آخری رائونڈ

پچھلے دو دنوں میں اہل پنجاب خاص طور پر لاہوری جس عذاب اور پریشانی سے گزرے ، اس نے ہر ایک کو مضطرب کر دیا۔ دوتین سوال ہر ایک زبان پر تھے، چودہ اگست کو کیا ہو گا اور اس بحران کا ذمہ دار کون ہے ،کس کا کیا کردار رہا؟ ہمارے خیال میں کوئی سوئپنگ سٹیٹمنٹ دینے اور ایک سطر میں کسی کے خلاف یا حق میں رائے دینے سے بہتر ہے کہ اس ایشو کے مختلف پہلوئوں کو دیکھاجائے اور ہر ایک کے بارے میں غیرجانبدارانہ رائے دی جائے ۔ کرکٹ میں بلے بازو ں کو سب سے اہم نصیحت یہ کی جاتی ہے کہ ہر گیند کو اس کے میرٹ پر کھیلو،تب ہی کامیابی ہوسکتی ہے۔ کالم نگارکو بھی چاہیے کہ وہ ہر ایک کے بارے میں میرٹ پر رائے دے۔ 
نو اور دس اگست کو پنجاب میں جو ہوا، جس طرح کنٹینر لگا کر راستے بند کئے گئے،لاکھوں مسافروں کو ذلیل وخوارکیا گیا، باراتیں روکی گئیں، مریضوں کو ایمبولینسوں میں مرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا، نوجوانوں تو کیا بزرگوں تک کوذلت آمیز انداز میںکنٹینروں کے نیچے رینگنے پر مجبور کیا گیا، لاہور شہر کو مہیب پنجرے کی طرح سیل کر دیا گیا...یہ سب بڑا خوفناک تھا۔ اس کی تمام تر ذمہ داری پنجاب حکومت کی غلط اور ناقص حکمت عملی پر عائد ہوتی ہے۔ سیاسی قیادت سے لے کر اعلیٰ انتطامی افسران تک ، جو بھی اس فیصلے اور عملدرآمد میں شریک تھے، ان کی بے رحمی، سفاکی اور سخت دلی افسوسناک تھی۔پٹرول پمپ بند کرانے کی کیا تُک تھی؟اسی نوے لاکھ آبادی کا شہر لاہور مکمل طور پر مفلوج ہو کر رہ گیا۔ لوگ موٹر سائیکلیں گھسیٹتے اور حکمرانوں کو صلواتیں سناتے پھر رہے تھے۔دانشور اور تجزیہ نگار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے خوبصورت بات کی کہ جو کام گورنر پنجاب کو استعمال کر کے بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے کیا جا سکتا تھا، اس کے لئے مسلم لیگ ن نے پورے صوبے کی انتظامیہ کھپا دی۔ وہ غالباً مخصوص حلقوں کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ ہم مزاحمت کی آخری حد تک جائیں گے، جو کچھ بن سکا کریں گے، خواہ پورا صوبہ ہی پلٹانا نہ پڑے۔ 
ڈاکٹر طاہر القادری کا رویہ تو اس پورے معاملے میں خاصا پراسرا ر اور ناقابل فہم ہی رہا ہے۔ قادری صاحب پر اپنے ماضی کا بوجھ اس قدر زیادہ ہے کہ کوئی معقول شخص ان کی حمایت کرنے یا میڈیا میں ان کامقدمہ لڑنے کو تیار نہیں۔ سوائے مسلم لیگ ن کے شدید مخالفین کے ، قادری صاحب کے ساتھ کوئی نہیں ۔ میڈیا اگرچہ انہیں وقت خاصا دے رہا ہے ،مگر وہاں بھی قادری صاحب کے لئے نرم گوشہ نہیں پایا جاتا۔ ذاتی طور پر میں کسی کو اس کے ماضی کے حوالے سے جج کرنے کے حق میں نہیں۔ہماری سیاست میں تو ایسی بہت مثالیں ہیں۔ فوج کی گود میں پلنے والے ، ان سے قوت کشید کرنے اور حکومتیں پانے والے آج اینٹی اسٹیبلشمنٹ کہلوانے پر مصر ہیں، مارشل لاء کی بی ٹیم کہلوانے والی مذہبی جماعت آج فوج سے دور رہنے کا شعوری فیصلہ کر چکی ہے، ماضی کے انتہا پسند اور علیحدگی کی حد تک پہنچے قوم پرست وفاق کی سیاست کے امین ہوچکے۔ تاہم طاہر القادری صاحب کے حوالے سے خاصا کنفیوژن ہے۔ اس کی دو بڑی وجوہ ہیں۔ ایک تو ان کے موقف میں بڑے خوفناک قسم کے تضادات ہیں ۔ وہ کینیڈین نیشنل ہیں اور یہ واضح ہوچکا ہے کہ وہ اپنی کینیڈا والی ''کشتی ‘‘سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ اس باران کی ڈکشن خوفناک اور تیور کڑے ہیں۔لاشوں، شہادتوں ، انقلاب ،جانیں
دے دینے ، ہاتھ توڑ دینے ... اور جانے کیا کیا شعلہ بار فقرے وہ برسا رہے ہیں۔ قادری صاحب کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ کسی سسٹم کو نہیں مان رہے، ان کے ساتھ بات کرنے کے لئے موزوں فریم ورک ہی موجود نہیں۔اگرچہ ان کے ساتھ مولانا صوفی محمدوالا سلوک نہیں کیا گیا، ایسا کرنا بھی نہیں چاہیے۔جو غلطی سوات میں کی گئی، اسے لاہور میں نہیں دہرانا چاہیے، یہ بات مگر درست ہے کہ طاہرالقادری صاحب کا موقف مولانا صوفی محمد والا ہی ہے۔ زیادہ خطرناک کہ صوفی محمد تو سادہ لوح آدمی تھے، ڈاکٹر قادری صاحب ان کے برعکس بے حد ہوشیار ہیں اور قوی امکانات ہیں کہ ان کے ہینڈلر کوئی اور ہیں۔ان کی ڈوری کہیں اور سے ہلتی ہے۔ اس لئے طاہرالقادری صاحب کی حمایت قطعی طور پر نہیں کی جا سکتی۔ 
عمران خان کا معاملہ مختلف ہے۔ وہ ایک سیاستدان ہیں، پچھلے سترہ سال سے سیاسی اور جمہوری فریم ورک ہی میںسرگرم ہیں۔ وہ سیاسی سسٹم اور آئین کو تسلیم کرتے اور اس کا حصہ ہیں۔ عمران نے شروع میں چار حلقوں کے انتخابی نتائج چیک کرانے کا مطالبہ کیا۔ ان کا یہ مطالبہ جائز تھا۔ الیکشن ریفارمز، نیا الیکشن کمیشن، دھاندلی پروف الیکشن سسٹم، اگلے انتخابات شفاف کرانے کی گارنٹی، جلدا ز جلد آزادانہ بلدیاتی انتخابات ... یہ سب مطالبات جائز اور آئینی حدود میں ہیں۔ الیکشن کمیشن کے موجودہ ممبروں کو ہٹانا اور نیا الیکشن کمیشن لانا فوری طور پر ممکن نہیں، مگر اس کے لئے آسانی سے نئی آئینی ترمیم لائی جا سکتی ہے۔ عمران خان کو اپنا ایجنڈا واضح اور متعین رکھنا چاہیے۔ نواز شریف کے استعفے کا مطالبہ قطعی طور پر درست نہیں۔ آخر وہ کیوں استعفا دیں؟ ایک سالہ پرفارمنس کی بنا پراستعفا مانگا نہیں جا سکتا، آئین نے انہیں پانچ سال کے لئے یہ حق دیا ہے، مڈٹرم انتخابات کی بات بھی ڈھائی تین برسوں بعد ہی کی جاسکتی ہے۔ عمران خان معاملات ایکسٹرا کانسٹی ٹیوشنل ارینجمنٹ کی طرف لے جا رہے ہیں۔ ایسا قطعی طور پر نہیں ہونا چاہیے۔ عمران نے اگر کوئی ماورائے آئین صورتحال پیدا کی تو وہ اپنے بہت سے حامیوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔نیا الیکشن مانگنے کا ویسے بھی یہ مناسب وقت نہیں۔ عمران اور تحریک انصاف اس کے لئے تیار نہیں۔خیبر پختون خوا میں حکومت کے ذریعے وہ قیمتی تجربہ حاصل کر رہے ہیں ، انہیں ابھی انتظار کرنا چاہیے۔ بلدیاتی انتخابات ان کے لئے بہترین آپشن ہیں، اس سے ان کی سپورٹ بیس وسیع اورکارکنوں کے انتخابی تجربے میں بھی اضافہ ہوگا۔ طاہر القادری کو ساتھ ملاکر عمران نے بڑا رسک لیا ہے۔ دو متضاد لشکر اکٹھے مل کر کبھی نہیں لڑ سکتے، اگر لڑائی جیت بھی لیں تو مال غنیمت پر باہمی تصادم ہونا یقینی ہے۔ قادری صاحب کا ایجنڈا مبہم اور پراسرار ہے، وہ پورے مارچ کو ہائی جیک کر سکتے ہیں۔ عمران خان کو خبردار رہنا ہوگا۔ 
میاں نواز شریف پر بھاری ذمہ داری عائد ہوگئی ہے۔ حالات جس نہج تک پہنچ چکے ہیں،بحران جس قدر بڑھ گیا، اس سے نکلنے کے لئے میاں صاحب کو تدبر اور اخلاص سے کام لینا ہوگا ۔ بدقسمتی سے ماضی میں ان کی سیاست سیاسی چالبازیوں (manoeuvring Political ) کے گرد گھومتی رہی۔ ان پر اپوزیشن خاص کر تحریک انصاف کو اعتماد نہیں رہا۔الیکشن کے بعد حکومت اگر چاہتی تو تحریک انصاف کے تحفظات اور مطالبات نہایت آسانی سے مان سکتی تھی، اس کے بجائے انہوں نے ہوشیاری دکھائی، عمران خان کوقائدحزب اختلاف نہیں بننے دیا کہ ان کا سیاسی کردار لوپروفائل رہے۔ یہ بات وہ بھول گئے کہ کسی حقیقی اپوزیشن لیڈرکوکس طرح کارنر کیا جا سکتا ہے؟ قیمتی وقت ن لیگ نے ضائع کر دیا۔ تحریک انصاف اب آسانی سے بے وقوف نہیں بن سکتی۔ عمران خان بھی نواز شریف کی کسی بھی گارنٹی پراعتبار نہیںکر سکتے۔ مسئلہ اب یہی ہے کہ عمران کسی حقیقی گارنٹیر کی گارنٹی کے بغیر تصفیہ نہیں کر پائیں گے، ادھر میاں صاحب خود یہ معاملہ نمٹانا چاہتے ہیں، انہوں نے مختلف سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملاکر قوت لینے کی کوشش کی ہے، مگر وہ زیادہ کامیاب ہوتے نظر نہیں آتے۔پچھلے کالم میں ہم نے یہ عرض کیا تھا کہ یہ معاملہ مقامی سٹیک ہولڈرز کے ذریعے ہی حل ہوگا، اسی بات کو دہرائوں گا۔ میاں صاحب کو معاملات کی سنگینی سمجھنی ہوگی۔ بعض معاملات سیاسی چالوں یا مخالف کو تنہا کرنے سے حل نہیں ہوسکتے، سیاست میں ایک قدم آگے بڑھایا جائے تو ضرورت پڑنے پر دو قدم پیچھے بھی ہٹا جاتا ہے، اسے ناکامی نہیں ، تدبر کہتے ہیں۔ آخری رائونڈ شروع ہو چکا، آج اورکل کا دن اہم ہے، جو تصفیہ ہونا ہے انہی دنوں میں ہوجائے گا۔ امکان یہی ہے کہ چودہ اگست کے جنگ وجد ل کی نوبت نہیں آئے گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں