نصاب

سید قاسم محمود ہمارے ادبی اور صحافتی منظرنامے کی ایک دیوقامت شخصیت تھے۔ ان کے کام کا جائزہ لیا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ ایک شخص کس طرح اتنا کام کر سکتا ہے؟ نوجوان قاسم محمود نے سردار عبدالرب نشتر کے مشورے پر انسائیکلو پیڈیا ز پر کام شروع کیا، جب پاکستان میں عام اردو خواں لوگوں کو یہ تک نہیں معلوم تھا کہ یہ انسائیکلو پیڈیا کیا بلا ہے؟ سید قاسم محمود انسائیکلوپیڈیا کے کام پر جت گئے اور تن تنہا وہ کر دکھایا، جس کے لئے ادارے درکارتھے۔ ان کے ترتیب کردہ انسائیکلو پیڈیا پاکستانیکا ، اسلامی انسائیکلو پیڈیا اپنی مثال آپ ہیں۔ انہیںپڑھنے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر کچھ سہولتیں فراہم کر دی جاتیں تومزید کتنا کام ہوجاتا۔ سید صاحب آخری دنوں تک اپنے انسائیکلوپیڈیا کے مشن پر ڈٹے رہے، بیاسی سال کی عمر میں بھی سولہ گھنٹے روزانہ کام کرتے۔ ان کا منصوبہ تھا کہ سائنس انسائیکلو پیڈیا، انسائیکلو پیڈیا تہذیب وتمدن، مسلم انڈین ہسٹری انسائیکلو پیڈیا اور سیرت انسائیکلو پیڈیا ترتیب دئیے جائیں۔ ان پر بیک وقت کام کرتے رہے، انڈین ہسٹری پر ماہانہ کتابی شکل میں جریدہ نکالتے رہے، خاصا کام سمٹ گیا تھا، اسی طرح باقی موضوعات پر بھی کام ہوتا رہا۔ آخری مہینوں میں قرآن انسائیکلو پیڈیا پر کام شروع کیا، چار یا چھ شمارے نکالے، بے مثال کام تھا، کاش انہیں مہلت مل جاتی تو اردو میں قرآن کے حوالے سے شاندار کام وجود میں آجاتا۔ان کی کتابوں کے ناشر الفیصل نے ابھی کچھ دن پہلے سیرت انسائیکلو پیڈیا شائع کیا۔ دیکھ کر سید صاحب کے لئے دل سے دعا نکلی۔ سیرت مبارکہ ﷺ کے حوالے سے کئی ہزار صفحات پر محیط ایسا کام پہلے کبھی نہیں ہوا۔ اللہ ان کی روح کو سکون بخشے، میرے جیسے تساہل پسندوں کے لئے وہ ایک ایسا لائٹ ہائوس ہیں، جہاں تک پہنچنا تو درکنار، وہاںکا تصور بھی دشوار ہے۔ 
سید قاسم محمود بتاتے تھے کہ انہیں جاپان جانے اور وہاں کچھ عرصہ مقیم رہنے کا موقعہ ملا۔کتابوں کی ایک نمائش میں ، ایک بک سٹال پر کتاب دیکھی، جس کے ٹائٹل پر صرف ایک ہی سطر لکھی تھی، ''دنیا کی عظیم ترین کتاب۔‘‘ تعارف کے زمرے میں اور کچھ نہیں تھا۔ کھولا تو معلوم ہوا کہ وہ قرآن پاک کا ترجمہ ہے، عربی متن نہیں دیا گیا اور صرف جاپانی اور انگریزی میں قرآن کا ترجمہ شائع کیا گیا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ اس بک سٹال پر آنے والے لوگ دلچسپی سے وہ کتاب دیکھ اور خرید رہے تھے۔ ان کے ذہن میں خیال آیا کہ ایسا ترجمہ قرآن اردو میں بھی شائع کیا جائے، اس کی ایک بڑی افادیت یہ ہوتی کہ اسے نسبتاً زیادہ آزادی کے ساتھ سرہانے رکھا جا سکتا تھا اوررات کو سونے سے پہلے یا کسی بھی وقت ریلیکس پوزیشن میں پڑھا اور اس پر غور کیا جا سکتا تھا۔ لاہور آ کر انہوں نے کوشش کی ،مشہور خطاط حافظ یوسف سدیدی صاحب سے درخواست کی ،مگر حافظ صاحب نے انکار کر دیا کہ ہمارے ہاں ایسی کوئی روایت موجود نہیں ، ترجمہ صرف عربی متن ہی کے ساتھ شائع ہوسکتا ہے۔ ان دنوں صرف کاتب ہی کتابت کرتے تھے، ان کے انکار پر اور کوئی آپشن نہیں بچی تھی۔ سید صاحب نے ہمت نہ ہاری اور شاہکار ترجمہ قرآن کے نام سے ایک سلسلہ شروع کیا، اس میں ایک کالم میںقرآن پاک کا عربی متن تھا، ساتھ مولانا فتح محمد جالندھری کا مشہور لفظی ترجمہ، تیسرے کالم میں سید مودودی کا با محاورہ ترجمہ قرآن اور ایک کالم میں علامہ عبداللہ یوسف علی کا انگریزی ترجمہ دیا گیا۔ یہ بھی اپنی نوعیت کا منفرد کام تھا۔ ہر سیپارے کو الگ الگ شائع کیا گیا، ہر ایک کے شروع میں قرآن اورتفسیر کے حوالے سے
کوئی اہم اور جامع مضمون شامل ہوتا، کہیں کہیں پر قرآن کے مشہور تفاسیر سے اشاریے بھی دئیے گئے ۔''شاہکار‘‘ کا یہ شاندار کام میرا خیال ہے آج کل بھی دستیاب ہے۔ 
سید صاحب کی وفات سے پہلے میں نے ان کا ایک تفصیلی انٹرویو کیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ انٹرویو ختم ہوا تو کچھ دیر تک گپ شپ ہوتی رہی، وہ مجھ سے میری پسندیدہ کتابوں کے بارے میں پوچھتے رہے، جواب دیتا رہا۔ انہیں اچھا لگ رہا تھا۔ اچانک پوچھا ، قرآن پاک کی کون سی تفسیر پڑھی ہے؟ یہ سوال سن کر میری سٹی گم ہوگئی، زبان لڑکھڑانے لگی۔ انہیں اندازہ ہوگیا، کہنے لگے کہ ترجمہ سے تو پڑھا ہوگا؟ اس بار ماتھے پرپسینہ بھی آگیا۔سید صاحب پر ناگوار تو گزرا ہوگا کہ قرآن سے ان کا محبت کا تعلق تھا، بڑی نرمی سے صرف اتنا کہا، ''ٹالسٹائی کی سینکڑوں صفحات پر مشتمل وار اینڈ پیس اور اینا کرینینا، میلول کی موبی ڈک، دوستئو فسکی کی کرائم اینڈ پنشمنٹ ، ترگنیف ، گوگول اور پشکن وغیرہ کی کتابیں پڑھیں، اچھا کیا، فکشن آدمی کو اندر سے سافٹ بناتی ہے، مگر ایک پڑھے لکھے نوجوان ، مطالعہ جس کی عادت ہو، پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ دنیا کی عظیم ترین کتاب ضرور پڑھے، اسے سمجھ کر ، غور کر کے پڑھے۔ ایک مسلمان کے طور پر تو ہمارا یہ فرض ہے ہی، مگر مذہب سے ہٹ کر بھی دنیا کی عظیم ترین کتابوں کی کسی بھی فہرست میں قرآن پاک پہلے نمبر پر آتا ہے۔ اس کے لئے ضرور وقت نکالیں۔‘‘
ندامت تو بہت ہوئی، فیصلہ کیا کہ اس کمی کو پورا کیا جائے، مگر پھر وہی تساہل آڑے آیا، تین چاربرس پہلے البتہ یہ موقعہ ملا اور سچ تو یہ ہے کہ ایک عظیم الشان تجربے سے گزرا۔ قرآن پاک سے بالکل آئوٹ آف ٹچ تو کبھی نہیں رہے، کبھی درس قرآن، کبھی گھرمیں موجود سید مودودی کی تفہیم القرآن کی کسی جلد کا مطالعہ ،... یہ تو چلتا رہتا تھا، مگر قرآن کو الحمد سے لے کر والناس تک پوری یکسوئی کے ساتھ با ترجمہ پڑھنا بالکل ہی دوسری بات ہے۔ یہ بات صرف تجربہ کرنے ہی سے سمجھی جا سکتی ہے۔میں نے بھی تین سال پہلے رمضان المبارک ہی میں اس کا آغاز کیا تھا،قارئین میں سے جو اس ایمان افروز اور دلگداز تجربے سے محروم رہے ہیں، اس بار ایسا کر کے دیکھیں۔ اس حوالے سے کسی لمبے چوڑے چکر میں نہ پڑیں۔ کسی بھی مستند سکالر کا ترجمہ قرآن لے لیں، بے شک اپنے مکتب فکر کے کسی بڑے سکالر کا ترجمہ ہو۔پہلے مرحلے میں تفسیر سے گریز کریں اور صرف ترجمہ ہی پر فوکس کریں ، جب ترجمہ پڑھ 
چکیں ، پھر تفسیروں کی جانب شوق سے جائیں۔میں نے تو یہی طریقہ اپنایا تھا کہ چند صفحات یا جتنی اللہ توفیق دے ، قرآن پاک کی تلاوت کر لیں، پھر اس کا ترجمہ پڑھنا شروع کر دیں۔ صرف ترجمہ ہی پڑھتے جائیں، ایک سپارے کا ترجمہ آدھے گھنٹے میں پڑھا جا سکتا ہے، جس طرح کسی کتاب کو دو چار نشستوں میں پڑھا جاتا ہے، اسی طرح چند ہی دنوں میں قرآن پاک کا ترجمہ پڑھ لیا جائے گا۔ مجھے یقین ہے کہ رب تعالیٰ کے کلام کی عظمت ، ا س کا سحر اور قوت آپ کے دلوں میں بھی راسخ ہوتی جائے گی۔ میرے تو کئی اشکالات ترجمہ پڑھنے سے دور ہوگئے، میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کا کوئی بھی منصف مزاج شخص قرآن کو پڑھ کر جان سکتا ہے کہ یہ کائنات کے مالک کا کلام ہے۔ ایسی عظمت، شان ، ہیبت اور جلال کسی انسان کے بس کی بات ہی نہیں۔ اللہ کی محبت بھی دل میں اتر جائے گی، بندہ ششدر رہ جاتا ہے کہ زمین وآسماں کے مالک کو ہماری کس قدر فکر ہے کہ طرح طرح کی دلیلوں، مختلف زاویوں سے انسان کو قائل کرنے ، سمجھانے اور راہ ہدایت دکھانے کی کوشش کی گئی۔ مجھے بہت سے نوجوان ای میلز، ٹیکسٹ میسیج یا فیس بک پر کمنٹس کی صورت میں ایسی کتابوں کے نام لکھنے کی فرمائش کرتے ہیں، جو انہیں پڑھنی چاہئیں۔ اس رمضان میں میرا خیال ہے کہ اپنا دیگر ہم نصابی مطالعہ ترک کر کے تمام تر فوکس قرآن پاک پر لگا کر دیکھیں۔ذاتی تجربے کی بنا پر کہہ رہا ہوں کہ اس مہینے کا نصاب قرآن پاک ہی کو بنا لیں، دنیا کی عظیم ترین کتاب ... جس کی دوستی وہ کچھ دے گی ،جو ہزاروں صفحات پر مشتمل ادب کے ماسٹر پیس نہیں دے سکتے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں