تنقید ضرور ہو‘ مگر انصاف تو کیا جائے

عمران خان کی زندگی ڈرامائی اتارچڑھائو کا شکار رہی ہے۔ کرکٹ ہو یا سیاست‘ وہ بلندیوں سے پستی اور پھر بلندیوں تک کا سفر کرتے رہے۔ سیاست میں جب ایسا لگتا تھا کہ ان کا کیریئر ختم ہوچکا اور وہ اپنی اگلی زندگی اصغر خان جونیئر کے طور پر گزاریں گے، اچانک ہی لاہور کے تاریخی جلسے نے سب کچھ بدل دیا۔ کہتے ہیں محنت کا صلہ کبھی نقد کی صورت میں ملتا ہے اور کبھی کچھ تاخیر سے ، مگر اکٹھا ہی مل جاتا ہے۔کسی کو اچھا لگے یا برا، تحریک انصاف کا نیا روپ عمران خان کی پندرہ سالہ محنت کا نتیجہ تھا، چپکے سے خان نے وہ سیاسی عصبیت حاصل کر لی، جو اس ملک میں کم ہی سیاستدانوں کونصیب ہے۔ پاکستانی سیاست میں ایک سیاستدان جب ناکام ہوجائے تو اس کے لئے کامیابی کے در مشکل سے کھلتے ہیں،عمران خان اس اعتبار سے خوش نصیب رہے کہ ان کی سیاسی محنت رنگ لائی۔ اس اعتبار سے البتہ وہ بدقسمت رہے کہ ان کے ساتھ تجزیہ کاروں اور لکھنے والوں نے زیادہ انصاف نہیں کیا۔ انہیں ضرورت سے زیادہ تنقید کا نشانہ بننا پڑا۔میڈیامیں ایک طاقتور لابی ان پر مسلسل حملہ آور رہی، یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ایسے لکھنے والوں اور اینکرز کی کمی نہیں، جو کسی کرپٹ سے کرپٹ سیاستدان کو رعایت دینے پر آمادہ رہتے ہیں، مگر جب باری عمران خان کی آئے تو وہ اچانک ہی انتہائی بااصول مثالیت پسند تجزیہ کار کا روپ دھار لیتے ہیں۔ ان کے خلاف ایسی ایسی پروپیگنڈہ مہم چلتی رہیں کہ کوئی اور سیاستدان ہوتا تو تاب نہ لاپاتا۔عمران اپنی سخت جانی کے باعث یہ حملے جھیل گیا۔ عمران خان کے خلاف ان حملوں کے پیچھے سب سے متحرک اور فعال کردار مسلم لیگ ن کا رہا،جسے عمران اپنے لئے حقیقی خطرہ محسوس ہوا اور اس نے اپنے دیرینہ تجربے اورمیڈیا میں موجود تعلقات استعمال کر کے مختلف طریقوں سے تحریک انصاف کے قائد کو متنازع بنانے کی کوشش کی۔اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عمران خان کے خلاف لکھنے یا پروگرام کرنے والے تمام لوگ مسلم لیگ ن کے ایجنڈے پرعمل پیرا تھے۔چند ایک یقیناً ایسے ہوں گے، مگر دوسرے مختلف وجوہ کی بنا پر ناخوش ہوئے۔ کچھ معروف اینکراور لکھنے والے عمران کے کھلے ڈلے سٹائل سے برہم ہوئے، ان کی ہمالیائی انا اس سے مجروح ہوئی۔ بعض لبرل دانشوروں اور تجزیہ کاروں کو عمران کا مذہب پسندوں کی حمایت اچھی نہ لگی تو کئی ایسے بھی تھے جن کے لئے طالبان سے مذاکرات کی بات کرنے والا لیڈر قابل قبول نہیں تھا۔ وجوہ کچھ بھی ہوں، مگر یہ حقیقت ہے کہ میڈیا کے ایک خاص حلقے نے عمران خان کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا، ایسا کرتے ہوئے ان کا لب ولہجہ بھی شائستہ نہیں رہا۔ ایسا کرنے والوں کو فطری طور پر جب تحریک انصاف کے نوجوان حامیوں کے جوابی حملے کا سامنا کرنا پڑا تو وہ اپنی غلطی کا احساس کرنے کے بجائے مشتعل ہوگئے۔ انہوںنے اس عوامی ردعمل کوتحریک انصاف کی سوچی سمجھی پالیسی قرار دیا۔ سال ڈیڑھ پہلے ایک بہت سینئر کالم نگار نے اپنے کالم میں لکھا کہ پی ٹی آئی نے اپنے مخالفوں کو نشانہ بنانے کے لئے ایک سیل تشکیل دیا ہے۔ میں نے کالم لکھا تو چند سطریں اس تاثر کی نفی میں لکھ دیں۔ اگلی صبح مجھے ان کا فون آ گیا، کہنے لگے کہ آپ نہیں جانتے ، پی ٹی آئی میں جماعت اسلامی کے لوگ آئے ہیں، وہ ایسے کاموں کے ماہر ہیں، انہوں نے وہ سیل بنا رکھا ہے۔ میں نے ہنس کر انہیں کہا، حضور جس جماعت کی کوئی میڈیا ٹیم ہی نہ ہو، جنہیں یہ تک معلوم نہ ہو کہ اپنے اچھے کاموں کا کریڈٹ کیسے لینا ہے، جو اپنے حامی لکھنے والوں کو شکریہ کا فون تک نہ کر سکیں، انہوں نے اپنے مخالفین کے لئے سیل کہاں سے بنانا ہے ؟ 
الیکشن سے پہلے تحریک انصاف کے خلاف بھرپور پروپیگنڈہ مہم چلائی گئی۔ مجھے حیرت ہوتی تھی کہ جو لوگ تحریک انصاف میں روایتی سیاست کرنے والے دو چار لوگوں کی موجودگی پر جزبز تھے ، انہیں مسلم لیگ میں سو فیصد تعداد میں ایسے روایتی سیاستدانوں کی موجودگی پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ جو تحریک انصاف کے لئے غلط ہے، وہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے لئے بھی غلط ہی ہے۔ کوئی تجزیہ کار اتنی ڈھٹائی سے دو جماعتوں کے لئے دو مختلف اصول کیسے برت سکتا ہے؟ شاہ محمود قریشی پی ٹی آئی کے معروف رہنما ہیں، ذاتی طور پر مجھے ان کی پالیسیوں ، سیاست بلکہ بولنے کا انداز تک پسند نہیں، مگر سچ تو یہ ہے کہ ان کے ساتھ ناانصافی سے کام لیا گیا۔ ان پر یہ تنقید کی گئی کہ ڈیڑھ دوسو سال پہلے ان کے دادا کے دادا نے انگریزوں کا ساتھ دیا تھا۔ایسا استدلال پہلی بار دیکھا۔ اس طرح تو دنیا میں کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکتا، کسی نہ کسی کے دادا، نانا، یا پردادا، پرنانا یا اس سے ایک پشت پہلے میں کچھ نہ کچھ ہوا ہی ہوگا۔عمران خان کو نشانہ بنانے کے لئے ایک دلچسپ تھیوری گھڑی اور پھیلائی گئی کہ شاہ محمود قریشی اور دیگر ہیوی ویٹ سیاستدانوں کے آنے سے عمران خان کا میاں اظہر والا حشر ہوجائے گا۔ ایسا کہنے اور لکھنے والے سو فی صد جانتے تھے کہ تحریک انصاف اپنی اصل میں آج بھی عمران خان کا فین کلب ہی ہے اور اس پارٹی میں سوائے خان کے کوئی اور لیڈر نہیں اور نہ ہی بن سکتا ہے۔ 
غیر منصفانہ تنقید کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ تحریک انصاف اور عمران خان کے حوالے سے انصاف اور توازن کے ساتھ رائے کم ہی ملتی ہے۔ اس کے حامی انہیں ہر قسم کی تنقید سے بالاتر اور مخالف ہر قسم کے گناہوں میں مبتلا سمجھتے ہیں۔ یہ درست روش نہیں۔ عمران خان کی سیاست اور ان کی بعض آرا سے ہمیں بھی شدید اختلاف ہے۔ سیاست میں ڈیڑھ عشرے سے زیادہ گزارنے کے باوجود وہ ابھی تک سیاسی حرکیات سے بخوبی واقف نہیں، کئی بار ایسے بیانات دے دیتے ہیں ،جن کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ انہیں سوچ سمجھ کر بلکہ لکھا ہوا بیان پڑھنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ پچھلے سال الیکشن سے پہلے عمران اگربعض پہاڑ جیسی بڑی غلطیاں نہ کرتے تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔ کچھ غلطیوں کی اصلاح وہ ابھی تک نہیں کرسکے، انہیں مشاورت کا زیادہ ٹھوس نظام وضع کرنا چاہیے۔ کے پی کے میں ان کی کارکردگی غیر معمولی نہیں رہی۔ ان سے وابستہ توقعات بہت زیادہ ہیں، مگر نتائج اس طرح سامنے نہیں آئے۔ میڈیا کے میدان میں تحریک انصاف ابھی تک کمزور ہے، اپنے کریڈٹس وہ ابھی تک نہیں لے پائی۔ تحریک انصاف میں اور بھی کئی خامیاں ڈھونڈی جا سکتی ہیں، مگر اس نے کچھ اچھے کام بھی کئے ہیں۔ خیبر پختون خوا کی تاریخ میں پہلی بار پولیس کے محکمے میں سو فیصد میرٹ پر تقرریاں ہو رہی ہیں۔پنجاب سے ایک انتہائی ایماندارپولیس افسر کو آئی جی 
کے پی کے لگایا گیا اور وہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے طاقتور اور بااختیار آئی جی ہے۔ عمران خان سے لے کر چیف منسٹر تک کوئی بھی تقرریوں میں مداخلت نہیں کرتا۔ پنجاب پولیس،جہاں ایس ایچ اوز بھی سیاسی سفارش پر لگتے ہیں ، اسے دیکھتے ہوئے یہ کسی معجزے سے کم نہیں لگتا۔ پہلی بار صوبے کی تاریخ میں کرپشن پر وزرا نکالے گئے، ایک اتحادی جماعت سے کرپشن پر جان چھڑا لی گئی ،حالانکہ اس سے اسمبلی میں عددی اکثریت کمزور پڑ گئی۔ یہ وہ کام ہیں، جو اگر مسلم لیگ ن نے کئے ہوتے تو دن رات ان کا ڈھول پیٹا جا رہا ہوتا۔
چودہ اگست کے آزادی مارچ کے حوالے سے ایک سے زیادہ آرا ہوسکتی ہیں، مگر اس پر تحریک انصاف کو'' احتجاج پسند‘‘ کہنا تو زیادتی ہے۔ اگر ملک میں واقعی جمہوریت نام کی کوئی چیز ہے تو پھر یہ سیاسی جماعتوں کا حق ہے کہ وہ پر امن انداز میں احتجاج کریں۔ تحریک انصاف پر الزامات لگانے والے یہ بھی یاد رکھیں کہ پچھلے سال تمام تر دبائو کے باوجود عمران خان نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنے کو جوائن نہیں کیا تھا۔ اگر وہ ایسا کر لیتے توشائد آج ملک کاسیاسی نقشہ مختلف ہوتا۔ یہ حقیقت ہے کہ حکمران جماعت مسلم لیگ نے تحریک انصاف کے چار حلقوں کے نتائج چیک کرانے کے مطالبے کا مذاق ہی اڑایا۔ صرف چار حلقوں کے نتائج چیک کرا کر حکومت اپنے پورے الیکشن کا اعتبار قائم کر سکتی تھی، مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ ممکن ہے انہیں خطرہ ہو کہ ان چار حلقوں کے نتائج مسلم لیگ ن کے پورے عوامی مینڈیٹ کے دعوے کو اڑا کر نہ رکھ دیں۔ چودھری نثارآج جس فارمولے کو آگے بڑھا رہے ہیں، وہ کچھ پہلے دیا جاتا تو شائد کوئی سمجھوتہ ہوجاتا۔حکومت سنجیدہ کوشش کرتی تو اس احتجاج کی نوبت بھی نہیں آنی تھی۔ اب بھی مجھے خطرہ ہے کہ تحریک انصاف کے مارچ سے زیادہ سسٹم کے لئے مسلم لیگ ن کی سیاسی خوفزدگی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں