نقیب ِانقلاب

نظریات، گروہوں اور تنظیموں کی طرح بعض شخصیات بھی اس طرح متنازع ہو جاتی ہیں کہ ان کے بارے میں کوئی غیرجانبدارانہ یا متوازن رائے دینا مشکل ہو جاتا ہے۔ آدمی یا تو پوری شدت سے ان کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے یا پھر اس طور ناپسند کرنے لگتا ہے کہ پلٹ کر ادھر نہیں دیکھتا۔ وہ شخصیت خواہ کس قدر اچھا کام کر دکھائے، اسے ناپسند کرنے والوں کی تیوڑیوں پر پڑے بل دور نہیں ہوتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی طاقتور شخصیت کے باعث کسی کے لیے غیرجانبدار رہنا ممکن نہیں رہتا، وہ کوئی ایک انتہائی رائے بنانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ پاکستانی تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو ہی ایسے شخص تھے جن پر یہ بات پوری اترتی ہے۔ لوگوں نے بھٹو صاحب سے محبت کی، ایسے ٹوٹ کر کی کہ انہیں مٹی اوڑھے تین عشروں سے زیادہ عرصہ ہو چکا‘ لیکن ان کی یاد چاہنے والوں کے دلوں میں پہلے دن کی طرح ہی تروتازہ ہے۔ ان کے مخالفین بھی دُھن کے پکے نکلے۔ بھٹو صاحب کی زندگی کے آخری ایام جیل میں کڑی صعوبتیں جھیلتے گزرے، لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس مولوی مشتاق نے ان کی تذلیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، بھٹو کو سولی چڑھنا پڑا، اس کے باوجود ان کے حوالے سے موجود تعصبات کم نہ ہوئے۔ 
ہمارے ہاں بعض شخصیات ایسی بھی ہیں جن کے حوالے سے منفی رائے زیادہ توانا بنی۔ مختلف وجوہ کی بنا پر ان کے خلاف تعصبات، ناپسندیدگی اور بیزاری کی ایسی لہر چلی کہ اکثریت نے اس کی پیروی کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے مخالفین انہیں کسی قسم کی کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں، چاہے وہ کوئی اچھا کام ہی کیوں نہ کر لیں۔ غلطیوں اور کوتاہیوں کے اتنے بڑے بیگیج کے ساتھ سیاست کرنا بہت دشوار ہو جاتا ہے، لیکن ان لوگوں کی ''ہمت‘‘ یا سخت جانی کی داد دینی چاہیے کہ وہ کمر توڑ بوجھ سر پر اٹھائے چلے جا رہے ہیں۔ آصف زرداری کی طرح قومی سیاست کی ایسی ہی ایک شخصیت عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری ہیں۔ طاہرالقادری صاحب بھی ان لوگوں میں سے ہیں، جنہیں مسلسل بے رحمانہ تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان کے مخالفین، جن کی تعداد ان کے حامیوں سے بہرحال زیادہ ہے، انہیں کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں۔ حال یہ ہے کہ ان پر درجنوں کالم لکھے جائیں تو سب کے سب مخالفت میں ہوں گے، بیلنس کرنے کے لئے کوئی رسماً بھی ایک جملہ لکھنے کا روادار نہیں۔ یہی حال ٹی وی ٹاک شوز کا ہے، جہاں انہیں جارحانہ تنقید کا نشانہ بنایا جاتا۔ یہ اور بات کہ طاہرالقادری صاحب اپنی دھن میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کے حامی انہیں کسی پیر بزرگ سے کم نہیں سمجھتے، لگتا ہے وہ اپنے قائد کے خلاف لکھی یا بولی گئی کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔
ویسے قبلہ زرداری صاحب کی طرح طاہرالقادری صاحب کسی اور کو ملزم نہیں ٹھہرا سکتے، یہ فصل انہوں نے خود اپنے ہاتھوں بوئی۔ قادری صاحب کی فعال زندگی کو تین چار ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ جھنگ کے ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والے طاہرالقادری اپنی محنت اور کوششوں کے باعث ابھرے۔ پنجاب یونیورسٹی لا کالج میں پڑھاتے رہے۔ اتفاق مسجد کے خطیب بنے، اپنی سحر انگیز تقریروں سے میاں شریف صاحب کو اس درجہ متاثر کیا کہ وہ انہیں بھرپور طریقے سے سپورٹ کرتے رہے۔ شریف فیملی ان پر اپنی نوازشات کی لمبی چوڑی تفصیل بیان کرتی ہے۔ قادری صاحب بھی اس حوالے سے اپنا تفصیلی جواب بیان فرماتے ہیں۔ اس شکوہ، جواب شکوہ کو ایک سائیڈ پر رکھتے ہوئے ہم آگے بڑھتے ہیں۔ طاہرالقادری صاحب کا پی ٹی وی پر پروگرام بھی خاصا مقبول ہوا۔ وہ بہت عمدہ مقرر اور دینی سکالر کے طور پر معروف ہوئے۔ ایک بڑے اخبار میں ان کا دینی حوالے سے روزانہ کالم شروع ہوا۔ اس وقت تک قادری صاحب بڑی حد تک غیر متنازع شخصیت تھے۔ پھر اچانک انہوں نے سیاست میں کودنے کا فیصلہ کیا اور پاکستان عوامی تحریک کے نام سے اپنی سیاسی جماعت بنا لی۔ طاہرالقادری صاحب کی زندگی کا دوسرا اہم فیز شروع ہو چکا تھا۔ یہ بہت اہم موڑ تھا۔ انہوں نے شریف خاندان کو بڑی شدت سے نشانہ بنایا۔ اس وقت سیاست پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے مابین منقسم تھی۔ طاہرالقادری نے تیسری قوت بننے کی کوشش کی، جس کا بنیادی تقاضا پیپلز پارٹی کے ساتھ مسلم لیگ اور میاں نواز شریف کو بھی ہدف بنانا تھا‘ اگرچہ وہ اپنی اس کوشش میں بری طرح ناکام ہوئے۔ غلطی یہ ہوئی کہ سیاست میں مذہب کو مکس کر ڈالا۔ یہ کام بھی ہماری دینی سیاسی جماعتیں کر ہی رہی ہیں، طاہرالقادری صاحب نے اپنے ''مکاشفات‘‘ اس میں جھونک ڈالے۔ میرے جیسے دنیادار ان خوابوں، مکاشفات، روحانی دعووں پر کوئی رائے نہیں دے سکتے‘ یہ بات البتہ سب کے سامنے ہے کہ دعوے باطل ثابت ہوئے۔ یہ وہ دور تھا، جب انہوں نے اپنے اچھے بھلے مداحین کو اپنا مخالف بنا لیا۔ 
اتنے بڑے دھچکے، مخالفت کی اتنی شدید آندھی چلنے کے بعد آدمی تھک ہار کر بیٹھ جاتا ہے۔ علامہ طاہرالقادری البتہ میدان میں موجود رہے۔ یہ ان کی زندگی کا تیسرا فیز تھا۔ سیاسی ناکامیاں انہیں ملیں مگر یہ تاثر بن گیا کہ بعض حلقوں میں ان کے کچھ ووٹ موجود ہیں اور سیاسی اتحاد کے حوالے سے مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس دوران اپنے نیٹ ورک کو انہوں نے پھیلانے پر توجہ مرکوز کی۔ تعلیمی ادارے، خیراتی تنظیمیں، شہر اعتکاف، بارہ ربیع الاول کو مینار پاکستان پر سیرت کانفرنس وغیرہ۔ وہ متحرک رہے، تنظیم منہاج القرآن کو فعال بنائے رکھا۔ جنرل مشرف کے دور میں کرائے گئے پہلے انتخابات میں وہ پہلی بار لاہور سے رکن اسمبلی بنے۔ یہ ان کی پہلی سیاسی کامیابی تھی۔ قادری صاحب اس سے پہلے جنرل مشرف کے ساتھ ملے۔ انہیں امید تھی کہ جنرل پذیرائی بخشیں گے، لیکن ایسا نہ ہوا۔ اسی عرصے میں اچانک انہوں نے اپنی قومی اسمبلی کی نشست سے استعفا دے دیا۔ صحافتی حلقے بھونچکا رہ گئے، زندگی میں پہلی بار علامہ صاحب ایم این اے بنے لیکن پھر استعفا کیوں دے دیا؟ ہاں اس دوران وہ علامہ سے ڈاکٹر طاہرالقادری کہلانا شروع کر چکے تھے۔ ان کی پریس ریلیز میں لفظ ڈاکٹر پر بہت اصرار ہوتا۔ وہ خود کو عام علما کرام سے مختلف ثابت کرنا چاہتے تھے، جن کے لیے 'علامہ‘ کا 
لفظ کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے۔ مشرف دور ہی میں وہ باہر چلے گئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ انہوں نے کینیڈا کی شہریت حاصل کر لی ہے۔ اگلے کئی برسوں تک وہ وہیں مقیم رہے۔ اس دور کو ان کا چوتھا فیز کہا جا سکتا ہے۔ اس بارے میں چہ میگوئیاں ہوتی رہیں مگر کسی کے پاس ان کے اس طرز عمل کا ٹھوس جواز نہ تھا۔ علمی کام البتہ وہ کرتے رہے۔ ان کی تفسیر قرآن سامنے آئی۔ اسے پذیرائی ملی، حدیث کے حوالے سے بھی کتب لکھیں۔ سب سے اہم کام انہوں نے تحریک طالبان پاکستان کے حوالے سے ایک مبسوط فتویٰ لکھ کر کیا۔ چار سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ پچھلے سال عام انتخابات سے پہلے اچانک ہی انہوں نے میدان میں اترنے کا اعلان کیا۔ 'سیاست نہیں ریاست بچائو‘ کے نعرے کے ساتھ وہ پاکستان پہنچے اور پھر اپنے حامیوں کی خاصی بڑی تعداد اکٹھی کرکے اسلام آباد میں دھرنا دینے جا پہنچے۔ ان کا دھرنا پُرامن مگر بڑی حد تک بے فائدہ رہا۔ الیکشن اصلاحات کا انہوں نے پُرکشش نعرہ لگایا لیکن اس کے سیاسی ثمرات وصول نہ کر پائے۔ قادری صاحب کے اس دھرنے اور سیاسی فعالیت کے بارے میں عام تاثر یہی تھا کہ وہ نادیدہ قوتوں کے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں، اگرچہ وہ ہمیشہ اس تاثر کی تردید کرتے رہے۔ اب قادری صاحب دوبارہ سیاسی میدان میں آ چکے ہیں۔ اس بار منہاج القرآن کے کارکنوں کی لاشیں ان کی پشت پر ہیں۔ نظام میں تبدیلی کا نعرہ ان کے لبوں پر، حکومت مخالف سیاسی اتحاد اور احتجاجی تحریک ان کا ہدف ہے۔ وہ کس حد تک کامیاب ہو پاتے ہیں، اس حوالے سے کچھ کہنا ابھی آسان نہیں۔ دیکھیے کیا گزرتی ہے قطرے پر گہر ہونے تک۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں