پاک بھارت دوستی کیسے ممکن ہے؟

دو دن پہلے ایک نوجوان نے مجھے ایک ای میل بھیجی۔ رومن اردو میں لکھی طویل تحریر تھی۔ خاصی مغز ماری کے بعد میں پڑھنے میں کامیاب ہوا۔ مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی کہ رومن اردو میں اتنی محنت کی کیا ضرورت ہے۔ آج کل اردو کے اتنے سافٹ ویئرز آ چکے ہیں، جن کے ذریعے نہایت دلکش فونٹ یا خطاطی میں اردو لکھی جا سکتی ہے۔ میرے جیسے بد خط افراد کے لیے تو اردو ٹائپنگ نعمت ثابت ہوئی ہے۔ خیر اس نوجوان نے اپنی ای میل میں دو بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھائے۔ انہوں نے پوچھا کہ آخر پاکستان اور بھارت کے مابین دوستی کیوں قائم نہیں ہو سکتی؟ اس میں کون سی ایسی رکاوٹیں ہیں جو عبور نہیں کی جا سکتیں؟ ان کا دوسرا اعتراض پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر ہے کہ وہ آخر ہر اہم ملکی ایشو میں انوالو کیوں ہوتی ہے؟ پچھلے چند دنوں میں سوشل میڈیا پر بھی اس سے ملتے جلتے مباحث دیکھتا رہا۔ ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ اس قسم کے سنجیدہ سوالات پر کھل کر بحث نہیں ہوتی، کوئی بات کرے بھی تو طعنے‘ تشنیع اور الزامات غالب آ جاتے ہیں۔ بلیم گیم کھیلنا انٹیلی جنشیا کا کام نہیں، ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے وہ مسئلے کا حل تلاش کرتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات کیوں کشیدہ رہتے ہیں، دوستی کا تعلق کس لیے قائم نہیں ہو پاتا اور اس خطے میں پائیدار امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہونے کی وجوہ کیا ہیں؟ ان تینوں سوالات کا ہمارے ہاں ایک ہی سادہ جواب تراش لیا جاتا ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ایسا نہیں ہونے دیتی۔ ہمارے لیفٹ کے دوست عرصے سے یہ راگ الاپتے رہے ہیں، لبرل لیفٹ اور سیکولر حلقے بھی اس حوالے سے ان کے ہمنوا ہیں۔ اب فوج سے ناراض رائیٹ ونگ کا ایک خاص عنصر بھی ہر مسئلے کی ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ پر تھوپ دیتا ہے۔ الزام در الزام سے مگر اصل مسئلہ ختم نہیں ہو جاتا، وہ وہیں کا وہیں رہتا ہے۔ ایک سادہ سوال ہے کہ آخر اسٹیبلشمنٹ ایسا کیوں کرے گی؟ ہمارے لیفٹسٹ اور لبرل دانشور اس کا اتنا ہی سادہ جواب دیتے ہیں کہ اگر پاکستان اور بھارت میں دوستی ہو جائے تو دونوں طرف اتنی بڑی فوج کی ضرورت نہیں رہے گی، دفاع کا بجٹ کم ہو جائے گا اور وردی والوں کے اللے تللے ختم ہو جائیں گے، اسی لیے وہ مخالفت کرتے ہیں۔ یہ جواب سن کر مجھے ہمیشہ ہنسی آتی ہے۔ صورتحال کبھی اتنی سادہ نہیں ہوتی۔ کیا یورپی یونین بن جانے کے بعد انگلینڈ اور فرانس نے اپنی فوجیں ختم کر دی ہیں؟ کیا وہاں پر دفاع کی ذمہ داریاں پولیس نے سنبھال لی ہیں؟ چین جیسے ملک کو کہاں سے حملے کا خطرہ ہے؟ وہ آخر اپنے دفاع پر کیوں خرچ کرتا ہے اور اتنی بڑی فوج رکھی ہوئی ہے؟ روس جیسے ملک نے سوویت یونین کی ٹوٹ پھوٹ، سائز اتنا کم ہونے اور امریکہ کے ساتھ سرد جنگ ختم ہو جانے کے بعد فوجی اور دفاعی بجٹ کو ختم کیوں نہیںکر دیا؟ بھارت نے پاکستان سے تین گنا زیادہ فوج کیوں رکھی ہوئی ہے؟ پاکستان سے خطرہ ہے تو اتنی ہی یا زیادہ سے زیادہ ڈبل فوج رکھ لیتا، پاکستان سے پانچ سات گنا زیادہ وہ دفاع پر خرچ کر رہا ہے اور لمبی پرواز والے طیاروں، دور تک مار کرنے والے میزائلوں پر وہ کیوں کام کر رہا ہے؟ ممالک اپنی جغرافیائی اور سٹریٹجک پوزیشن کے مطابق ہی اپنی دفاعی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ناروے، سویڈن اور ڈنمارک جیسے فلاحی سکینڈے نیوین ممالک اگر جنوبی ایشیا میں ہوتے تو ہم دیکھتے کہ ان کے بجٹ کا بھی پندرہ بیس فیصد دفاع پر خرچ ہو رہا ہے۔ جیو پولیٹیکل پوزیشن ہر ملک کا اثاثہ ہوتی ہے، کبھی بلائے جان بھی۔ اس پوزیشن کو مگر کوئی ملک نظرانداز نہیں کر سکتا‘ جس کے پڑوس میں پچھلے پینتیس برسوں سے جنگ جاری ہو، جہاں اتنا بڑا وار تھیٹر ہو، وہاں پر کوئی لاتعلق کیسے رہ سکتا ہے؟ ترک لیڈر طیب اردوان نے شروع میں خاصی کوشش کی کہ اپنی خارجہ پالیسی میں ایسی تبدیلیاں لائیں جن سے ان کی دفاعی ضروریات کم ہو سکیں۔ انہوں نے ایران کے ساتھ معاملات بہتر کیے، یونان کے ساتھ جاری کشیدگی کم کی، روس کے ساتھ اچھے سفارتی تعلقات قائم کیے، یہ چاہا کہ کامیاب خارجہ پالیسی کے ذریعے اپنی دفاعی بوجھ کو کم کیا جائے، مگر وہ بھی حالات کے ہاتھوں مجبور ہو گئے۔ ترکی نے تمام تر امریکی دبائو کے باوجود عراق میں الجھنے سے گریز کیا، شام کے مسئلے پر وہ لاتعلق نہ رہ سکے۔ ان کے اسرائیل کے ساتھ معاملات بگڑے، اخوان المسلمون کی حمایت پر مصر کے ساتھ تعلقات خراب کیے اور شام والے معاملے پر وہ اینٹی ایران بلاک میں رہنے پر مجبور ہو گیا۔ یہ ہوتا ہے حالات اور جیو پولیٹیکل پوزیشن کا جبر۔
پاکستان اور بھارت کے مابین پائیدار امن اور دوستی کے لیے ضروری ہے کہ ان کے درمیان حائل جنگلے پر لگے تالے کی چابیاں 
ڈھونڈی جائیں۔ ایک نہیں بلکہ تین چابیاں درکار ہوں گی۔ سب تو پہلے بھارت کو اس خطے میں اپنے اگریسو ایجنڈے سے پیچھے ہٹنا پڑے گا۔ یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنے ایجنڈے کے مطابق آگے بڑھتا جائے اور کوئی اسے کائونٹر نہ کرے۔ پاکستانی منصوبہ سازوں یا اسٹیبلشمنٹ کے لاشعور میں واضح طور پر عدم تحفظ موجود ہے۔ یہ بے سبب نہیں۔ پاکستان بھارت کے ہاتھوںدو ٹکڑے ہو چکا ہے۔ مشرقی پاکستان میں کی گئی غلطیوں کا بہت تذکرہ ہوتا ہے مگر ایک اہم فیکٹر شاید دانستہ طور پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ بے شک ہم نے وہاں پہاڑ جیسی غلطیاں کیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان سب کے باوجود مشرقی پاکستان کو الگ کر لینا مکتی باہنی کے بس کی بات نہ تھی۔ یہ بھارت کا فل سکیل لیول پر فوجی حملہ تھا، جس کی وجہ سے سقوط ڈھاکہ ہوا۔ عدم تحفظ کی لہر اس کے بعد سے کسی نہ کسی سطح پر اسلام آباد میں گردش کرتی رہی۔ بھٹو صاحب جیسے سویلین لیڈر کو بھی ایٹم بم بنانے کے لیے آخری حد تک جانا پڑا۔
بھارتی ایجنڈے کو کائونٹر کرنا اور کم سے کم دفاع کی بنیادی سطح پر رہنا پاکستان کی مجبوری ہے۔ اس عدم تحفظ سے نکالنا بھارت کی ذمہ داری ہے۔ وہ اپنے رویے میں تبدیلی پیدا کر لے، ایسی تبدیلی جو صرف سطح پر نہیں بلکہ گہرائی تک محسوس ہو، اس کے اثرات اسلام آباد میں خود بخود پڑیں گے۔ جب افغانستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں غیر ضروری طور پر قونصلیٹ کھولے جائیں، بلوچ شدت پسندوں کو کھلم کھلا فنانس کیا جائے، فاٹا کی عسکریت پسندی کو بڑھانے میں حصہ ڈالا جائے، اندرون سندھ شدت پسند گروپ بنانے کی کوششیں جاری رکھی جائیں تو اس کا فطری اور منطقی ردعمل بھی ہو گا۔ دوسرا اہم فیکٹر افغانستان ہے۔ بھارت سے افغانستان تک کا راستہ پاکستان سے گزر کر جاتا ہے۔ جب بھی بھارت پاکستان کو بائی پاس کر کے افغانستان میں اپنا اثرورسوخ قائم کرنے کی کوشش کرے گا، مسائل پیدا ہوں گے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ پاکستان نیپال میں اربوں ڈالر کی انویسٹمنٹ کر ڈالے اور ساتھ ہی اپنا جاسوسی نیٹ ورک قائم کرے تو بھارت پہلے ہی دن چیخ اٹھے گا۔ بھارتی ماہرین کو اس کا اندازہ ہے کہ افغانستان میں ان کا ایجنڈا پاکستان کے لیے مسائل پیدا کرتا ہے مگر وہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس جانب پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تیسرا اور اہم ترین فیکٹر پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود بنیادی ایشوز ہیں۔ کشمیر اور پانی کا مسئلہ کلیدی نوعیت کا ہے مگر سیاچن، سرکریک وغیرہ کے تنازعات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان بنیادی تنازعات کو کسی نہ کسی انداز سے حل کرنا ہو گا۔ ان کی کنجی بھی بھارت ہی کے ہاتھ میں ہے۔ بھارت اس ریجن میں امن قائم کر کے، اکنامک زون بنانا چاہتا ہے، اس سے اسے بے پناہ فوائد حاصل ہوں گے، پاکستان کو بھی کیک میں کچھ نہ کچھ شیئر ملے گا، مگر یہ سب اس صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جب بھارتی سیاسی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ اپنی بلند و بالا انا کی دیوار نیچے کرے اور پاکستان کو مناسب سپیس دے۔ اگلے روز ایک بھارتی صحافی نے لکھا کہ بھارت کو بگ برادر کی بجائے ایلڈر برادر کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہی حل ہے۔ سلگتے انگاروں کو قالین کے نیچے پھینکنے سے وہ بجھ نہیں جائیں گے، قالین ہی کہیں نہ کہیں سے جلے گا۔ یہ بات اسلام آباد کی منتخب سیاسی حکومت اور ہمارے لبرل لکھاریوں کو بھی سمجھنا ہو گی۔ حقائق کا ادراک ہر ایک کو کرنا چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں