کمیونیکیشن گیپ

یہ 1990ء کا ایک دن تھا۔ اسلام آباد میں ایک اعلیٰ امریکی سفارت کار کی پاکستانی اعلیٰ قیادت سے ملاقات تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم اور جنرل اسلم بیگ افواج پاکستان کے سربراہ جبکہ غلام اسحاق خان مسند صدارت پر متمکن تھے۔ان دنوں امریکہ پاکستان پر دبائو ڈال رہا تھا کہ وہ اپنا ایٹمی پروگرام بند کر دے، اس کے جواب میں حکومت اپنا روایتی موقف دہراتی تھی،جس میں مخصوص ڈپلومیٹک انداز سے امریکی الزام کو مسترد کیا جاتا۔ امریکی اس پر خاصے برہم تھے۔ اس ملاقات میں ایک دلچسپ واقعہ ہوا۔ بحث وتمحیص کے دوران امریکی سفارت کار نے جھنجھلا کر کہا،''آپ کے عقبی صحن میں ایک بطخ ہے، وہ بطخ کی طرح دکھائی دیتی، اسی طرح تیرتی اور بطخ ہی کی طرح آواز نکالتی ہے۔ پھر بھی آپ کہتے ہیں کہ وہ بطخ نہیں، اس بات کا کیسے یقین کیا جائے ؟‘‘ یہ سفارتی اخلاقیات سے ہٹ کر قدرے تلخ اور کٹیلی بات تھی، محفل میں سناٹا چھا گیا۔ وزیراعظم اور آرمی چیف نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، مگر پروٹوکول کے لحاظ سے صدر مملکت کو پہلے بولنا چاہیے تھا۔ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد غلام اسحاق خان نے امریکی سفارت کار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اوراپنی مخصوص سر د، سپاٹ آواز میں کہا:'' میرے گھر کے عقبی صحن میں ایک بطخ ہے ،جو بطخ کی طرح دکھائی دیتی، اسی طرح تیرتی اور بطخ ہی کی طرح آواز نکالتی ہے، مگر جب میں کہتا ہوں کہ وہ بطخ نہیں تو پھر وہ بطخ نہیں ہے۔ ‘‘اس بار سناٹا امریکی ٹیم پر چھا گیا۔ یہ خاصا مشہور واقعہ ہے، جو اخبارات میں رپورٹ ہوچکا ہے، ایک دو سینئر کالم نگاربھی اسے نقل کر چکے ہیں۔
غلام اسحاق خان ایک سویلین بیوروکریٹ تھے، جو بہت نیچے سے ترقی کر کے اوپر تک پہنچے۔ امریکیوں کے سامنے حیران کن جرات کا مظاہرہ کرنے والا یہ شخص پاکستانی تاریخ کے متنازع کرداروں میں سے ایک تھا۔ زندگی کے آخری دن غلام اسحاق خان نے پشاور میں اپنے سادہ گھر میں گزارے،خاموشی اور گمنامی میں ، چکاچوند سے دور۔ بوڑھے پشتون کو ہماری سیاسی تاریخ میں اسمبلیاں توڑنے اور نواز شریف کے ساتھ ٹکرائو کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا، مگرایٹمی پروگرام کے تحفظ کے لئے جو غیرمعمولی کردارانہوں نے ادا کیا، اس کا کبھی ذکر نہیں آیا ، شاید آبھی نہ سکے۔عالمی قوتوں کے بے پناہ دبائو کے سامنے وہ اور ان کے سویلین و غیر سویلین رفقاجس طرح کھڑے ہوئے، اس کی روداد اخبارات اور کتابوں میں نقل نہیں کی جا سکتی۔ غلام اسحاق خان تو خیر صدر پاکستان رہے، تاریخ کے صفحات میں ان کا نام محفوظ رہے گا، مگر پاکستانی تاریخ کے کئی خیرہ کن کردار ایسے ہیں، جن کے بارے میں کسی کو معلوم ہی نہیں ، انہوں نے اپنے ملک کے لئے جو کچھ کیا ، بہت کم اس حوالے سے جانتے ہیں۔ یہ Unsung ہیروز ہیں۔ ایسے ہیرو، جن کے گیت نہیں گائے جاتے، جن کی قبروں پر پھول نچھاور نہیںہوتے۔ حساس اداروں سے متعلق لوگوں کا یہی المیہ ہے کہ وہ جو کچھ کرتے ہیں، وہ رپورٹ نہیں ہوسکتا‘کیا بھی نہیں جا سکتا۔ایٹم بنانے کے لئے جو کچھ کیا گیا، مغربی دنیا میں مقیم پاکستانیوں نے جو کام کر دکھایا ،اس کو کھلے عام بیان کرنا آج بھی ممکن نہیں۔ان میں سے بعض کو برسوں جیل کاٹنا پڑی، قوم اپنے ان ہیروز کے نام تک نہیں جانتی۔دنیا کے ہر ملک میں کسی نہ کسی سطح پر چند ایسے ہیروزضرور ہوتے ہیں۔ان کے لئے غیر رسمی اور غیر سرکاری سطح پرالبتہ بہت کچھ کیا جاتا ہے۔ ایک خاص عرصے کے بعد وہ کتابیں لکھتے اور ان میں سے بعض شہرت بھی پا لیتے ہیں۔پاکستان میں صورتحال اس وقت بہت تکلیف دہ ہوجاتی ہے جب ان لوگوں کو بعض عوامی، صحافتی یا سیاسی حلقوں کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑتاہے۔ مجبوری یہ ہے کہ وہ کھل کر بات کر نہیں پاتے،ضابطوں کی پابندی انہیں تفصیلات بیان کرنے سے روکتی ہے، دوسری طرف ناکافی معلومات کی بنا پر تنقید کے تیر بلکہ نیزے برستے رہتے ہیں۔ میرا ارادہ کسی اور موضوع پر لکھنے کا تھا، سیاست کی کشاکش اور کرنٹ افیئرز کی چخ چخ سے ہٹنا چاہ رہا تھا۔بدھ کے اخبارات میں یوم شہداء کے حوالے سے اشتہارات ، کالم اور خبریں دیکھیں۔تلخ ،مگر سچی بات یہ ہے کہ پچھلے چھ سات برسوں کے دوران عسکریت پسندی سے نبردآزما فورسز کے افسروں اور جوانوں نے جو قربانیاں دیں، اس کا کھلے دل سے اعتراف ہو نہ سکا۔حق تو یہ ہے کہ ہم نے اپنے شہیدوں کے لہو کے ساتھ زیادتی کی، ان کے بارے میں وہ سچ چھپایا،جو قوم تک پہنچانا ہمارا فرض تھا۔ہم سے میری مراد انٹیلی جنشیا ہے۔ اہل دانش، تجزیہ کار، باخبر صحافی، اپنے آپ کو عقل کُل سمجھنے والے اینکرز اور اقتدار کے ایوانوںمیں موجود سیاسی حلقے۔ ان سب نے کسی نہ کسی مصلحت، وجہ، تعصب یا ذاتی مفاد کی وجہ سے آدھا سچ بیان کیا، ادھوری معلومات ہی پہنچائیں۔نائن الیون کے بعد ہماری نیشنل پالیسی میں جو یوٹرن آیا، اس کی کئی سطحیں اور پرتیں تھیں۔ایک پرت عالمی سطح کے لئے تھی تو کچھ معاملات ایسے تھے جو بتائے نہیں ''سمجھے ‘‘جاتے ہیں۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا، 80ء کے عشرے میں بھی کئی برسوں تک ہمارا باضابطہ موقف کچھ اور رہا، اندرون خانہ معاملات کچھ اورچلتے رہے۔ غلط یا درست، ایسا دنیا بھر میں ہوتا رہا ہے۔ ریاستیں بعض اوقات کچھ ایسی پالیسیاں بناتی ہیں، جن کے مختلف شیڈز ہوتے ہیں۔ بھارت کا افغانستان میں جو ایجنڈا ہے، ظاہر وہ اس کے باضابطہ سفارتی موقف سے یکسر مختلف ہے۔خودافغانستان کی حکومت پچھلے کئی برسوں سے کیا کرتی رہی؟ صدر کرزئی الزامات پاکستان پر عائد کرتے رہے ،مگر خود ان کی انٹیلی جنس ایجنسی کیا کرتی رہی، وہ سب جانتے ہیں۔ پاکستانی اداروں کے ساتھ ستم ظریفی یہ ہوئی کہ نائن الیون کے بعد کے موقف کو اندرون ملک کو درست تناظر میں سمجھا ہی نہیں گیا۔ جو ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے پارٹنر تھے، اب وہ مخالف سمت میں کھڑے تھے۔کچھ پرویز مشرف کی غلط پالیسیاں‘ جن کے باعث بلوچستان میں آگ بھڑکی، مدارس میں اشتعال پیدا ہوا اور عدالتی، قانونی حلقے تحریک چلانے پر مجبور ہوئے۔ یوں جو بیانیہ اِن ڈائریکٹلی کہنا اور سمجھانا چاہیے تھا، اس کے لئے کوئی کاندھا ملا ہی نہیں۔یہ کام انٹیلی جنشیا کو کرنا چاہیے تھا کہ ریاستوں کو بہت معاملات میں ادھرسے سپورٹ ملتی ہے، مگر ڈکٹیٹر شپ کی وجہ سے علمی، فکری حلقے بھی متامل رہے ، شکوک دونوں اطراف پھیلے رہے۔
کچھ قصور قومی اداروں کا بھی ہے، جو میڈیا کے جدید رجحانات سے باخبر نہیں، کمیونیکیشن گیپ ان کی جانب سے بھی رہا۔ دنیا بھر میں بعض معلومات بیک گرائونڈ بریفنگز کے ذریعے انٹیلی جنشیا تک پہنچائی جاتی ہیں، انہیں معلومات کی وہ کڑیاں فراہم کی جاتی ہیں، جن کے ذریعے وہ اپنے تجزیے مکمل کر سکیں اورانہیں بند کمروں میں ہونے والے معاملات کی کچھ نہ کچھ جھلک بھی مل سکے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انہیں خریدا جائے یا پھر اثر انداز ہواجائے۔ کسی کی حب الوطنی پر شک کی ضرورت نہیں۔اپنے وطن سے کون محبت نہیںکرتا، نقطہ نظر البتہ مختلف ہوسکتا ہے۔ایسے لوگوں کو بیک گرائونڈ بریفنگز میں مدعو کیا جائے، ان کے سامنے اپنا موقف رکھا جائے ، جس حد تک ممکن ہو، تفصیلات سے آگاہ کیا جائے ۔ نتائج اخذ کرنے کا کام تجزیہ کاروں ، دانش وروں اور صحافیوں ہی پر چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ یہ ہنر بخوبی جانتے ہیں۔ اداروں کے کرنے کا کام یہی ہے کہ وہ کمیونیکیشن گیپ کم کریں، وہ خلیج پاٹیں جو سویلن اور غیر سویلین اداروں اورانٹیلی جنشیا اور اس کے ایک اہم حصے میڈیا کے درمیان پیدا ہوجاتی ہے۔جب قومیں میدان جنگ میں ہوں، تب یہ کام بڑے سلیقے مگر برق رفتاری سے ہوناچاہیے۔ اگر ایک مستقل پالیسی کے تحت ایسا ہوتا رہے تو معاملات بہت حد تک سنور جائیں،کمیونیکیشن گیپ پیداہی نہ ہو۔ پھر دونوں طرف وہ گلے شکوے نہیں ہوں گے ، جو آج ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں