سید منور حسن سے سراج الحق تک

جماعت اسلامی میں ایک اہم تبدیلی آچکی۔اس کے سابق امیر سید منورحسن اپنا مختصر سامان اٹھا کر لاہور سے رخصت ہوگئے۔جماعت اسلامی میں سابق امیر کے لئے شایدکوئی باضابطہ کردار موجود نہیں۔ میاں طفیل محمد سبکدوش ہوئے تووہ منصورہ ہی میں مقیم رہے کہ ان کی رہائش گاہ وہیں تھی۔ میاں صاحب خاصے ضعیف ہوچکے تھے، اس لئے وہ چاہتے بھی تو فعال نہیں رہ سکتے تھے،مگر جب تک ان میں سکت رہی، وہ نماز ادا کرنے منصورہ کی مسجد ہی میں آتے رہے۔ آخری برسوں میں وہ اپنے بعد آنے والے امیر قاضی حسین احمد سے کچھ زیادہ خوش نہیں تھے، گاہے ان کی شان میں کچھ کلمات بھی ادا کر دیتے، مگر قاضی حسین احمد کی جانب سے کبھی کوئی جواب نہیںملا۔ 
قاضی حسین احمد جب امارت کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوئے تو اپنی افتاد طبع کے تحت ان سے غیر فعال نہ بیٹھا گیا۔ انہوں نے اخبارات میںمضامین کا سلسلہ شروع کیا۔ روس کے خلاف افغان جہاد کے اولین دنوں کی یادیں انہوں نے تازہ کیں اور بعض تاریخی ریکارڈز درست کئے۔ میرا خیال ہے کہ شاید وہ اس طریقے سے اپنی یادداشتوں کو منضبط کرنا چاہتے تھے، ویسے زیادہ بہتر ہوتا کہ وہ جم کر اس پر کام کرتے اور اپنی خودنوشت مکمل کر لیتے ۔ قاضی صاحب نے اپنے ایک آدھ کالم میں جماعت کے حوالے سے بھی تیکھا تبصرہ کر ڈالا جو بعض جبینوں پر شکنوں کا باعث بنا۔قاضی حسین احمدنے ایک انٹیلکچوئل فورم بھی شروع کیا اور اس کے تحت بعض اہم سیمینار کرائے ۔ قاضی صاحب کے ذہین اورمتحرک صاحبزادے آصف لقمان قاضی کو چاہیے کہ اس فورم کو پہلے کی طرح فعال بنائیں۔ہمارے صحافی دوست اختر عباس (ایڈیٹر اردو ڈائجسٹ )راوی ہیں کہ جب قاضی حسین احمد امیر تھے ،ان دنوں میاں طفیل محمد کے بیانات تواتر سے اخبارات میں شائع ہورہے تھے، جن میں قاضی صاحب اور جماعت کی قیادت پر تنقید ہوتی۔ایک نجی محفل میںاختر عباس نے قاضی صاحب سے مخاطب ہو کر کہا کہ کیا یہ بہتر نہیں کہ صرف ایک مدت ہی کے لئے امیر منتخب ہو، ہر پانچ سال کے بعد نیا امیر بنے، اس طرح نئی انرجی جماعت میں شامل ہوتی رہے گی۔ قاضی صاحب نے قہقہہ لگا کر بات ٹال دی اور ازراہ تفنن کہا کہ ایک سابق امیر تو تم لوگوں سے سنبھالا نہیں جا رہا، اگر دو تین سابق امیر ہوگئے تو کیا کرو گے؟
ویسے جماعت کی سینئر لیڈر شپ نے بائیو گرافیز لکھنے سے قدرے گریز ہی رکھا۔ مولانا مودودی شاید اپنے بارے میں لکھنے سے گریزاں تھے ، ان کی علمی مصروفیت بھی آڑے آئی ہوگی۔ میاں طفیل محمد نے خود کتاب تو نہیں لکھی ، مگر ایک صحافی کو طویل انٹرویو دیا، جس پر مبنی کتاب شائع ہوئی، اس میں میاں صاحب نے بعض متنازع موضوعات پر بھی خامہ فرسائی کی،جماعت کا روایتی ڈسپلن مضبوط نہ ہوتا تو خاصی لمبی چوڑی بحث چھڑنی تھی۔ ایک مسئلہ اس کتاب کے ساتھ یہ بھی رہا کہ انداز بیان الجھا ہوا اورقدرے مبہم ہے۔ پروفیسر غفور احمد نے پاکستانی سیاسی تاریخ پر تو کئی کتابیں لکھ ڈالیں یا بقول شخصے اخباری خبروں پرمبنی ''روزنامچے ‘‘ترتیب دئیے ، مگر وہ بھی جماعت کے ساتھ گزرے روز وشب کو تحریر میں نہ لائے ، کم از کم میری نظر سے ابھی تک ان کی ایسی کتاب نہیں گزری۔ خرم مراد نے اپنے بائی پاس آپریشن سے پہلے اپنی یادداشتوں پر مبنی کچھ کیسٹ ریکارڈ کرائے ، لمحات کے نام سے وہ کتاب شائع ہوئی، یادداشتیں ادھوری ہیں ،مگر کمال کی ہیں۔جماعت کے اندرونی کلچر کو سمجھنے کے لئے اسے پڑھنا ضروری ہے۔ سید منور حسن کے کاندھوں پر امارت کی ذمہ داریاں موجود نہیں، اپنے لئے ذمہ داریوں کا تعین وہ خود ہی بہتر کر سکتے ہیں، تاہم اگر وہ کچھ وقت اپنی خودنوشت کے لئے نکال پائیں اورچار پانچ دہائیوں پر مبنی تحریکی سفر کی یادداشتیں تحریر کر ڈالیں تو سیاست اور صحافت کے طالب علموں کے لئے وہ دلچسپی کی حامل ہوں گی۔ 
سید صاحب کی رخصتی ہنگامہ خیز رہی۔ان کا امیر منتخب نہ ہونا ایک روایت شکن بات تھی، جس پر تبصرے اور تجزیے بھی ہوئے۔ اس خاکسار نے بھی اس موضوع پر قلم اٹھایا،اپنے کالم کی سرخی ''سید منور حسن کو شکست کیوں ہوئی ؟ ‘‘جمائی تھی۔بعد میں احساس ہوا کہ وہ سرخی درست نہیں تھی۔ سید صاحب کے امیر نہ بننے کو ان کی شکست تصور کرنا مناسب بات نہیں تھی کہ جماعت کے انتخاب میں اپنی مہم چلانے کی اجازت نہیں ہوتی ، اس لئے سخت سے سخت الفاظ میں یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ ارکان جماعت نے انہیں مسترد کر دیا ، شکست بہرحال اسے نہیں کہا جاسکتا۔ سید صاحب کے منتخب نہ ہونے کے فوراً بعد بعض جماعتی حلقے ضرورت سے زیادہ متحرک ہوگئے، ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ سید صاحب کے نہ جیتنے والی بات کسی طرح ہوا میں تحلیل کرادی جائے ۔ شاید اس لیے کہ سید صاحب کے نہ جیتنے کو ایک مائنڈ سیٹ کی پسپائی کے مترادف سمجھا جا رہا تھا۔ یہ تصور راسخ ہو رہا تھا کہ سید صاحب کو اپنے غیر محتاط بیانات کی بنا پر منتخب نہیں کیا گیا۔ جماعت کے حامی حلقے کے اندر جو سخت گیر پر وطالبان عناصرموجود ہیں، انہیں اس بات سے دھچکا پہنچاکہ ایک حساب سے یہ ان کی ناکامی تھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جماعت کے انتخابات کے فوراً بعدبعض لوگوں نے سید صاحب کے منتخب نہ ہونے اور سراج الحق صاحب کے امیر بننے کو اسٹیبلشمنٹ کے کھاتے میں ڈال دیا۔ ایک نوجوان دوست نے باقاعدہ اس پر کالم لکھ مارا ،جس میں سید صاحب کو سقراطِ وقت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نے باقاعدہ کوشش کر کے منور صاحب کو ہرایا ہے۔ معلوم نہیں کہ ''سقراطِ وقت‘‘کی اس کالم کے بارے میں کیا رائے تھی؟ قیاس اغلب ہے کہ اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ انہوںنے اپنے اس بھولے حامی کو'' نادان دوست‘‘ قرار دیا ہوگا۔ہمارے ایک محترم اور سینئر قلم کار نے اگلے روز لکھا،'' سید منور حسن کے ساتھ ہی سیاست سے سادگی ،دیانت وغیرہ رخصت ہوگئی، اصولوں کی سیاست کا باب بند ہوا اورفی زمانہ رائج الوقت سیاست کا آغاز ہوا۔ سراج الحق کو اس لئے منتخب کیا گیا کہ ارکان جماعت کواگلے پانچ سال کے لئے کسی کھرے اور دیانت دار امیر کی بجائے سیاسی سمجھ بوجھ والے امیر کی ضرورت تھی۔ ‘‘ 
میری ذاتی رائے میں ایسا تاثرلینا درست نہیں۔ میری فیس بک فرینڈزلسٹ میں خاصے لوگ جماعت کے حامیوں میں سے ہیں۔ارکان، امیدوار،سابقین جمعیت وغیرہ۔ان کے پوسٹس نظر سے گزرتے تھے۔ پچھلے سال ڈیڑھ سے جماعت اسلامی میں مایوسی کی ایک لہر در آئی، مئی کے عام انتخابات میں 
شکست اس کا نقطۂ عروج تھا۔ مجھے یوں لگا کہ جماعت کے ارکان اور حامیوں کو کسی نئے رول ماڈل کی تلاش ہے۔نوجوان خاص کر کسی انرجیٹک، متحرک اور سادگی ودیانت داری کی شہرت رکھنے والے لیڈر کو پروموٹ کرنا چاہتے تھے۔ سراج الحق ان سب چیزوں پر پورا اترتے تھے۔ فیس بک کی دنیا کا اگر جائزہ لیا جائے تو پچھلے دو تین برسوں میں سراج الحق کی تصاویر سب سے زیادہ پوسٹ ہوئیں۔ نوجوانوں کو سراج صاحب سے توقع تھی کہ وہ جماعت میں ایک نئی جان ڈال دیں گے۔یاد رہے کہ سراج الحق کوصرف ایک اچھے سیاست دان کے طور پر کسی نے پیش نہیں کیا، بلکہ ہر ایک ان کی دیانت ، سادگی اور درویشی کی مثال دیتا تھا۔ سراج الحق جماعت کے روایتی ''صالحین‘‘ کے طبقے کی نئی مثال کے طورپر ابھرے تھے۔ کھرے بان کی چارپائی پر نیم دراز ان کی ایک تصویر کو تو ہزاروں ہٹس ملے ہوں گے۔ اس لئے یہ تاثر دینا تو زیادتی ہوگی کہ اسٹیبلشمنٹ نے سراج الحق کو منتخب کرایا یا پھر جماعت اسلامی کے ارکان میںسادگی اور دیانت جیسے اوصاف کی قدر کم ہوگئی اور انہوںنے '' فی زمانہ رائج سیاست ‘‘ کرنے والا شخص منتخب کر لیا۔ویسے یہ بحثیں اب دم توڑ دیں گی ، سید صاحب کا دور بیت گیا ۔ اب سراج الحق ہی کا زمانہ ہے۔ اس وقت اہمیت اس بات کی ہے کہ کیا سراج الحق جماعت اسلامی کے روایتی سٹرکچر میں بنیادی نوعیت کی تبدیلی لاسکتے ہیں؟ جماعت کے ہمدرد وںمیں سے بعض حلقے اصلاحات لانے کی جو توقعات باندھے بیٹھے ہیں، وہ کس حد تک پوری ہو پائیں گی؟ ان پہلوئوں پر بات ہوتی رہے گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں