ایک سادہ سوال

ہماری گلی کی نکڑ پر ایک دکان ہے،جہاں سے دوسرے اہل محلہ کی طرح ہم بھی ڈبل روٹی، انڈے اور دیگر چھوٹا موٹا سودا سلف خریدا کرتے ہیں۔ دکان کے مالک ایک سادہ سے ادھیڑ عمر شخص ہیں، انہیں سب حافظ صاحب کہتے ہیں۔ تین چار روز قبل میں گھر واپس جاتے ہوئے اسی دکان پر رکا، دہی کا پیک اور ایک دو چیزیں لینی تھیں۔حافظ صاحب عموماً کام میں مشغول ہوتے ہیں، زیادہ بات نہیں کرتے، رش کے باعث یہ ممکن بھی نہیں ہوتا۔ اس روزبقایا پیسے واپس کرتے ہوئے انہوں نے مجھے باقاعدہ روک لیا۔ قدرے ہچکچاتے ہوئے بولے ،'' آپ میڈیا میں ہیں، ایک بات بتائیے کہ اخبارات اور چینلز کے بارے میں عام تصور یہ ہے کہ وہ عوام کی آواز ہیں، ان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے تو آج کل عوام کا سب سے بڑا مسئلہ لوڈ شیڈنگ ہے۔ ہر آدمی اسی کی شکایت کرتا بلکہ چیختا نظر آتا ہے، مگر یہ سب آہ و بکا اور شورو غل میڈیا میں نظر نہیں آتا۔ اخبارات میں بیک پیج پر زیادہ سے زیادہ ڈبل کالم خبر لگ جاتی ہے اور نو بجے کے خبرنامے میں ایک دو سطروں کی خبر نشر کر دی جاتی ہے۔ لوڈ شیڈنگ کو فرنٹ پیج کی لیڈ کیوں نہیں بنایا جاتا ، ٹاک شوز کا یہ موضوع کیوں نہیں ؟ اس پر کالم کیوں نہیں لکھے جاتے۔ میں اخبار باقاعدگی سے پڑھتا ہوں، دکان میں اخبار آتا ہے، گھر میں بھائی نے دوسرا اخبار لگوا رکھا ہے، کبھی کبھار ایک آدھ اور اخبار بھی دیکھنے کو مل جاتا ہے،ٹی وی چینلز تو ریموٹ کی ایک کلک کی رسائی میں ہیں، روزانہ دیکھتے ہیں،حیرت ہوتی ہے کہ اہم ترین عوامی ایشو کو اس قدر اہمیت کیوں نہیں مل رہی؟‘‘
سچی بات تو یہ ہے کہ میرے پاس کوئی ٹھوس جواب نہیں تھا۔میں نے دل میں سوچا کہ ہمارے سادہ سے دکان دار بھائی کو قطعی اندازہ نہیں کہ میڈیا کے مسائل کیا ہیں، وہاں ایشوز کس طرح ابھرتے اور دبتے ہیں، اخبارو ں میں جتنا چھپتا ہے ، اس سے زیادہ نہیں چھپ پاتااور اس سے زیادہ بین السطور (Between The Lines) شائع ہوتا ہے، سمجھ دار قاری یہ بین السطور پڑھ کر با خبررہتے ہیں۔ خیر حافظ صاحب کو میں نے کچھ نہ کچھ تاویلات پیش کیں، چند ایک حوالے بھی دئیے، نذیرناجی صاحب نے لوڈ شیڈنگ پر ایک تفصیلی کالم لکھا تھا، اس کا حوالہ بھی جڑ دیا۔ ٹی وی کی طرف سے البتہ فوراً ہاتھ کھڑے کر دئیے کہ میرا اس شعبے سے کوئی لینا دینا نہیں، ان کے اپنے معیار اور مسائل ہوتے ہیں، وہاں ریٹنگ کا عفریت منہ پھاڑے کھڑا ہے، ہر پروگرام کا بنیادی مقصداچھی ریٹنگ ہی لینا ہے، اینکرز ویسے بھی نہایت عالی دماغ اور بیدار مغز لوگ ہیں، علم ان کے جیب کی گھڑی اور دانش ہاتھ کی چھڑی ہے، انہیں کوئی مشورہ دے سکتا ہے نہ ہی وہ ایسی'' قبیح‘‘ حرکت گوارا کرتے ہیں۔ ویسے بھی جب کوئی شخص جب تک براہ راست کسی مسئلے سے متاثر نہ ہو ر، اس وقت تک اسے حقیقی آگہی نہیں ہوسکتی۔ جس دن اینکر ز کے جنریٹرز جواب دے گئے اور انہیں کئی کئی گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑا ، اس روز ان کے پروگراموں کا رنگ ہی کچھ اور ہوگا۔ مجھے چودہ پندرہ سال پرانا ایک واقعہ یاد آیا۔ جس اخبار میں کام کرتا تھا، وہاں ایک رپورٹر ٹرانسپورٹ کی خبریں کرتا تھا۔ ان دنوں ویگنو ں میں سفر کرنا پڑتا تھا، کرایے بڑھتے تو ہمیں آگ لگ جاتی، روزانہ کنڈکٹروں سے جھگڑتے مسافروں کو بھی دیکھا کرتا۔ ایک روز میں نے رپورٹر کو دوستانہ انداز میں کہا کہ ٹرانسپورٹروں کے استحصال پر بھی خبریں دیا کرو،یہ کم بخت آخری سٹاپ کی سواری نہیں بٹھاتے، اوور چارجنگ کرتے ہیں،روٹ مکمل نہیں کرتے، رویہ ٹھیک نہیں ،وغیرہ وغیرہ۔ رپورٹر نے مجھے گھور کر دیکھا اور بولا، ''آپ لوگ چاہتے ہیںکہ ٹرانسپورٹر کرایہ لیا ہی نہ کریں، آخر ان کا کاروبار ہے، انہوں نے بھی کچھ کمانا ہی ہے۔‘‘ یہ ٹکا سا جواب سن کر میں چپ ہوگیا۔ کچھ عرصے کے بعد عید آئی، رپورٹر موصوف ساہی وال کے قریب کسی شہر میں رہتے تھے، عید گھر گزارنے گئے ، واپسی پر ٹرانسپورٹروں کے ستم کانشانہ بننا پڑا تو آتے ہی ایک لمبی چوڑی خبر ان کے خلاف فائل کی، اگلے چند دنوں میں ویگن اور بس مسافروں کے حق میں اور خبریں بھی دیں۔پڑھ کر ہنسی آئی کہ جب آگ سے اپنے پیر جلے، تب اس کی تپش کا احساس ہوا۔ 
لوڈ شیڈنگ کا بھوت اس واقعے کے بعد بھی پیچھا کرتا رہا،پچھلے چند دنوں میں جو بھی ملتا ہے، اسی کا رونا روتا ہے، ہر ایک کی تان اس پر ٹوٹتی ہے کہ میڈیا اسے اہمیت کیوں نہیں دے رہا، حالانکہ میڈیا پر یہ خبریں آ رہی ہیں، تناسب شائد لوگوں کے غم وغصے کے مطابق نہ ہو، مگر دلوں میںسلگتی آگ ایسی روٹین کی 
کوریج سے سرد نہیں ہو رہی۔ دوسروں کی طرح ہم خود بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں، ہمارا معصوم پانچ سالہ ضعیف یوپی ایس ایک گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ تو برداشت کر لیتا ہے، اس کے بعد غریب کی آہ بکا شروع ہوجاتی ہے، کچھ دیر بعد پنکھے بھنگ پینے والے کسی ملنگ کی طرح ڈگمگاتے ہوئے چلنے لگتے ہیں، اس کے بعد طویل خاموشی چھا جاتی ہے۔ یہ تو شکر ہے کہ اپنے آبائی علاقے سے خاص طور پر کھجور کی چٹائیاں اور ہاتھ کے پنکھے بنوائے ہیں، ان چٹائیوں پر پانی چھڑک کر سونے میں عجب لطف ہے۔ آدمی کو پتھر کا زمانہ یاد آجاتا ہے، جب بجلی جیسی خرافات کا وجود ہی نہیں تھا۔مسلم لیگ ن کا تاریخ پر یہ احسان ضرور ہے کہ لوگوں کو اس قدیم زمانے کا عملی نظارہ کرا دیا، جب بجلی تھی نہ گیس، خوراک کے لئے لڑائیاں ہوتی تھیں اور سونے کے سکے لے کر لوگ سبزی خریدنے جایا کرتے۔ ویسے ہاتھ کا پنکھا مسلسل جھلنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ ہماری کلائی اور کہنی تک کے بازو کے مسلز باقاعدہ ڈویلپ ہوچکے ہیں، یوں لگتا ہے جیسے شعیب اختر کی طرح جرک یعنی وٹا بال کرانے والے کسی فاسٹ بائولر کا بازو مستعار لیا ہے۔
اگلے روز ایک دوست ملنے آئے، وہ مسلم لیگ ن کے زبردست حامی تھے، شیر کی کھل کر حمایت کرتے اور بلے یعنی عمران خان پر خوب تیر برسایا کرتے ۔اب کی بار مکمل طور پر بدلا ہوا رنگ پایا۔ عمران خان سے ان کی نفرت ختم ہو کر کسی حد تک طرف داری میں بدل چکی اور شیر کے وہ اس قدر مخالف ہوچکے کہ بقول ان کے اپنے ٹی وی چینلز سے نیشنل جیوگرافک کا چینل تک ہٹا دیا کہ وہاں اس ناہنجار جانور کی شکل نظر آجاتی ہے ۔ مزا لینے کی خاطر میں نے وہ چند دلائل دہرائے ، جنہیں مسلم لیگ ن کے وزرا اپنے بیانات میں استعمال کر کے گرمی اور لوڈ شیڈنگ سے بد حال عوام کے تن بدن میں آگ لگاتے ہیں۔ میرے ہر فقرے پر موصوف اچھل اچھل کر تلملاتے اورناقابل اشاعت فقرے بیان فرماتے رہے۔ کچھ غصہ کم ہوا توکہنے لگے ، سمجھ نہیں آتی کہ حکومت نے موسم گرما کے لئے کچھ نہیں سوچا۔ خاص کر جون، جولائی اور اگست کے تین مہینوں کی مینجمنٹ کر لی جاتی، گردشی قرضہ کم کر کے تیل کا وافر انتظام کر لیا جاتا توجتنی ضرورت ہے ، اس کے مطابق بجلی پیداکی جا سکتی تھی، اگر خسارہ ہوتا بھی تو ایک ڈیڑھ ہزار کا، جس کے لئے دو تین گھنٹوں سے لوڈ شیڈنگ کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔وہ شائد یہ سوچے بیٹھے تھے کہ تین مہینے مسلسل بارش برستی رہے گی۔مسئلہ بجلی کی پیداوار کا نہیں بلکہ اس کی مینجمنٹ کا ہے، جس میں حکومت مکمل طور پر ناکام ہوئی۔ سحری کے بعد چار چار پانچ پانچ لوڈ شیڈنگ تو پیپلز پارٹی کے بد ترین دور میں بھی نہیں ہوئی تھی۔ ‘‘وہ صاحب تو اپنا کتھارسس کر کے چلتے بنے۔میں سوچتا رہ گیا کہ واقعی بات تو سچ ہے ۔ پچھلے سال تو ہر ایک نے حکومت کو رعایت دی کہ ابھی توآئے ہیں، کیا کرسکتے تھے، اس بار البتہ توقع تھی کہ کچھ نہ کچھ انتظام ہو جائے گا، مگر یہ سب کچھ اس بری طرح سے ہوگا، کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ اتنے میں ٹی وی پر ٹکر چلا کہ عید پر تین دن لائٹ نہیں جائے گی۔ بے اختیار ذہن میں خیال آیا کہ اب عید کے لئے شائد بجلی کو ہ قاف سے آ جائے گی؟بھائی لوگو جب تین دن ایسا کر سکتے ہو تو باقی دن کیوں نہیں؟ ہے کوئی مرد دانا ‘جو اس سادہ ترین سوال کا جواب دے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں