قائداعظم… سیکولریا مولوی؟

قائداعظم سیکولر شخص تھے یامذہبی انسان ... یہ وہ بحث ہے جو آج کل بعض اخباری کالموں کاموضوع بنی ہوئی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس بحث کی مجھے سمجھ نہیں آئی۔ بانی پاکستان کو دنیا سے رخصت ہوئے چھیاسٹھ برس ہونے کو ہیں، ان کی شخصیت کے مختلف پہلواس اعتبار سے محققین کی ریسرچ کا مرکز تو ہوسکتے ہیں ، کرنٹ افیئرز پر لکھنے والے صحافیوں کو اچانک ہی اس موضوع سے کیوں دلچسپی پیدا ہوگئی ؟ویسے اس پر لکھنا ممنوع بھی نہیں ، تاریخ کے بعض ابواب زمانہ حال میں بھی اہم اور متعلق رہتے ہیں۔اس بحث کی مگر بالکل ہی الگ وجوہ ہیں، جن کو سمجھے بغیر آگے بڑھا نہیں جا سکتا۔ 
اصل مسئلہ قائداعظم کی شخصیت اور ان کے نظریات نہیں، بحث وہی پرانی ہے کہ ریاست کی شکل کیا ہو۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان یا پھر سیکولر پاکستان۔ ہمارے سیکولر اور لبرل حلقے یہ چاہتے ہیںکہ ملک کا تشخص اسلامی نہ ہو اور اسے سیکولر ریاست بنایا جائے۔ انہیں شدید شکوہ ہے کہ پاکستان مذہبی ملک کیوں بن گیا،جہاں ہر طرف مذہبی مظاہر نظر آتے ہیں، اسلام کا نام لیا جاتا ہے، لوگ اسلام کے نام پر مرنے مارنے کو تیار ہوجاتے ہیں، توہین رسالت کے ایشو پر قیامت برپا ہوجاتی ہے۔ وہ لوگ جو عام زندگی میں مذہبی نہیں، ان کا لائف سٹائل رند انہ ہے، نبی اکرم ﷺ کے نام پر ان کے بھی سر احترام سے جھک جاتے ہیں، آپ ﷺ کی شان میں کوئی معمولی سی بھی گستاخی کرے توان کے تیور بدل جاتے اور چہرے سرخ ہوجاتے ہیں۔ ہمارے سیکولر، لبرل دوستوں کے خیال میں یہ سب اسی لئے ہے کہ ملک کا نام اسلامی جمہوریہ ہے، مذہبی شدت پسندی بھی اسی وجہ سے بڑھ رہی ہے۔ یہ ملک اگر سیکولر ہوجائے، مذہب کو بندے اور خدا کا معاملہ قرار دیا جائے ، ریاست اپنے آپ کو مذہب سے الگ تھلگ رکھے تو سب معاملات سنور جائیں گے۔ اب چونکہ ریاست تو سیکولر ہو نہیں سکتی کہ پاکستانی سماج کے فیبرکس میں مذہب گندھا ہے۔ کوئی شخص خواہ وہ پریکسٹنگ یعنی عملی مسلمان ہے یا نہیں،اپنے ایمان اور عقیدے کے لحاظ سے وہ واضح ہے۔خود اس نے برسوں سے قرآن پاک اٹھا کر نہ دیکھا ہو، مگر اپنے بچوں کو قرآن پاک پڑھانے کے لئے وہ مسجد سے قاری صاحب کو بلائے گا۔ خاص کر ہماری مڈل اور لوئر مڈل کلاس مذہبی جماعتوں کوووٹ کے قابل نہ بھی سمجھتی ہو،مگر دینی ایشوز میں وہ مذہبی جماعتوں کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتیں یہ بات سمجھتی ہیں، اسی لئے کوئی پارٹی خواہ کتنا ہی سیکولر ہونے کی دعوے دار ہو،وہ ایسا کام کرنے سے گریز کرتی ہے،جو لوگوں کے مذہبی احساسات کو مجروح کرے اور سیاسی بے چینی پیدا کرنے کا باعث بنے۔ 
ادھر ہمارے سیکولر ،لبرل حلقوں کا معاملہ دوسرا ہے۔ ان میں سے کچھ ایسے بھی ہوں گے جو دیانت داری سے علمی سطح پر سیکولرازم کے قائل ہوں، اکثر کا مسئلہ مغرب ہے۔ کچھ فکری احساس کمتری کا شکار تو بیشتر کے مفادات مغربی این جی اوز سے جڑے ہیں۔ان این جی اوز کے ڈونر اداروں کے اپنے ایجنڈے ہیں، جسے آگے بڑھائے بغیر مالی مدد نہیں مل سکتی۔ سیکولر ازم کی بات کرنا چونکہ آسان نہیں، اس کی عوام میں پزیرائی نہیں، اس لئے سیکولر سوچ کو آگے بڑھانے کے لئے قائداعظم کی آڑ لی جاتی ہے۔ بڑے دھڑلے سے بانی پاکستان کے حوالے سے وہ سب کچھ منسوب کر دیا جاتا ہے ،جو سیکولر لابی کو سوٹ کرے۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ قائداعظم کوئی زمانہ قدیم کی شخصیت نہیں۔ ان کی زندگی، سوچ اور نظریات سب کچھ سامنے ہیں۔ میں عام طور پر اس بحث میں الجھنے سے گریز کرتا ہوں، اس بارمگر بحث ایسے دوست نے شروع کی، جس کی نیت پر شبہ نہیں، فکری مغالطوں کا شکار البتہ کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ مجھے کبھی یہ سمجھ نہیں آئی کہ قائداعظم کی سوچ اور فکر کی عکاسی صرف گیارہ اگست کی تقریر ہی سے کیسے ہوگئی ؟کیا اس تقریر سے پہلے انہوں نے کبھی کچھ نہیں کہا، یا اس کے بعد بطور گورنر جنرل کوئی تقریر نہیں کی۔ مجھ سے وہ کالم کبھی نہیں پڑھے گئے ،جن میں تقریروں کی کوٹیشنیں دی ہوتی ہیں، مجھے ہمیشہ وہ بور لگے۔ اسی خدشے کے پیش نظر قائداعظم کی تقریروں کے وہ ٹکڑے نقل نہیں کر رہا ،جو انہوں نے مختلف اوقات میں کیں۔زیادہ فائدہ اس لئے بھی نہیں کہ کئی لکھنے والے ایسا کرچکے ،مگر جوپہلے سے ذہن بنا چکے ، ان کی رائے نہیں بدل پائی۔ 
قائداعظم کے حوالے سے دو تین باتیں بڑی واضح ہیں۔ ایک تو انہوں نے اپنی پوری زندگی میں سیکولرازم کانام ایک بار بھی استعمال نہیں کیا ۔ سیکولر ازم کی اصطلاح اس وقت موجود تھی، قائداعظم اپنے عصری نظریات کا فہم رکھنے والے اعلیٰ پائے کے قانون دان تھے، ہر لفظ وہ سوچ سمجھ کر برتتے اور اصطلاحات کی افادیت ، ان کی قوت سے بخوبی واقف تھے۔ اگر وہ سیکولر پاکستان کے حامی تھے تو سیکولرازم کی اصطلاح استعمال کرتے ، انہوں نے کبھی نہیں کی، ریکارڈز اس کے گواہ ہیں۔ تین باتیں ایسی ہیں، قائداعظم کے مخالف بھی ان کا اعتراف کرتے ہیں۔انہوں نے سیاست میں کبھی 
جھوٹ نہیں بولا، کوئی ایسا وعدہ نہیں کیا جو پورا نہ کیا ہو اور ان کی دیانت مثالی تھی۔ پاپولر پالیٹکس انہوں نے کبھی نہیں کی، لوگوں کے جذبات ایکسپلائٹ کئے نہ ہی انہیں کبھی دھوکے میں رکھا۔ پاکستان کے حوالے سے بانی پاکستان کاجو تصور تھا، اسے دو تین طریقوں سے سمجھا اور جانچا جا سکتا ہے۔ایک تو ان کی تقریریں اور انٹرویوز وغیرہ ہیں،تحریک پاکستان کے دنوں سے قیام پاکستان کے بعد ، ان کے آخری ایام تک انہوں نے جو کچھ بھی کہا، وہ ریکارڈ پر موجود ہے۔پھر مسلم لیگ کی سیاسی جدوجہد ہے۔ قائداعظم کوئی مفکر، مجتہدیا فقیہ نہیںبلکہ سیاسی لیڈر اورپاکستان بنانے والی سیاسی جماعت کے سربراہ تھے۔ان کی سیاسی جدوجہد ہی ان کے نظریے کی عملی تفسیر تھی۔ پاکستان بننے کی جدوجہد ڈرائنگ روم میں نہیں ہوئی، سیاسی میدان میں یہ جنگ لڑی گئی،46 ء کے انتخابات نے جس کا فیصلہ سنایا۔ تحریک پاکستان کا ایک خاص موڈ تھے، اس کے جلسے، وہاں ہونے والی تقاریر ، ان جلسوں میں لگائے جانے والے نعرے ... وہ سب اس تحریک کا موڈ، اس کا رنگ، اس کا نظریاتی پہلو واضح کر دیتے ہیں۔ ہمارے وہ سیکولر ،لبرل حلقے جو یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان صرف معاشی مفادات حاصل کرنے کے لئے بنایا گیا تھا، نظریہ پاکستان نام کی کوئی چیز نہیں، یہ جنرل شیر علی خان کی ایجاد ہے، یہ سب جدوجہد، قربانیاں ایک سیکولر ملک کیلئے دی گئیں... انہیں دیانت داری سے تحریک پاکستان کے جلسوں،ان کی فضا اور وہاں سٹیج سے کی جانے والی تقریروں کا جائزہ لینا چاہیے۔ ایم ایس ایف کے وہ لڑکے آج بزرگ ہوچکے ، مگر ان میں سے بہت سے ماشاء اللہ ابھی حیات ہیں، جو علی گڑھ میں اپنا تعلیم ادھوری چھوڑ کر 
سندھ، پنجاب اور صوبہ سرحد(موجودہ کے پی کے)میں مہم چلانے آئے تھے۔اس میں ایک فیصد بھی شک نہیں کہ ہر جلسے ، ہر جلوس، تحریک پاکستان کے ہر موڑ پر مسلم لیگ کے قائدین، لیڈروں اور کارکنوں نے عوام کو اسی بنیاد پر متحرک کیا اور ان سے ووٹ لئے کہ نیا وطن اسلام کا گڑھ ہوگا، مسلمان اپنے علیحدہ مذہب، کلچر اور ضابطہ حیات کی بنا پر الگ قوم ہیں،اس لئے الگ وطن درکار ہے کہ وہاں پر اسلامی تصورات اور اعتقادات کی بنا پر نظام حکومت بنایا جائے ۔ سیاسی وعدے اس لئے نہیں ہوتے کہ انہیں جیت کے بعد ہوا میں اڑا دیا جائے ۔ وہ محض ایک انتخابی معرکہ نہیں،بلکہ نئے وطن کی جدوجہد تھی۔ انتخابی نعرے ، منشور اور وعدے ،جس کی بنیاداور جڑ کی حیثیت رکھتے تھے۔ قائداعظم جیسے دیانت دار شخص سے کوئی یہ توقع کیسے کر سکتا ہے کہ انہوں نے لوگوں سے ووٹ تو ایک اور نظریے اور سوچ پر لئے ہوں اور پھر اچانک ایک صبح ایک ایسی تقریر کردیں، جوماضی کی برسوں پر محیط جدوجہد سے یکسر مختلف بلکہ متضاد ہو۔ ایسا کہنے والے قائداعظم کے ساتھ صریحاًزیادتی کر رہے ہیں۔ ویسے تو قائد کی تقریریں بھی انتہائی واضح ہیں، کسی کو ابہام محسوس ہو تو وہ تحریک پاکستان کے تناظر ، خاص کر46 ء انتخابی مہم کے پس منظر میں انہیں سمجھنے کی کوشش کرے۔ دنیا بھر میں یہی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے، کسی بھی فرد یا جماعت کو کسی ایک لمحے کی روشنی میں نہیں بلکہ اس کے مکمل تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ 
قائداعظم کو غیر مذہبی شخص یا سیکولر بنانے کی بحث غیر ضروری اور غیر متعلق ہے۔ ان صاحبان کا اصل مسئلہ ریاست پاکستان ہے۔ پاکستان کو سیکولر ریاست بنانے کے خواہش مند کھل کر اپنی اس سوچ کا اظہار کریں، دلائل استوار کریں اور عوام کے ذہنوں کو بدلنے کے خواب دیکھیں۔ قائداعظم کا سہارا لینے کی کوشش پہلے کامیاب ہوئی نہ اب ہوگی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں