عمران خان: گزشتہ برس کا سیاسی سفر

رابرٹ ڈیلک مشہور امریکی صحافی اور مورخ ہیں۔ انہوں نے صدر لنڈن بی جانسن پر کتاب لکھی۔ ''پورٹریٹ آف اے پریزیڈنٹ‘‘ نامی اس کتاب کو امریکی اور عالمی سیاسی و صحافتی حلقوں میں سراہا گیا۔ اس کتاب میں ڈیلک نے جانسن کی شخصیت کا دلچسپ تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے: ''وہ ایسی شخصیت تھے جن کے بارے میں غیرجانبدارانہ اور متوازن رائے دینا مشکل ہے۔ آپ ان سے شدید نفرت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں یا پھر شدید محبت، اعتدال کی راہ اپنانا مشکل ہے‘‘۔
پاکستانی سیاست میں یہ بات بھٹو صاحب پر صادق آتی ہے۔ ان کی شخصیت بھی ایسی زوردار اور جھنجھوڑ دینے والی تھی کہ ان کے حوالے سے غیرجانبدارانہ رائے مشکل سے ملتی ہے۔ بھٹو صاحب نے پاکستانی سیاست کو اس قدر تقسیم کیا کہ چالیس سال بعد بھی اس پولرائزیشن کے اثرات موجود ہیں۔ گزشتہ تین عشروں کی سیاست پرو بھٹو اور اینٹی بھٹو نعروں سے عبارت ہے۔ بھٹو کے چاہنے والوں نے انہیں تمام خوبیوں اور خامیوں سمیت قبول کیا، دل میں بسایا اور ان کی قبر تک سے پیار کرنے لگے۔ آج پیپلز پارٹی کے دامن میں جو کچھ ہے، بھٹوکا صدقہ ہے۔ بھٹو کے مخالفین کی تعداد بھی بہت زیادہ رہی، بھٹو کی کرشماتی شخصیت کو پوری قوت سے رد کیا اور ان کے خلاف پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی تحریک چلائی۔
عمران خان کے بارے میں ابھی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی کہ ان کا سیاسی سفر جاری ہے، اللہ انہیں زندگی دے۔ ان کے بارے میں آخری تجزیہ تو مورخ کرے گا مگر عمران خان اور ذوالفقار علی بھٹو
میں یہ مماثلت ہے کہ ان کے حوالے سے غیرجانبداری کے ساتھ متوازن رائے کم ملتی ہے۔ لوگ ان کے شیدائی ہیں یا شدید مخالف۔ ان کی شخصیت ایسی ہے کہ آدمی انہیں پوری قوت سے قبول کرتا ہے یا ردکر دیتا ہے، غیرجانبدار رہنا ممکن نہیں۔ اس کی دو تین وجوہ ہیں۔۔۔ انہوں نے پہلے سے موجود تمام بڑی سیاسی قوتوں کو نہ صرف چیلنج کیا بلکہ انہیں نااہل اور کرپٹ قرار دیا۔ یہ ان کے ووٹروں اور حامیوں سے براہ راست ٹکرائو تھا۔ میاں نواز شریف اور آصف زرداری سیاست کے دو مرکزی کھلاڑی تھے، عمران نے دونوں کو ہدف بنایا اور اپنی تنقید اس سطح پر لے گئے کہ ان سے مفاہمت یا اتحاد کا آپشن تقریباً ختم کر بیٹھے۔ ایم کیو ایم شہری سندھ کی اہم سیاسی قوت ہے، عمران خان اس پر بھی پوری قوت سے حملہ آور ہوئے، جتنا شدید وار انہوں نے کیا کوئی دوسری بڑی سیاسی جماعت اس حد تک نہیں جا سکتی تھی۔ ردعمل فطری تھا، ایم کیو ایم بھی عمران خان کی شدید مخالف ہوگئی۔ یہی سلوک انہوں نے اے این پی سے کیا، پختون قوم پرستوں کے مقابل کھڑے ہوگئے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں جے یو آئی کا خاصا اثرورسوخ ہے، عمران خان اور مولانا فضل الرحمان میں براہ راست ٹکرائو نہیں تھا، ان سے گریزکر سکتے تھے مگر خان کو مولانا کی سیاسی حکمت عملی اورکہہ مکرنیاں پسند نہ آئیں اور ان کے خلاف بھی علانیہ جنگ پر اتر آئے۔ ضرب اتنی شدید لگائی کہ
مولانا کی چھوڑی ہوئی دونوں نشستیں جیت لیں۔ ایک پر ان کے بھائی اور دوسری پر ان کے فرزند ارجمند کو شکست دی۔ اس کے بعد مولانا عمران کے خلاف فتوے نہ دیں توکیا جلیبیاں بانٹیں؟
ان کی صوبائی حکومت میں آفتاب خان شیرپائو کی جماعت اتحادی ہے، کرپشن کے الزام لگے تو ان کے وزیر برطرف کر ڈالے۔ بندہ پوچھے، وزیر بن کر بھی کچھ نہ کیا تو پھر کیا کیا۔ اصولی سیاست کے نعرے تو ہر کوئی لگاتا ہے مگر اس پر عمل ہر ایک کے نصیب میں کہاں! خان صاحب کو یہ باتیں ابھی تک سمجھ نہیں آئیں۔ یار دوست لگامیں ''کھینچ‘‘ کر رکھتے ہیں ورنہ ہر روز ایک آدھ رکن اسمبلی کو قربان کر دیا کریں۔ دو ہفتے قبل ایک وزیر اور مشیر کی چھٹی کرا دی، اس بار کرپشن کے بجائے ناقص کارکردگی وجہ بنی۔ سمجھایا گیا لیکن کسی کی نہ مانی۔ 
عمران خان کی سیاست پر بہت اعتراض ہو سکتے ہیں۔ ان کی الیکشن میں حکمت عملی درست نہیں تھی، اپنی غلطیوں کی اصلاح کر لیتے تو ''فرشتوں‘‘ کی کوششوں اور مبینہ ''پنکچروں‘‘ کے باوجود نتائج مختلف ہوتے۔ خیبر پختونخوا میں ان کی حکومت کو ایک سال گزر چکا۔ صوبے میں کوئی انقلاب نہیں آیا، اس کے باوجود یہ تو بہرحال حقیقت ہے کہ ان کی صوبائی حکومت کی ساکھ بری نہیں۔ کرپشن بہت کم ہوئی، کئی شعبوں میں بہتری بھی آئی، صحت کے حوالے سے بہت اچھا کام ہوا۔ چیف سیکرٹری اور آئی جی ایسے منتخب کئے کہ مخالفین بھی ان پر انگلی نہیں اٹھا سکتے۔ کرپشن کرنے والی حکومت ایسی تقرریاں نہیں کیا کرتی۔ یہ سب اس حال میں ہوا کہ تحریک انصاف کے بیشتر ایم پی ایز نے اسمبلی کی شکل ہی پہلی بار دیکھی تھی۔ ایسی ناتجربہ کار ٹیم اور پرویز خٹک جیسے سادہ منش وزیر اعلیٰ کے ساتھ پرفارم کرنا بجائے خود ایک بڑا چیلنج ہے۔ یہ مگر حقیقت ہے کہ مخلوط حکومت ہونے کے باوجود اتحادی جماعت کے وزرا کو کرپشن کے الزامات پر فارغ کر دیا گیا۔ یہ تک خیال نہ کیا کہ بلدیاتی انتخابات میں وہ اتحادی بن سکتے ہیں۔ ضمنی انتخابات میں انہیں مسلسل کامیابیاں ملیں، این اے ون پشاور کی نشست غلط امیدوار کی وجہ سے ہاری مگر اسی معرکے میں سب سے بڑی مخالف جماعت جے یو آئی سے دو نشستیں چھین لیں۔ ن لیگ کی ایک نشست بھی جیت لی۔ تحریک انصاف کی اصل کمزوری میڈیا ونگ ہے۔ تمام تر انحصار عمران کے شخصی سحر پر ہے۔ جدید سیاست میں ایسا نہیں ہوتا، کمپنیوں کی طرح سیاسی جماعتوں کو بھی مارکیٹنگ کرنا پڑتی ہے۔ میڈیا میں اپنی جنگ خود لڑنا پڑتی ہے۔ چیریٹی ورک میں والنٹئیر مل جاتے ہیں، میڈیا میں نہیں۔ ایسا نہ کیا جائے تو کامیابیاں بھی ناکامیوں میں شمار ہونے لگتی ہیں۔ کرپشن پر وزیر ہٹائے جائیں تو احسان فراموشی کے طعنے ملتے ہیں۔
حیرت ہے کہ عمران خان کی کامیابیوںکو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ دھاندلی کے حوالے سے ان کا موقف بڑا مضبوط اور ٹھوس ہے۔ صرف چار حلقوں میں انگوٹھے کے نشان چیک کرانے میں کیا ہرج ہے؟ ن لیگ کو بہت پہلے ان کا مطالبہ تسلیم کر لینا چاہیے تھا، اس سے پورے انتخابی عمل کی ساکھ اور اعتبار مستحکم ہو جاتا۔ ایک میڈیا ہائوس کے حوالے سے عمران نے بڑا سخت موقف اپنایا اور بائیکاٹ تک کا فیصلہ کر ڈالا۔ میری نظر میں یہ انتہائی قدم ہے جس سے گریز کرنا چاہیے تھا، مگر بہرحال یہ بطور سیاستدان ان کا حق ہے۔ پیپلز پارٹی نے بھی تین چار سال پہلے ایک میڈیا گروپ کا بائیکاٹ کیا تھا۔ عمران کے اس موقف پر تنقید کی جا سکتی ہے مگر اسے احسان فراموشی کہنا زیادتی ہے۔ ریٹنگ کے بے رحم بزنس میں اقربا پروری نہیں چلتی، جس کا سکہ چلتا ہے، اسے ہی بلایا جاتا ہے۔ جو کسی شو کو ہٹ کرا سکتا ہے، بار بار وہی آئے گا۔ اگر ایسا نہیں تو سردار شیر باز مزاری اور اصغر خان جیسے دیانت داری کے پیکر سیاستدانوں کو ٹاک شوز میں کیوں نہیں بلایا جاتا؟ عمران خان کی سیاسی غلطیوں اور کمزوریوں پر تنقید ضرور ہونی چاہیے، سیاست میں آنے کے بعد وہ احتساب سے نہیں بچ سکتے، توازن اور اعتدال مگر ضرور ملحوظ رکھنا چاہیے۔ افسوس کہ بھٹو صاحب کی طرح عمران خان کے حوالے سے بھی ایسا نہیں ہو رہا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں