شدت پسندگروہ کیا سوچتے ہیں ؟

عراق اور شام میں برسرپیکار شدت پسند گروہ داعش (دولتہ الاسلامیہ عراق وشام)کے حوالے سے دو دن پہلے کالم لکھا تو بعض دوستوں نے اس حوالے سے چند سوالات اٹھائے۔ عسکریت پسندی کے حوالے سے ہمارے ہاں کنفیوژن بہت زیادہ ہے ۔ وجہ اس کی سادہ سی ہے کہ ہمارے لکھنے والے اس موضوع پر کھل کر نہیں لکھتے۔ مختلف وجوہ کی بنا پر وہ ایشوز کو کھولنا نہیں چاہتے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ایشوز کے مختلف پہلوئوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا جائے تاکہ قارئین خود اسے سمجھ کر اپنی رائے بنا سکیں۔ ہم لوگ اپنی رائے دینا زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔ ظاہر ہے جب کوئی کسی موضوع پر لکھے گا یا گفتگو کرے گا تو اس کی رائے لازمی آئے گی، مگر صرف اسی تک محدود رکھنا اپنے پڑھنے والوںکے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔ 
مسلم دنیا میں مختلف نوعیت کے شدت پسند گروہ متحرک ہیں، ہر ایک کا اپنا ایجنڈا اور بیانیہ ہے۔ان کے حوالے سے ہمارے ہاں دو موقف بڑے واضح ہیں۔ ایک حلقہ ان شدت پسند گروپوں کا حامی ہے اور غیر مشروط طور پر انہیں سپورٹ کرتا ہے۔دوسرے ان کے سخت مخالف اور انہیں قابل گردن زدنی سمجھتے ہیں۔ان مخالفین کی رائے تو واضح ہے۔ ان میں سے کچھ مذہبی بنیاد پرستی کے مخالف ہیں تو بعض مسلکی وجوہ کی بنا پر عسکریت پسندوں سے بیزار ہیں، کچھ لوگوں کے نزدیک ریاست سیکولر ہونی چاہیے، اس لئے مذہبی گروہوں پر ویسے ہی پابندی عائد کر دی جائے۔ اصل مسئلہ ان گروپوں کے حامیوں کا ہے، جو کنفیوژن کا شکار ہیں۔ ان حامیوں میں سے بیشتر اپنی سادہ لوحی یا لا علمی کی وجہ سے ان گروپوں کے اصل ایجنڈے کو نہیں سمجھ پاتے اور ان کے بیانئے یا نعرے پر ہی یقین لے آتے ہیں۔ مثلاً کوئی گروپ جہاد کا نعرہ لگاتا ہے تو جذبہ جہاد سے سرشار نوجوان بغیر سوچے سمجھے کہ اس نعرے کے نتیجے میں کیا فساد برپا ہوگا اور اس گروہ کوجہاد کا نام پر قتال کرنے کا حق حاصل ہے بھی یا نہیں ... ان کے ساتھ شامل ہوجاتے ہیں۔ حزب التحریر جیسی تنظیموں کے لوگ جب خلافت کا نعرہ لگاتے ہیں، یہ نعرہ پرکشش لگتا ہے کہ اس اسلامی خلافت کا احیا کیا جائے جو صدیوں تک قائم رہی اور اس کے قائم ہوجانے سے مسلم دنیا خیر وبرکات سے بھر جائے گی۔ نوجوان یہ نہیں سوچتے کہ جو گروہ خلافت کا نعرہ لگا رہا ہے،اس کاحقیقی ایجنڈا کیا ہے؟ اخلاص اور جوش سے بھرپور یہ نوجوان نہیں سوچتے کہ خلافت تو بعد کا مسئلہ ہے، پہلے مرحلے پر تو اسلامی ریاست کی تعمیر وتشکیل کی جائے ۔ یہاں پر تعلیم اور سائنس وٹیکنا لوجی کے حوالے سے ایسے ادارے بنائے جائیں ، جن کے نتیجے میںمسلم دنیا میں ایسے اعلیٰ دماغ تیار ہوں جن کی مساعی سے ٹیکنالوجی میں اغیار کی برتری ختم ہوسکے۔ جو تنظیمیں کسی ایک بھی اسلامی ملک میں تعمیر و ترقی کا کام نہیں کر سکتی، وہ خلافت کیا لے آئیں گی؟زلزلے آئیں، سیلاب یا پھر کوئی اور آفت ... حزب التحریر اور اس جیسی ریڈیکل تنظیمیں کہیں پر نظر نہیں آتیں۔ آدمی سوچتا ہے کہ یہ کیسے مومن ہیں کہ خلافت کے چکروں میں پڑے ہیں اور ان کی آنکھوں کے سامنے ہزاروںلاکھوں مسلمان مر رہے ہیں۔ 
ان شدت پسند گروہو ں کے حوالے سے ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ امریکہ یا معروف معنوں میں استعمار کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ ایسے میں انہیں اینٹی امریکن یا اینٹی استعماری جذبات کا ایڈوانٹیج حاصل ہوجاتا ہے ۔جب بعض سنجیدہ حلقوں کی جانب سے ان شدت پسند گروہوں پر امریکہ نواز ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے تو ایک بار پھر کنفیوژن پھیل جاتا ہے۔ عام آدمی کو یہ سمجھ نہیں آتا کہ یہ لوگ تو امریکہ کے خلاف لڑ کر جانیں دے رہے ہیں، انہیں امریکہ کا حامی کس طرح قرار دیا جائے؟یہ سوال اپنی جگہ وزن رکھتا ہے ۔ ہمارے خیال میں یہ الزام لگانا بھی غلط ہے۔ کسی کی نیت پر کوئی حملہ کرنے کے بجائے یہ تجزیہ کرنا چاہیے کہ ان کے اس کام سے مسلم دنیا یا مسلم ممالک کو فائدہ پہنچا یا نقصان۔ اگر نقصان پہنچا تو پھر اس گروہ کا اخلاص درست مان لیا جائے ، تب بھی وہ ہمارے لئے تباہ کن ہی ثابت ہوا ہے۔ ان شدت پسند گروپوں کی کارروائیوں کے نتیجے میں ملک کے ملک تباہ ہوئے، ان کا پورا سٹرکچر برباد ہوا، معاشرے کے فیبرک بکھر گئے، لسانی اور فرقہ ورانہ اختلافات عروج پر پہنچ گئے ، ایک پوری نسل اپنے خوابوں سے ہاتھ دھو بیٹھی ... یہ صورتحال نہایت واضح ہے ، مگر شدت پسند جنگجو اور ان کے حامی خواہ وہ پاکستان میں ہوں یا کسی اور ملک میں ... اس تجزیے سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں یہ سب کچھ ایک بڑی فیصلہ کن جنگ کے لئے ضروری تھا۔ دلچسپ مخمصہ یہ بھی ہے کہ یہ شدت پسند گروپ امریکی حملے اور اس کے نتیجے میں کھل جانے والے محاذ جنگ کو اپنی کامیابی تصور کرتے ہیں، وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان جنگوں میں امریکہ کے کئی ہزار ارب ڈالر برباد ہوئے، سینکڑوں ، ہزاروں امریکی فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے، اس کی معیشت پر تباہ کن اثرات پڑے اور امریکی حملوں کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر جنگجوئوں کی ریکروٹنگ ہوئی ۔ دراصل کسی فیصلے پر پہنچنے کے لئے شدت پسندی کی نفسیات سمجھنا ہوگی۔
شدت پسند جنگجو کسی مسلم ملک یا ریاست کے وجود یا اس کے مفادات پر یقین نہیں رکھتے۔ ان کا اپنا ایک گلوبل ایجنڈا ہے، جس کی تکمیل وہ زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔ انسانی جانوں کے ضیاع یا ملکی ڈھانچے کا تباہ ہوجانا ایک ثانوی بات ہے۔ مثال کے طور پر کسی ایسے گروپ کے نزدیک پاکستان کا وجود، اس کی قومی سلامتی، نیوکلیئر اثاثوں کا تحفظ کی ذرا برابر اہمیت نہیں۔ وہ اپنے ایجنڈے کو سامنے رکھتے اور اسی کے حساب سے چالیں چلتے اور حکمت عملیاں بناتے ہیں۔ ہمارے ہاں بعض سادہ لوح لوگوں کو ان گروپوں کی حکمت عملی سمجھ نہیں آتی۔ وہ شدید اضطراب سے یہ سوچتے ہیں کہ آخر یہ گروپ جی ایچ کیو یا ائیر بیسز پر حملے کیوں کریں گے ؟ اسی وجہ سے انہیں لگتا ہے کہ یہ مسلم جنگجو نہیں بلکہ عالمی قوتوں کی آلہ کار بلیک واٹر ٹائپ تنظیمیں ہیں جو ایسے حملے کر کے غلط فہمیاں پیدا کر رہی ہیں۔ ایسے لوگوں کومسلم عسکریت پسندی اور گلوبل ایجنڈا رکھنے والے مسلح گروہوں کی نفسیات کا اندازہ ہوجائے تو بات فوراًان کی سمجھ میں آ جائے گی۔ یہ گروپ دانستہ طور پر ریاست کے مرکزی ڈھانچے کو نشانہ بناتے ہیں ،تاکہ افراتفری اور انتشار پھیلے ، ایسی کارروائیاں کی جائیں جن کے نتیجے میں عالمی قوتوں کو خدشہ محسوس ہو کہ ان ممالک کے نیوکلیئر اثاثے یا جوہری مواد کہیں شدت پسند گروپوں کے ہتھے نہ چڑھ جائیں، یہ عالمی قوتیں مداخلت کریں اور پھر اس کے نتیجے میں وسیع تر عوامی ردعمل ہو یا پھر خانہ جنگی شروع ہوجائے۔ ہر دو صورت میں شدت پسندجنگجوئوں کو نہ صرف نئے نوجوان جنگجو مل جاتے ہیں بلکہ اگر انہیں موقعہ ملے تو وہ کسی علاقے میں اپنی حکومت قائم کر کے اپنے من پسند ایجنڈے کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ یہ جنگجوتنظیمیں اسی وجہ سے چیریٹی کے کام بھی نہیں کرتیں کہ یہ چاہتی ہیں کہ ریاست ناکام ہو اورانتشار پھیلے۔ یہی انتشار ان کا مقصود ہے۔ ان گروہوں کی تمام پالیسیوں کے پیچھے یہی نقطہ موجود ہے۔ جب ہم اسے سمجھ لیں تو پھر پوری بات جاننا آسان ہوجائے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں