ثمرات ملنے چاہئیں۔ صرف چندکروڑ ڈالرکی راہداری پراکتفا کرنا حماقت ہوگا۔ اس راہداری کو لیوریج کے طور پر استعمال کرنا چاہیے۔ایسا غیرمعمولی نوعیت کا فائدہ لیا جائے جو آنے والے عشروں میں کام آسکے۔ مثلاً یہ سنہری موقعہ ہے کہ پانی کے حوالے سے ایک نیا معاہدہ کیا جائے۔ سندھ طاس معاہدے میں ہم نے جو تباہ کن غلطی کی،اس باراس کی تلافی ہوسکتی ہے۔ جن دوستوں کے خیال میں بھارتی بڑے معصوم اور پیارے لوگ ہیں، وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات نارمل کرنا چاہتے ہیں، مگر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ایسا نہیں کرنے دے رہی ،ان لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے بھارتی دوستوںکوکچھ ایثار پر بھی آمادہ کریں۔ بڑے مفادات حاصل کرنے کی خاطر بڑے قدم بھی اٹھانے پڑتے ہیں۔کشمیر پر فوری حل ممکن نہیں تو سیاچن سے فوجوں کی واپسی، سرکریک کا مسئلہ تو فوری ختم ہوسکتا ہے۔کہیں سے تو بھارت کو بھی پیچھے ہٹنا چاہیے۔ ہر مطالبہ پاکستان ہی سے کیوں؟
ہماری روایت ہے کہ ایک دور میں کوئی پالیسی بنائی گئی، اگلی حکومت نے اسے ریورس کر دیا، یہ غلط ہے ۔ ایک طرف دنیاکو اچھا پیغام نہیں جاتا، دوسرا ہر چند برسوں کے بعدگھوم کر دوبارہ سٹارٹنگ پوائنٹ پر آ جاتے ہیں۔ بہت ہوچکا، اب ایک میچور اور باشعور قوم کے طور پرسوچنا اور عمل کرنا چاہیے۔ اگر وزیراعظم نواز شریف،ان کی حکومت، اوران کے تھنک ٹینکس کو یہ لگ رہا ہے کہ امن اور تجارت کی شاہراہ پر آگے بڑھنے کا یہ بہترین وقت ہے تو ٹھیک ہے، ہمیں اس پر بات کرنی چاہیے۔ جس کے پاس جو دلائل اور معلومات ہیں وہ سامنے رکھے۔ یہ مگر یاد رہے کہ سب سے پہلے ہمیں اپنے ملک کے مفادات کا تحفظ کرنا ہوگا۔ بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات کی ایک خاص نوعیت رہی۔ درست یا غلط، بہرحال یہ ہماری تین عشروں پر محیط پالیسی ہے۔ اس میں اگر بڑی تبدیلی لانی ہے تو یہ کام مشاورت اور سوچ بچار کے بعدہونا چاہیے۔ بھارت کو تجارتی رعایتیں دینے میں اتنی بے تابی اور عجلت سے کام کیوںلیا جا رہا ہے؟ یہ کسی بیرونی دبائو کا نتیجہ ہے یا پھر یقین ہوچکا کہ حکومت کے پاس مہلت زیادہ نہیں؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں