محمد کاظم بھی چلے گئے

لاہور میں نہر کنارے ایک پوش سوسائٹی ہے، کل یعنی منگل کی سہ پہر وہاں مقیم ایک بڑا آدمی دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اس سوسائٹی کے رہنے والے کم ہی لوگ ان کی بھرپور شخصیت کے بارے میں واقف ہوں گے۔ اڑھائی تین سال پہلے ایک میگزین میں ان کا تفصیلی انٹرویوشا ئع ہوا تو سوسائٹی کے بعض لوگ ان سے ملنے آئے، انہیں حیرت تھی کہ یہ کون آدمی ہے، جس کا اخبار میںاتنا بڑا انٹرویو چھپ گیا، مگر سوسائٹی کے رہنے والوں کو اس کا علم ہی نہیں۔ گھر آکر انہیںپتہ چلا کہ جس محمد کاظم کے مضامین فنون اور دوسرے اہم ادبی جرائد میں شائع ہوتے رہے ،جس نے ایک زمانے میں علمی، ادبی حلقوں میں تہلکہ مچا دیا تھا، وہ خاموشی سے ان کے پڑوس میں رہ رہا تھا۔ محمد کاظم نے اس واقعے کو اپنے ایک دوست سے بیان کیا۔ بوڑھے ادیب کے چہرے پر مسکراہٹ جگمگا رہی تھی، دھیرے سے اس نے کہا،'' اس بہانے میرے پڑوسیوں کو یہ تو معلوم ہوگیا کہ میں پڑھا لکھا آدمی ہوں۔‘‘
محمد کاظم سے میرا پہلا تعارف انیس برس پہلے اردو ڈائجسٹ کے دفتر میں ہوا۔ محسن فارانی ہمارے ڈپٹی ایڈیٹر تھے،انہوں نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا اورکہا، یہ محمد کاظم ہیں، وہی جن کے عربی ادب پر مضامین فنون میں چھپتے رہے ، یہ آپ کے شہر کے رہنے والے ہیں۔ ساٹھ پینسٹھ سالہ محمد کاظم مسکراتے چہرے کے ساتھ ملے، معلوم ہوا کہ وہ احمد پورشرقیہ کے رہنے والے ہیں،محبت پور بازار، محلہ کٹرہ احمد خان میں ان کا گھر تھا، اتفاق سے میرا آبائی محلہ بھی یہی تھا، مگر کاظم صاحب عرصہ پہلے ملازمت کی وجہ سے شہر چھوڑ چکے تھے اور اب وہ لاہور ہی میں مقیم تھے۔ محسن فارانی بڑے عالم فاضل انسان ہیں، افسوس کہ صحافت اور صحافیوں نے ان کے علم وفضل کی قدر نہیں کی ،تاریخ ،جغرافیہ اور لسانیات ان کے پسندیدہ مضامین ہیں، وہ کاظم صاحب سے عربی زبان وادب کے حوالے سے گفتگو کرتے رہے۔ میں نے عربی میں دلچسپی ظاہر کی تومحمد کاظم نے ازرہ تلطف کہا کہ میرے پاس آتے رہیے ، چند ہی ہفتوں میں عربی سکھا دوں گا۔عہد تو میں نے اسی وقت کر لیا... ،پھر پطرس کے ایک مشہور مضمون کے کردار کی طرح ،جس نے صبح اٹھ کر کتابیں پڑھنے کاعہد کیا تھا... ہم بھی عہد کرتے اور اسے ایفا کرنے کا سوچتے رہے، وقت کے تیز رفتار ریلے نے مہلت ہی نہ دی۔ 
محمد کاظم کے جادو سے چند برس بعد واسطہ پڑا۔ ایک دن کسی دوست کے ہاں ان کی کتاب دیکھی ، ''عربی ادب میں مطالعے‘‘۔ یہ ان کے چند مضامین ہیں، جو ساٹھ کے عشرے میں احمد ندیم قاسمی کے مشہور ادبی جریدے فنون میں شائع ہوئے۔ اسے ایک ہی نشست میں پڑھا ۔ محمد کاظم کی سحرانگیز نثر اور ان کے حیران کن انداز بیان نے مسحور کئے رکھا۔ان کی کتابوں کو کھوجنا شروع کیا۔ان کی بیشتر کتابوں کے ناشر سنگ میل پبلشر تھے، بعض مشعل اور آخری دنوں میں ایک کتاب القا پبلیکیشنز، ریڈنگز سے شائع ہوئی۔ جلد ہی ان کی کتاب ''اخوان الصفہ اور دوسرے مضامین ‘‘ مل گئی۔ اس کتاب نے ایک ستم یہ ڈھایا کہ میری پسندیدہ ادبی شخصیت خلیل جبران کاذہن میں تراشا ہوا بت پاش پاش کر دیا۔ ہم نوجوانی سے خلیل جبران کے اسیر تھے۔ محمد کاظم نے بڑے پروفیشنل انداز سے جبران کی ادبی اور علمی حیثیت کا جائزہ بلکہ محاکمہ کیا اور حق ادا کر دیا۔ان کے اس مضمون سے سیکھا کہ اتنے نامور ادیب کا بھی ایسی مہارت اور بے خوفی سے پوسٹ مارٹم ہوسکتا ہے۔
محمد کاظم کا سب سے اہم کام ''عربی ادب کی تاریخ ‘‘ہے ، جاہلی عربی شاعری کے مشہور سبع معلقات اور ان کے مصنفین امرائوالقیس، زید بن ابی سلمہ، عمرو بن کلثوم ، لبید، طرفہ، اعشیٰ وغیرہ سے لے کر بنو امیہ دور کے تین مانے ہوئے ہجو خواں شاعر اخطل، فرزدق اور جریر، پھر بنو عباس کے اہم شعرا، اندلسی شاعروں ، فاطمی دور کے مصری شاعر اور بیسویں صدی کے اہم جدید شاعراور شاعرات فدویٰ طوفان، نزار قبانی، محمود درویش وغیرہ کو کمال مہارت اور خوبصورتی سے ایک ہی کتاب میں سمو دیا۔ ان شاعروں کی شاعری کے نمونے مع اردو ترجمہ اور پھر شاعری پر تیکھے تبصرے بھی شامل تھے، جاحظ جیسے عربی نثر نگاروں کو بھی اسی کتاب میں سمیٹ لیا۔ یہ کتاب بذات خود بلاغت کا ایک کمال نمونہ ہے۔ جتنی بار پڑھا جائے، قاری سیر نہیں ہوتا،دوبارہ پڑھنے کی خواہش زندہ رہتی ہے۔ محمد کاظم کا جرمنی کا سفرنامہ بھی ایک زمانے میں بڑا مشہور ہوا تھا۔ مشعل پبلشر نے ان کی اہم کتاب'' مسلم فلسفہ عہد بہ عہد ‘‘ شائع کی، میں ذاتی طور پر اس کتاب کو 
ہائی ریٹ کرتا ہوں، ابتدائی دور سے لے کر اقبال تک اہم مسلم فلاسفروں اور انٹیلکچوئل تحریکوں کو نہایت آسان انداز سے درمیانی ضخامت کی اس کتاب میں بیان کر دیا۔ انہوں نے عربی سیکھنے کے طالب لوگوں کے لئے پچیس اسباق پر مشتمل ایک کتاب عربی سیکھئے بھی تحریر کی تھی۔ کاظم صاحب فنون میںاہم کتابوں پر تبصرے کرتے رہے، یہ روایتی انداز کے تبصرے نہیں تھے بلکہ ایک خاص تیکھے اور کاٹ دار انداز میں ان کتابوں کا علمی محاکمہ تھا۔ اردو صحافت میں اس کی نظیر نہیں ملتی، ماہر القادری مرحوم اپنے جریدے فاران میں اس طرح کے تبصرے کیا کرتے تھے ،جوش ملیح آبادی کی کتاب یادوں کی برات کا انہوں نے کمال پوسٹ مارٹم کیا۔ ماہرالقادری صاحب کی توجہ زبان وبیاں پر زیادہ رہتی ، محمد کاظم نے تمام پہلوئوں کا جائزہ لیا۔ انگریزی کے مشہور تجزیہ نگار اور دانشور خالد احمد نے یہ تبصرے پڑھے تو حیران رہ گئے، کہنے لگے، ''محمد کاظم اور ان کے گہرے دوست محمد خالد اختر کا انداز بیان ایک دوسرے سے مختلف ہے ،مگر دونوں نے کمال کے تبصرے لکھے، جس کی اردو میں روایت موجود تھی نہ ان کی پیروی کی گئی۔‘‘ القا پبلشرنے یہ تبصرے ''کل کی بات ‘‘کے نام سے شائع کئے۔محمد کاظم جیسی رواں ، شگفتہ اور چمکتی ہوئی نثر کم ہی دیکھنے کو ملی۔ مشہور ادیب ڈاکٹر انوار احمد جن دنوں جاپان تھے ، انہوں نے رئوف کلاسرا کو خط لکھا، جس میں اردو نثر سیکھنے کے لئے تین ادیبوں کو پڑھنے کا مشور ہ دیا، ان میں محمد کاظم، افسانہ نگار اسد محمد خان اور حیدرآباد کے ماہر نفسیات ، ادیب حسن منظر شامل تھے۔ 
محمد کاظم کے عربی کے استاد جماعت اسلامی کے رہنما اور مشہورعالم مولانا مسعود عالم ندوی تھے۔ ایک زمانے میںکاظم صاحب خود بھی مولانا مودودی کے نظریاتی ساتھی تھے، انہوں نے سید مودودی کی چھ کتابوں کا عربی میں ترجمہ بھی کیا، جن میں ان کی مشہور کتاب ''پردہ‘‘ بھی شامل ہے۔ بعد میں وہ دور ہوگئے۔محمد کاظم کے صاحبزادے کی وفات پر مولانا نے تعزیت تک نہ کی، معلوم نہیں اس کی کیا وجہ تھی، مگر کاظم صاحب کو بڑا قلق ہوا، دل میں گرہ پڑ گئی۔شکوہ کئے بغیر وہ خاموشی سے دور ہوگئے،۔مولانا نے اپنی دیگر کتابوں کے عربی ترجمے کا کہا تو معذرت کر لی۔ کاظم صاحب کا مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے بڑے بھائی سید ابوالخیر مودودی سے گہرا تعلق تھا،آج کم لوگ مولاناابوالخیر مودودی کے علمی مرتبے سے واقف ہیں۔محمد کاظم نے ان پر خاکہ بھی لکھا، بدقسمتی سے ان کے خاکوں کے مجموعے ''کچھ یادیں، کچھ باتیں‘‘ میں وہ شامل نہیں ہوسکا۔آخری برسوں میں کاظم صاحب قرآن پاک کے ترجمے پر کام کر رہے تھے، خوش قسمتی سے ان کے سامنے ہی سنگ میل نے وہ ترجمہ قرآن شائع کر دیا۔ محمد کاظم اٹھاسی سالہ بھرپور زندگی گزار کر رخصت ہوگئے، انہوں نے تن تنہا وہ کام کیا،جودرجنوں افراد پر مشتمل ادارے نہیں کر پاتے۔ یہ بات اور کہ انہیں حکومتی سطح پر کسی ایوارڈ سے نہیں نواز ا گیا، حالانکہ وہ ستارئہ امتیاز کی سطح کا اعزازپانے کے مستحق تھے۔ممکن ہے ارباب اختیار کو اب یہ خیال آجائے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں