مختلف دنیائوں میں سانس لینے والے

مرزا غالب نے خود کو ایک ایسا شخص قرار دیا تھا، جو دو مختلف تہذیبوں میں پروان چڑھا، جس نے دو مختلف دنیائوں کو دیکھا، ان میں سانس لیا۔ اردو کے ممتاز نقاد شمیم حنفی کے مطابق غالب کی شاعری پر بھی اس کے اثرات موجود ہیں۔ یہ دو مختلف دنیائیں ریل گاڑی کی ایجاد سے پہلے اور بعد کی تھیں۔ ریل گاڑی وہ ایجاد تھی، جس نے معاشرے کے پورے چلن اور کلچر کو بدل کر رکھ دیا۔ اردو کے کئی محاورے بھی ٹرین کے آنے کے بعد متروک ہو گئے۔شمیم حنفی صاحب کی اپنے انٹرویو میں کہی گئی یہ بات اسے پڑھ کر پہلے توعجیب سا لگا کہ ہمارے نزدیک ٹرین ایک عام سی چیز ہے، تیزرفتار سفر کے لئے بہت کچھ ایجاد ہوچکا، بلٹ ٹرین کے سامنے تو پرانے زمانے کی دھواں اڑاتی چھک چھک کرتی ریل گاڑی دیوہیکل کھلونا ہی لگے گی۔ جہاز اورپھر سپر سانک جہازوں نے فاصلے ہی سمیٹ دئیے ہیں۔ دنیا پر گہرے نقش مرتب کرنے والی ایجادات کی لمبی فہرست ہے۔ یہ سب اپنی جگہ ،مگر پچھلے دنوں دو دلچسپ رپورٹس دیکھنے کو ملیں، مجھے لگتا ہے کہ اگر ان کا استعمال عام ہوا تو معاشرے میں بڑی اہم اور بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں آئیں گی۔
معلوم ہوا کہ ایک پچیس سالہ امریکی نوجوان روبن رائن ہارٹ نے ایک سپر غذا ایجاد کی ہے۔ یہ ایک محلول یا شیک کی صورت میں ہے ،جس کاڈیڑھ گلاس پی لینے سے ایک وقت کے کھانے کے برابر غذائیت مل جائے گی اور پیٹ بھی بھر جائے گا۔ مزے کی بات ہے کہ روبن ہارٹ کوئی ڈاکٹر نہیں بلکہ الیکٹریکل انجینئر ہے۔ پڑھائی ٹف ہونے کی وجہ سے اسے گھنٹوں پڑھنا پڑتا، باہر سے کھانا مہنگا پڑتا۔ اکیلا رہتا تھا، فلیٹ پر کھانا پکانے میں خاصا وقت لگ جاتا۔ ایک دن اس نے سوچا کہ اگر تمام غذائی اجزا کو اکٹھا کر کے ایک پائوڈر بن جائے تو اسے جسے محلول بنا کر پینے میں چند منٹ لگیں گے۔ اس نے اس پر ریسرچ شروع کی، اسے معلوم ہوا کہ انسان کو زندہ رہنے کے لئے پینتیس غذائی اجزا کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس نے امائنو ایسڈ ، لیپڈز، کاربوہائیڈریٹس، منرلز وغیرہ اکٹھے کئے‘ لیپڈز(چکنائی، پانی میں حل ہوجانے والے وٹامن، روغن)،کاربوہائیڈریٹس (گندم یا جئی سے)، پروٹین(پھلیوں یا سویابین سے)، اومیگا تھری ایسڈ(مچھلی سے)۔ بعض اہم منرلز جیسے میگنیشیم، سوڈیم، پوٹاشیم وغیرہ اور آئرن میڈیکل سٹورز سے سفوف کی شکل میں دستیاب تھا۔ اس نے سب کو اکٹھا کیا اور یوں سوئے لینٹ (Soylent) نامی محلول تیار کر لیا۔ شروع میں وہ اپنے آپ پر تجربات کرتا رہا، کبھی سوڈیم یعنی نمک کم ہوجاتا تو نقاہت ہوجاتی، میگنیشیم زیادہ ہونے پر جسم میں درد کی لہریں اٹھنے لگیں۔ بہرحال وہ ایک اچھا تناسب والا فارمولا بنانے میں کامیاب رہا۔ ایک مہینہ اسے استعمال کیا، اسے لگا کہ زندگی بدل گئی،کھانے پکانے کی ٹینشن ہی خلاص ہوگئی۔ روبن ہارٹ نے اپنے بلاگ میں اسے شیئر کیا، اس بلاگ کو بڑی پذیرائی ملی ، اسے آرڈر ملنے لگے، اس کے دوست بھی اس کے ساتھ آملے، نئے ریسرچ پروجیکٹ کے لئے مالی تعاون کرنے والی وینچر کمپنیوں نے بھی انویسٹمنٹ کی، روبن نے کمرشل سطح پر اسے تیار کرنا شروع کر دیا اور یوں اس کے خواب نے سوئے لینٹ کی شکل میں وجود پالیا۔اس کی کمپنی دو ہزار کیلوریز پر مشتمل ایک دن کی خوراک کا پیکٹ فراہم کرتی ہے۔ اس سے چار گلاس تیار ہوسکتے ہیں، ڈیڑھ گلاس ایک وقت کے کھانے کے لئے کافی ہیں۔ ڈنر ہلکا کرنا ہے تو صرف ایک گلاس پی لیا جائے۔ 
میں سوچ رہا تھا کہ ہم نے جہاں انسانی زندگی کے بہت سے پہلوئوں میںآسانی ڈھونڈ لی ہے، ہر معاملے میں وقت اور محنت بچانے کی کوششیں ہورہی ہیں‘ چاہتے ہیں کہ ہر کام سمارٹ فون سے ہوجائے، کہیں سوئے لینٹ جیسی ریڈی میڈ غذائیں بھی عام نہ ہوجائیں۔ ہماری خواتین تو اسے ہاتھوں ہاتھ لیں گی کہ ان کی کچن جانے سے ہی جان چھٹ جائے گی۔پیکٹ کھولا، ڈائننگ روم میں بیٹھے بیٹھے چارچھ گلاس تیار کئے ، لیجئے پورے گھر کا ڈنر تیار۔ مہمان بلانا بھی آسان ، ڈنر ٹائم پر ایک ٹرے میں گلاس لا کر سامنے رکھ دئیے، زیادہ سے زیادہ اہتمام یہ ہوگا کہ کراکری اچھی اور نفیس قسم کی لی جائے تاکہ مہمان خوش رنگ عمدہ گلاس میں اپنا ڈنر نوش جاں کریں مگر کیا اس سے زندگی میں رنگ ختم نہیں ہوجائیں گے؟ میرے جیسے آدمی کے لئے ،جس کی زندگی کا ایک حصہ لاہورشہر کی گلی کوچوں میں گھوم کر روایتی لذیذ کھانے کھوجنے ، ان سے لطف اٹھانے اور پھر دوستوں کے ساتھ شیئر کرنے میں بسر ہوا، یہ سوئے لینٹ کسی بھیانک خواب سے کم نہیں۔ مزنگ چونگی کی حلیم، گڑھی شاہو کی مچھلی، گوالمنڈی کی لسی، نسبت روڈ کی نہاری، لکشمی چوک کی چانپیں، موچی دروازے کے سائیں ، ٹمپل روڈ کے مامااور ڈی بلاک والے بھیا کے کباب،بھاٹی گیٹ کی حلیم، نیلا گنبد کے چنے، سوئیکارنو بازار کی دہی پھلکیاں،گوگے کے مٹن چنے، رنجیت سنگھ کی مڑھی کے ہمسائے میں دستیاب شہرہ آفاق حلوہ پوری... یہ داستان ہزار لذت بہت طویل ہے۔ یخ بستہ سردیوں میں بھاپ اڑاتی نہاری، ہریسہ کھانے میں تو لطف ہے ہی ،مگر اس سے زیادہ وہاں جانے کے تصور میں پوشیدہ ہے۔اس کم بخت محلول میں وہ سب کچھ کیسے ممکن ہوگا۔ جینا تو اس سے ممکن ہوسکتا ہے، زندہ رہنا نہیں۔
ابھی ''سوئے لینٹ‘‘ کے صدمے سے نہیں نکلا تھا کہ اگلے روز گوگل کی ڈرائیور لیس گاڑی کی خبر ملی۔ معلوم ہوا کہ گوگل نے کامیاب تجربات کے بعد ایسی کار بنا لی ہے ، جس میں سٹیرنگ ہے نہ بریک۔ دو بٹن ہیں ، ایک چلانے کے لئے ، ایک کسی ایمرجنسی میں گاڑی روکنے کے لئے۔ یہ کام بھی سمارٹ فون سے ہوسکتے ہیں۔ پتہ چلا کہ دنیا کی کئی موٹر کمپنیاں اس مشن میں جتی ہوئی ہیں، ہر ایک اپنے اپنے انداز سے ایسی کار بنانا چاہتی ہے، جسے ڈرائیور کی ضرورت نہ ہو، جو کمپیوٹر کے ذریعے چلتی ہو۔ گوگل والی کار میں ایسے سنسر لگے ہیںجو چاروں طرف مختلف زاویوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس طرز کی کاروں کا استعمال شروع ہونے سے بہت کچھ بدل جائے گا۔ اس کے چار پانچ بنیادی فوائد یہ ہیں۔ تحفظ:ڈرائیورلیس کاریں دنیا کو زیادہ محفوظ بنا سکتی ہیں، جہاں ہر سال12 لاکھ انسان ٹریفک حادثوں میںہلاک ہو جاتے ہیں۔ انسان ڈرائیوروں کے برعکس یہ کاریں لاپروائی نہیں برتیں گی، ٹریفک سگنل نہیں توڑیں گی، شراب یا کوئی اور نشہ نہیں کریں گی، دوسری کاروں سے ریس نہیں لگائیں گی، ٹیکسٹ میسیج بھیجنے 
میں مشغول نہیں ہوں گی، ارتکاز نہیں کھوئیں گی، مضطرب نہیں ہوں گی، انہیں اونگھ نہیں آئے گی، غصہ نہیں آئے گا۔مختصر یہ کہ ڈرائیورلیس کاریں زیادہ محفوظ ہوں گی۔پارکنگ:آج کل کار چلانے والوں کا بہت سا وقت پارکنگ کی جگہ تلاش کرنے میں ضائع ہو جاتا ہے۔ ڈرائیورلیس کار کا مسافر منزل پر پہنچ کر کار سے اترکر بے فکری سے چلا جائے گا جب کہ اس کی کار پارکنگ کے لیے موزوں جگہ خود تلاش کر لے گی۔ وقت کی بچت: کار ڈرائیو کرنے میںضائع ہونے والا وقت بچ جائے گا، لوگ ڈرائیونگ کے بجائے مزے سے گاڑی میں بیٹھ کر بیوی بچوں سے خوش گپی کرسکتے ہیں،اکیلے ہوں تو کتاب پڑھ سکتے ہیں یا فلم دیکھی جاسکتی ہے۔ ماحول پر اچھے اثرات: ڈرائیورلیس کاروںمیں استعمال کی جانے والی ٹیکنالوجی کی وجہ سے حادثوں کا امکان تقریباً صفر ہو جائے گا اس لیے زیادہ کشادہ سڑکیں بنانے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ یوں خاص طور پر سرسبزو شاداب دیہی علاقے سڑکیں بنانے میں ضائع نہیں ہوں گے۔ کم خرچہ : ڈرائیور کا خرچہ بچ جائے گا، یہ بھی ممکن ہے کہ مستقبل میں لوگ مل جل کر کاریں استعمال کر لیں۔ ڈرائیونگ لائسنس کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔بچے خود بھی سکول یا کسی دوسری جگہ جا سکیں گے، والدین کو ساتھ جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی، وہ سمارٹ فون ہی سے اپ ڈیٹ لیتے رہیں گے۔مجھے تو یہ لگتا ہے کہ ابھی ابتدا ہے، تبدیلیوں کی رفتار بہت تیز ہے۔سوئے لینٹ، ڈرائیور لیس کار اور اس طر ح کی دیگر ایجادات کے بعد دنیا بہت مختلف ہوجائے گی۔ لگتا ہے ہر چار پانچ سال بعد دنیا کی شکل و صورت یکسر بدل جائے گی۔دو مختلف تہذیبوں اور دو مختلف دنیائوں میں رہنے کی بات پرانی ہوئی، ہم ان خوش نصیبوں یا کم نصیبوں میں شمار ہوں گے، جنہوں نے کئی مختلف دنیائوں میں وقت گزارا اور سانس لیا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں