بحران کیسے ختم ہوسکتا ہے؟

ملک میں جاری سیاسی بحران شدت اختیار کرچکا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ سیاسی ٹمپریچر بڑھ رہا ہے۔ ابھی معاملات کنٹرول سے باہر نہیں ہوئے، یہ بحران ختم ہوسکتا ہے ۔ اس پر بات کرتے ہیں، مگر ہمارے خیال میںاس ایشو پر کوئی واضح پوزیشن لینے سے پہلے موجودہ بحران اور اس کے پیچھے کارفرما اسباب اور محرکات کو سمجھنا بڑا ضروری ہے‘تب ہی کوئی متوازن اور منصفانہ رائے دی جا سکتی ہے۔سب سے پہلے تو یہ جاننا ہوگا کہ تحریک انصاف میں آخر اس قدر ابال کیوں آیا ہے، عمران خان اتنے جارحانہ انداز سے اٹھ کھڑے ہوئے اور پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچا ہی چاہتے ہیں... آخر کیوں؟ مسلم لیگ ن کے پرجوش حامی یا میڈیا میں ان کی پالیسیوں کو آگے بڑھانے والے لکھاری یا تجزیہ کار اس کی ایک ہی وجہ بتاتے ہیں کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں، جنرل پرویز مشرف کو بچانے کے لئے مقتدر قوتوں نے انہیں ہلہ شیری دی اور وہ انہی نادیدہ ہاتھوں میں استعمال ہو رہے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ الزام لگانا زیادتی ہے۔ 
تحریک انصاف کی ناراضی کی دو تین واضح وجوہ موجود ہیں ۔ تحریک انصاف بڑی جماعتوں میں شامل وہ واحد جماعت ہے جو اینٹی سٹیٹس کو ہے، جس کا نعرہ تبدیلی لانا تھا۔دوسری تمام اہم سیاسی جماعتیں سٹیٹس کو کی حامی اوروہ معاملات اور نظام کو جوں کا توں رکھنا چاہتی ہیں۔جماعت اسلامی مختلف ہے ،مگر وہ سیاسی اعتبار سے اب اتنی اہم اور متعلق رہی نہیں۔ پچھلے سال مئی کے انتخابات میں تحریک انصاف سیاسی اعتبار سے تنہا ہی تھی۔ اپنی جنگ اس نے اکیلے لڑنی تھی، اسٹیبلشمنٹ کا سایہ اس کے ساتھ نہیں تھا، تجربہ کار امیدواروں کا ساتھ نہیں تھا۔الیکشن سے پہلے تمام تر دبائو کے باوجود عمران قادری صاحب کے دھرنے کا حصہ نہیں بنے تھے، انہوں نے انتخابی جنگ لڑنے کو ترجیح دی۔ اس وقت تحریک انصاف کا خیال تھا کہ آزاد الیکشن کمیشن اور طاقتورعدلیہ اس کا ساتھ دے گی۔
اب یہ مان لینا چاہیے کہ الیکشن سے پہلے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے تحریک انصاف اور اس کے ساتھ پاکستانی انٹیلی جنشیا اور اخبار نویسوں کو بھی مکمل طور پر ناک آئوٹ کر دیا۔ پیپلزپارٹی نے سندھ میں اور مسلم لیگ ن نے پنجاب میں اپنی مرضی کی انتظامیہ چنی، کے پی کے اور بلوچستان کو کسی نے اس قدر اہمیت دی ہی نہیں۔چیف الیکشن کمشنر فخرو بھائی کو چنا گیا تو پورے پاکستان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔اس وقت کسی کو علم ہی نہیں تھا کہ نئے سیٹ اپ میں چیف الیکشن کمشنر کی کوئی اہمیت ہے ہی نہیں۔ وہ پانچ ممبران میں سے ایک ممبر ہی ہیں، یعنی اگر تین ممبر اس کے خلاف ہوجائیں تو چیف الیکشن کمشنر بے بس ہوجاتا ہے۔ دنیا میں کہیں بھی ایسا کمزور اور بے دانت چیف الیکشن کمشنر نہیں۔فخرو بھائی سے تحریک انصاف کو بہت امیدیں تھیں، مگر ان کی تمام تر دیانت داری ایک طرف ، وہ الیکشن کی ڈائنامکس ہی کو نہیں سمجھتے تھے، عملی طور پر وہ بے اثر اورعضو معطل رہے۔ تحریک انصاف کو پریزائیڈنگ اورریٹرننگ افسروں سے غیر جانبداری کی جو توقعات تھیں، وہ بھی پوری نہ ہوئیں۔
الیکشن کے بعد تحریک انصاف کو شدت سے اس کا احساس ہوا کہ ان کے ساتھ بری طرح ہاتھ ہوگیا ہے۔اس وقت فوری طور پر کوئی بڑی تحریک چلانا ممکن نہیں تھا ۔جب الیکشن اور حکومتیں سنبھالے ایک سال کا عرصہ ہوگیا اور قومی اسمبلی میں کئے گئے وعدے کے مطابق چالیس حلقے تو کجا، حکومت نے کسی ایک حلقے کے نتائج چیک کرانے میں بھی دلچسپی اور سنجیدگی ظاہر نہیں کی تو تحریک انصاف نے دبائو بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ اس دوران مسلم لیگ ن اپنی بیڈ گورننس کے باعث اپنی مقبولیت کھو بیٹھی تھی۔ لوڈ شیڈنگ ، مہنگائی اور لا اینڈ آرڈر سمیت بغیر کسی سمت کی حکومتی پالیسیوں سے پیدا ہونے والی مایوسی کو تحریک انصاف نے کیش کرانے کا فیصلہ کیا۔اپوزیشن جماعت ہونے کے ناتے تحریک انصاف نے اس سے فائدہ تو اٹھانا تھا۔ یہ بحران اتنا طول کبھی نہ کھنچتا، مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنی غیر سنجیدگی اور مس ہینڈلنگ سے اسے بگاڑا۔ عمران خان نے ایک مہینے کی مہلت دی تھی، اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے تھا، اس کے بجائے حکومتی وزرا عمران اور تحریک انصاف کی تضحیک کرتے رہے، ٹھٹھا اڑاتے رہے، آج انہی وزرا کی پیشانیاں عرق آلود ہیں۔ 
بحران میں شدت آنے کی سب سے بڑی وجہ حکومت اور تحریک انصاف کے مابین پایا جانے والے عدم اعتماد ہے۔ مسلم لیگ ن نے بدقسمتی سے پچھلے ایک سال کے دوران زیادہ دانشمندی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ انہیں چار حلقے چیک کرا دینے چاہئیں تھیں، اتنی سی زحمت سے ان کا پورا الیکشن محفوظ ہوجاتا اور ان کے مینڈیٹ کی کریڈیبلٹی قائم ہوجاتی۔ انہوں نے تحریک انصاف کو اکاموڈیٹ کرنے کی بھی کوئی کوشش نہیں کی۔ محسوس یہی ہوتا رہا کہ وہ مختلف چالوں کے ذریعے تحریک انصاف کی ناتجربہ کاری کو ایکسپوز کر کے اسے تکنیکی ناک آئوٹ کرانا چاہتی ہے۔ الیکشن ریفارمز کے لئے تجویز کردہ پارلیمنٹ کی پینتیس رکنی کمیٹی بھی ایسا ہی ایک چال ہے۔ اس کمیٹی میں دوسرے سب پرو سٹیٹس کو جماعتوں کے لوگ بیٹھے ہیں، تحریک انصاف تو پھرناکام ہوجائے گی ۔ قمرزمان کائرہ نے اگلے روز ایک نہایت معصومانہ تجویز پیش کی کہ عمران خان کو اس کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا جائے۔ اس سے کیا ہوگا؟ کمیٹی کے ارکان کی اکثریت چاہے تو چیئرمین کے خلاف ووٹ دے کر بے اثر کر دے گی۔ کائرہ صاحب عمران کو ''فخرو بھائی‘‘ بنانا چاہتے ہیں، مگر کیا تحریک انصاف دوسری بار بے وقوف بننا چاہے گی؟ 
ایک اور بڑا فیکٹر جس پر زیادہ بات نہیں کی جاتی ، وہ پچھلے دور حکومت سے چلا آتا پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان خاموش مفاہمت اور اس پرمبینہ انٹر نیشنل گارنٹیز ہیں۔ اپنی بدگمانی پر مسلم لیگی متوالوں اور پیپلز پارٹی کے جیالوں سے معذرت مگران بھولے بھالے کارکنوں کے علاوہ ملک بھر میں یہ تاثر عام ہے کہ 2008ء سے 2013ء اور اس کے بعد بھی ایک خاص سکرپٹ کے تحت معاملات چلتے رہے ، جس کے انٹرنیشنل گارنٹر موجود ہیں۔ تحریک انصاف اس سیٹ اپ اور سکرپٹ سے آئوٹ ہے۔پرانا سکرپٹ اب مزید نہیں چل سکتا۔ مسلم لیگ ن کو یہ اہم نقطہ سمجھنا ہوگا۔ اب مقامی گارنٹرزکو شامل کرنا پڑے گا۔ مقامی سٹیک ہولڈرز کے بغیر تحریک انصاف حکومت پر اعتماد نہیں کر سکتی۔ انٹرنیشنل گارنٹرز سے کام نہیں چل سکتا۔وزیراعظم کو اپنے رویے پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔ان کے کہنے پر اب کوئی اعتماد نہیں کرے گا، تحریک انصاف حکومتی یقین دہانیاں اس وقت تک نہیں مان سکتی ، جب تک مقامی سٹیک ہولڈرا س کی گارنٹی نہ دیں۔(امید کرتا ہوں کہ کوئی معصوم قاری ''مقامی سٹیک ہولڈر‘‘ کی اصطلاح کی وضاحت نہیں چاہے گا)۔ 
سوال پھر وہی ہے کہ یہ بحران کیسے ختم ہوسکتا ہے ؟ ہمارے خیال میں تحریک انصاف کے جائز مطالبے مان لینے میں کوئی حر ج نہیں۔الیکشن کمیشن کی ری سٹرکچرنگ کرنی ہوگی۔ ایک طاقتو ر آزاد چیف الیکشن کمشنر ضروری ہے۔ انتخابی عمل میں جہاں جہاں خامیاں ہیں، باہمی مشاورت سے وہ دور کی جائیں۔مقنا طیسی سیاہی اور انگوٹھے کے نشانات کے جھنجھٹ سے نکل کراب بھارت کی طرح بائیو میٹرک سسٹم پر جانا ہوگا۔ الیکٹرانک مشینوں پر ووٹ ڈالے جائیں۔ بھارت کے دیہات میں پاکستان سے زیادہ ناخواندہ لوگ ہیں، جب وہ اس جدید سسٹم کو استعمال کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟ عمران خان کو بھی چاہیے کہ وہ پوائنٹ آف نور یٹرن تک نہ جائیں۔ سیاسی سسٹم کو کسی صورت نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔ پاکستان اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس سسٹم میں بہتری لانا البتہ لازم ہو چکا۔ عمران کو نئے جنرل الیکشن کے بجائے شفاف بلدیاتی انتخابات کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ فیئر اینڈ فری الیکشن یقینی ہوجائیں، پھر اگر تحریک انصاف کے پاس اپنے دعوے کے مطابق عوامی قوت ہے تو وہ پنجاب میں گراس روٹ لیول پر چھا سکتی ہے۔ ان کے پاس اچھا موقع ہوگا کہ لوگوں کے ساتھ رابطہ رکھ کر ، ان کے کام کرا کر اگلے جنرل الیکشن میں بہتر پوزیشن کے ساتھ جائیں۔ عمران خان کو سمجھنا ہوگا کہ پاکستان ایک ری پبلک(جمہوریہ) ہے، جہاں آئین ہے ، کچھ سیٹ رولز اور روایات بھی ہیں۔ احتجاج سیاسی جماعتوں کا حق ہے، مگر چند لاکھ لوگوں کو باہر لا کر حکومت بدلنے کا انہیں حق نہیں۔اس طرح تو مستقبل میں کوئی بھی نہیں چل پائے گا۔ عمران کو اپنا ایجنڈا متعین کرنا اور سیاسی ٹمپریچر زیادہ بڑھانے سے گریز کرنا ہوگا۔ دوسری طرف حکومت کو چاہیے کہ وہ کسی سمجھوتے کی سنجیدہ کوشش کرے۔ابھی معاملات ہاتھ سے نہیں نکلے۔ تیرہ اگست کو ڈیڈ لائن سمجھنا ہوگا۔ اس سے پہلے ہی معاملات طے پا جانے چاہئیں۔ اگر لانگ مارچ کا پہیہ چل پڑا تو پھر اسے روکنا شائد عمران خان کے لئے بھی ممکن نہ ہو۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں