افغان طالبان اور پاکستانی طالبان

چند دن پہلے میں نے شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن ''ضرب عضب‘‘ کے حوالے سے کالم لکھا، فیس بک پراسے پوسٹ کیا توکمنٹس اوران باکس میسجزکی صورت میں دلچسپ ردعمل سامنے آیا۔ ہمارے ہاں موجود بعض دوسرے ایشوزکی طرح اس آپریشن پر بھی دوانتہائی آراء موجود ہیں۔۔۔۔ سخت مخالف اور آپریشن کے زبردست حامی۔ یہ بات البتہ میں نے محسوس کی کہ آپریشن کے مخالفوں کی تعدادکم ہوئی ہے۔ یہ تحریک طالبان پاکستان کی اپنی غلطیوں کا نتیجہ ہے یا حکومت اورفورسزکی جانب سے امن مذاکرات کی صورت میں اتمام حجت کی کارروائی کا ثمرکہ شدت پسند گروپوںکی حمایت کم ہوئی ۔ دراصل عرفان صدیقی صاحب کی سربراہی میں جو حکومتی مذاکراتی کمیٹی بنی، اس نے ایک اچھا کام یہ کیا کہ مذاکرات کے سلسلے کو خفیہ رکھنے کے بجائے میڈیا پرکھل کر بیان کیا۔ پہلے یہ ہوتا تھاکہ پاکستانی طالبان کے حامی سیاستدان اور لکھنے والے تو بڑی عمدگی سے طالبان کا موقف میڈیا پر پیش کرتے اورفورسزکو شدت سے تنقیدکا ہدف بنایاجاتا،مگر اس کے جواب میں حکومت یا فوج کوئی جواب دینے کی زحمت نہ کرتی۔اس بار طالبان کے حامی سرگرم رہے توان کے ساتھ ساتھ عرفان صدیقی اور حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے دیگرارکان بھی تفصیلات شیئر کرتے رہے۔ بہت سے لوگوںکاحسن ظن یہ تھاکہ پاکستانی طالبان پاکستانی ریاست یا فورسزکو اس لئے نشانہ بنا رہے ہیںکہ یہ امریکی پالیسیوں پرعمل کر رہی ہیں،لیکن مذاکرات اورطالبان کے مطالبات سے اندازہ ہواکہ ٹی ٹی پی کا ایسا کوئی مسئلہ نہیں، ان کے اصل مسائل اپنے قیدی رہا کرانا، زرتلافی حاصل کرنا اور ایک ایسا محفوظ علاقہ حاصل کرنا ہے جہاں ان کی سرگرمیوں پرکسی قسم کی روک ٹوک نہ ہو۔کم وبیش یہی ان کے مطالبات تھے جن کے سامنے آنے پر بہت سوںکو مایوسی ہوئی۔انہی دنوں ایک صاحب نے مجھے ای میل کی کہ اگر صرف ان مطالبات کا ایشو ہے تو ہزاروں بے گناہ شہری کیوں مارے گئے،کیا اتنی معمولی باتوں کے لئے قتل وغارت کی گئی؟ واضح رہے کہ موصوف ایک معروف دینی جماعت سے تعلق رکھتے ہیںاوراس سے پہلے ٹی ٹی پی کے باقاعدہ حامی رہے۔
گزشتہ کالم میںعرض کیا تھا کہ پاکستانی طالبان اورافغان طالبان دومختلف تنظیموںکے نام ہیں۔ جب دو تنظیموں کے درمیان قدر مشترک دیکھنی ہو یا یہ جائزہ لینا ہوکہ دونوں ایک ہیں یا نہیں، تو سب سے پہلے یہ دیکھاجاتا ہے کہ ان کا ایجنڈا اور ہدف کیا ہے؟ پھر یہ دیکھا جاتا ہے کہ ان کی قیادت ایک ہے یا ان میں کتنی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ ان کا نظم اورکمانڈ سٹرکچر ایک ہے یا نہیں، مالی فنانسر ایک ہیں یا نہیں؟ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے اہداف یکسر مختلف ہیں، ان کی قیادت مختلف ہے، نظم اور سٹرکچر مختلف ہے، مالی معاونت کرنے والے مختلف ہیں اوردونوں کا ضابطہ اخلاق بھی یکسر مختلف ہے۔ افغان طالبان کامیدانِ جنگ افغانستان ہے، ان کا اصل ہدف امریکی اور نیٹو افواج رہیں۔ان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ پاکستانی قبائلی علاقوں سے جنگجو ان کے ساتھ آ ملیں تاکہ امریکہ کے خلاف موثر لڑائی لڑی جا سکے۔
ٹی ٹی پی کا میدان جنگ پاکستان اور بنیادی ہدف پاک فوج اور ریاست پاکستان ہے۔ انہوں نے افغانستان میں جاری اینٹی امریکہ مزاحمت میں شمولیت کی کبھی زحمت نہیںکی، اس لئے یہ حقیقت تو واضح ہوجانی چاہیے کہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان الگ الگ تنظیمیں ہیں۔ اگرقبائلی پس منظر، پشتون فیکٹر، کم وبیش ایک جیسے مسلک ، قدرے سخت گیر قدامت پسندانہ سوچ وغیرہ کی بنیاد پر انہیں کوئی ایک قرار دے رہا ہے تووہ غلطی پر ہے۔ اس طرح کی کچھ باتیں تو طالبان مخالفوں اور طالبان میں بھی مشترک نکل آئیں گی۔ عسکریت پسند تنظیموںکا موازنہ کلچرل بنیادوں پر نہیںکیا جاتا، بلکہ اس کے پیمانے مختلف ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے دو سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔۔۔۔ پہلا یہ کہ افغان طالبان نے کبھی ان کی علانیہ مذمت کیوں نہیں کی، دوسرے حکیم اللہ محسودکی ہلاکت پر ملا عمرکی جانب سے اظہارافسوس کا بیان کیوں جاری کیا گیا ؟ سوشل میڈیا پر موجود ٹی ٹی پی کے حامی عناصر،جن میں جماعت اسلامی اور جمعیت کے حامیوں کی بھی خاصی تعداد شامل ہے، اس بیان کو بنیادی دلیل کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ یہ دونوں باتیں سمجھنا بڑا آسان ہے۔ قبائلی کلچر میں یہ معمول ہے کہ اپنے دشمن کے کسی افسوسناک سانحے میں ہلاکت پربھی خوشی کے بجائے اظہار افسوس کیا جاتا ہے۔ پھر حکیم اللہ محسودکی جس طرح اچانک ڈرون حملے میں ہلاکت ہوئی، اس نے پاکستان میں ان کے مخالفوں تک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ افغان طالبان جو امریکہ کے سب سے بڑے مخالف ہیں، امریکی ڈرون سے مرنے والے حکیم اللہ محسودکی ہلاکت پر اورکیا بیان جاری کرتے؟ جہاں تک علانیہ لاتعلقی نہ کرنے کی بات ہے، یہ سمجھنا چاہیے کہ افغان طالبان حالت جنگ میں ہیں، وہ اپنا تمام تر فوکس افغانستان میں امریکی افواج پر کئے ہوئے ہیں، فطری طور پرکسی بھی دوسرے تنازع میں الجھنا ان کے لئے خطرناک تھا۔ ان کے لئے پاکستانی قبائلی علاقوں کا خطہ بہت اہم رہا۔ ایک زمانے میں یہ ان کی سپلائی لائن بھی رہی اوربیس کیمپ بھی۔ ٹی ٹی پی ان علاقوں میں مقیم سب سے طاقتور تنظیم ہے۔ پہلے جنوبی وزیرستان اوراب شمالی وزیرستان میں اس کا خاصا مضبوط نیٹ ورک ہے، افغان طالبان کے لئے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ علانیہ ٹی ٹی پی کے خلاف محاذ جنگ کھول لیں؛ اپنے آپ کو اس سے الگ کرنے کی البتہ ہر ممکن کوشش کی۔ جب حکیم اللہ محسود کے حکم پر یرغمال بنائے گئے فورسزکے جوانوں کی گردنیںکاٹنے کا سلسلہ جاری تھا، ملا عمر نے تیس نکاتی ضابطہ اخلاق جاری کیاجسے پڑھ کرمعلوم ہوتاہے کہ یہ خاص طور پر پاکستانی طالبان کو سامنے رکھ کرجاری کیا گیا، وہ تمام کام ممنوع قرار دیئے گئے جو پاکستانی طالبان بخوشی کر رہے تھے۔ مقصد یہ بتانا تھاکہ افغان طالبان کا کلچر پاکستانی طالبان سے الگ ہے۔
نائن الیون کے بعدکی اضطراری حالت میں طالبان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو امریکہ کے حوالے کرنے کی افسوسناک غلطی سرزد ہوئی، اس کا دفاع نہیںکرنا چاہیے، یہ غلط تھا، مگر صرف اس ایک واقعے کی بنیاد پر یہ نہیںکہا جاسکتا کہ پاکستانی ریاست نے طالبان کو بیچ ڈالا،ایسا ہرگز نہیں ہوا۔ حقانی صاحب اور ان کے صاحبزادوں کے لئے امریکہ اربوں ڈالرکی قیمت لگانے کو تیار ہوجاتا، کس کو خبرکہ کس درجے کی ترغیبات دی گئی ہوں گی؟ مگر کیا ہوا، آج بھی سراج حقانی پوری طرح محفوظ ہیں۔ اسی طرح امریکہ نے طالبان کی کوئٹہ شوریٰ کوگرفتارکرنے کے لئے بے پناہ دبائو ڈالا مگراس کی حد درجہ مزاحمت کی گئی۔ مولانا حمد اللہ جان ممتاز ترین دیوبندی عالم دین اور جے یوآئی کے بزرگ و قابل احترام رہنمائوں میں سے ایک ہیں، وہ واحد سکالر تھے جن کا طالبان دورکے ریڈیو شریعت افغانستان میں لائیو درس قرآن نشر ہوتا رہا۔ ان کے صاحبزادے نے مجھے ملا عبدالسلام ضعیف کے نائب، اس وقت کے قونصل جنرل ملا کاکا خیل کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ سنایا، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ افغان طالبان کوکس حد تک پاک فوج پردبائواور زمینی حقائق کا اندازہ تھا۔ ان کے بقول ملا کاکا خیل کہنے لگے: ''جب ہم مدرسے میں پڑھتے اور لوگوں کے گھر سے وظیفہ(کھانا)اکٹھا کر کے مسجد لا رہے ہوتے تو اکثر اوقات دیہاتی ماحول میں گھومتے جانور (کتا وغیرہ) کھانے کی خوشبو سونگھ کر پیچھے لگ جاتے، ان کو ڈرا دھمکا کر بھگانے کی کوشش کی جاتی، جب ناکامی ہوتی اور خطرہ ہوتا کہ یہ جانور ہمیں کاٹ لے گا تو مجبوراً روٹی کا ایک آدھ ٹکڑا ان کی جانب اچھالنا پڑتا، اس وقت ہم کوشش کرتے کہ روکھی سوکھی روٹی کی قربانی دیں، قدرے بہتر کھانا بچا لیں، آگے جا کر بھی یہی ہوتا اور مجبوراً کچھ اور قربانی دینی پڑتی۔کوشش پھر بھی یہی ہوتی کہ جس حد تک بچایا جاسکے بچا لیں، جو توشہ خاص ہے اسے محفوظ رکھیں۔ یہی حال پاکستان کا ہے، ہمیں اندازہ ہے کہ اس پر عالمی قوتوں کی یلغار ہے، جب معاملہ اس کی برداشت سے باہر ہوجائے توکچھ نہ کچھ قربانی اسے دینی پڑتی ہے، یہ مگر ہمیں معلوم ہے کہ وہ آخری دم تک مزاحمت ہی کریںگے اوراصل گروپوں کو بچائیں گے‘‘۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں