بند گلی کا مسافر

کاش کوئی جائے اور اسلام آباد میں مارچوں کے قائدین کو وہ تین بنیادی نکات سمجھائے، جس کا جاننا ہر لیڈر کے لئے لازمی ہے۔ ''لیڈر ایسا وعدہ نہ کرے جو ڈیلیور نہ کیا جا سکے، ایسا اقدام نہ کرے جس سے حالات اس کے کنٹرول میں نہ رہیں، ایسا کوئی فیصلہ نہ کرے جس سے انارکی اور افراتفری پیدا ہو‘‘۔
عمران خان سے ہمدردی رکھنے والے حلقے بھی حیران و پریشان ہیں کہ اسلام آباد میں یہ کیا ہو رہا ہے؟ خان صاحب کو کیا ہو گیا، کون سی بات انہیں انتہائی پوزیشن لینے پر اکساتی رہی؟ کیوں وہ اپنے موقف کو بے لچک بناتے گئے‘ اپنے لئے واپسی کے راستے بند کرتے گئے؟ اب وہ اپنی ہی کھینچی لکیروں میں محصور ہو چکے ہیں۔ کاش تحریک انصاف کے لئے سیاسی کردار ادا کرنے کی گنجائش باقی رہے... اس سب کے لئے مگر عمران خان کو غیرمعمولی تدبر سے کام لینا ہو گا... فرسٹریشن اور جوش کی اس انتہائی کیفیت میں کیا یہ ممکن ہو پائے گا؟ 
عمران خان نے آزادی مارچ کی ٹھانی، انتخابی دھاندلیوں کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا تو میڈیا اور سیاسی حلقوں میں دو تین قسم کے ردعمل سامنے آئے۔ مسلم لیگ ن کے سیاسی رہنمائوں، اس کی دوسری صف کے لیڈروں اور میڈیا میں ان کے ترجمان لکھاریوں نے اس کا مذاق اڑایا، وہ ٹھٹھا اڑاتے رہے۔ یہ غیر سنجیدہ ردعمل تھا۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ عمران خان کے مطالبا ت سنے جاتے، ان پر توجہ دی جاتی اور اکاموڈیٹ کرنے کی کوشش کی جاتی۔ عمران کی تحریک کے حوالے سے دوسرا نقطہ نظر ان کے حامیوں کا تھا، جنہوں نے غیر مشروط طور پر عمران کے مطالبات کی حمایت کی بلکہ ان پر زیادہ سخت موقف اپنانے کیلئے زور ڈالا۔ ان میں سے کچھ تو تحریک انصاف کے ڈائی ہارڈ حامی تھے جبکہ بیشتر وہ لوگ جو مسلم لیگ ن کے شدید مخالف ہیں۔ اگر ایک میڈیا ہائوس نے واضح طور پر اینٹی عمران پالیسی اپنائی تو عمران کی حمایت میں تلواریں کھینچنے اور نیزے بلند کرنے والے بھی میدان میں نکل آئے۔ ایسے لوگوں نے خان صاحب کو آگے بڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ تیسرا نقطہ نظر ان لوگوں کا تھا جو تحریک انصاف کے سیاسی کردار اور آئینی حدود میں رہ کر پُرامن سیاسی احتجاج کو اس کا حق سمجھتے تھے۔ یہ لوگ سمجھتے تھے کہ تحریک انصاف نے پچھلے سال مئی کے انتخابات پر اپنے تحفظات ہونے کے باوجود انہیں تسلیم کیا، سسٹم کا حصہ بنی اور قوانین کے مطابق ہی چند حلقوں کے نتائج چیک کرانے کا مطالبہ کیا... یہ سب باتیں جائز اور درست تھیں۔ تحریک انصاف کو اکاموڈیٹ کرنا چاہیے، انتخابی نتائج چیک کرنے کے حوالے سے کوئی آئینی قدغن ہے تو اس کے لئے نہایت آسانی سے آئینی ترمیم اور دیگر اصلاحات لائی جا سکتی ہیں۔ 
عمران خان صاحب نے مگر انتہائی راستہ اپنایا۔ معلوم نہیں کہ وہ تحریک انصاف کے ''عقابوں‘‘ کے گھیرے میں آ گئے یا پھر انہیں حکومت پر دبائو ڈالنے کے لئے یہ وقت مناسب لگ رہا تھا... وہ مسلسل آگے بڑھتے گئے۔ ان کے سخت اور بے لچک موقف کو دیکھ کر ہر کوئی حیران تھا۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ شاید نادیدہ قوتیں خان صاحب کو مہمیز لگا رہی ہیں؛ تاہم اس کا بھی کوئی اشارہ یا ثبوت نہیں مل رہا تھا۔ اسلام آباد کے باخبر صحافتی حلقے بار بار یہ کہہ رہے تھے کہ ایسا ہرگز نہیں ہے، مقتدر قوتوں کا مداخلت کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پوری طرح یکسو ہیں، حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔ ادھر لاہور کے صحافتی حلقے یہ سوچ رہے تھے کہ اگر عمران خان پوائنٹ آف نو ریٹرن تک جا رہے ہیں تو یقینا انہیں کسی قسم کی یقین دہانی کرائی گئی ہو گی، ورنہ وہ سیاسی خود کشی کیوں کریں گے؟ پچھلے تین چار دنوں سے اگر مگر چونکہ چنانچہ (ifs & buts) کی کیفیت ہر جگہ نظر آئی، جس سے بات ہوئی وہ کنفیوژ ن کا شکار لگا۔ پچھلے تین دنوں کے واقعات نے اب یہ واضح کر دیا کہ مقتدر قوتیں اس تنازع سے دور رہنا چاہتی ہیں۔ 
عمران خان اسلام آباد میں بھرپور شو بھی نہیں کر پائے، توقع تھی کہ وہ پچاس ہزار سے ایک لاکھ تک لوگ باآسانی جمع کر لیں گے۔ ایسا کیوں نہیں ہوا، تحریک انصاف کو اس پر ضرور غور کرنا چاہیے۔ دراصل عمران اپنے جوش میں ایک بات نظر انداز کر گئے کہ تحریک انصاف کے ووٹروں کی بڑی تعداد پڑھے لکھے اور پروفیشنل لوگوں پر مشتمل ہے، صرف جذباتی نعرے بازی سے انہیں قائل کرنا مشکل ہے۔ تبدیلی وہ چاہتے ہیں، اسی لئے انہوں نے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی جیسی روایتی ''سٹیٹس کو‘‘ پارٹیوں کو چھوڑ کر تحریک انصاف کو چنا۔ آگے بڑھنے کے لئے مگر انہیں ٹھوس لائحہ عمل درکار تھا، مبہم نعرے اور کسی سمت سے عاری مارچ انہیں کھینچنے میں ناکام رہا۔ یہی وجہ ہے کہ لاہور سے اسلام آباد تک آزادی مارچ اور اسلام آباد میں اجتماع مایوس کن رہا۔
عمران خان کی سب سے بڑی غلطی ان کے مطالبات ہیں، جنہیں اسٹیبلشمنٹ کی کھلی مداخلت کے بغیر منوایا نہیں جا سکتا۔ وزیر اعظم نواز شریف اپنی حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کیوں مانیں گے؟ خان صاحب کی غلط حکمت عملی نے انہیں بند گلی میں لا کھڑا کیا۔ میرا تاثر یہی ہے کہ فرسٹریشن اور واپسی کے لئے راستے کھلے نہ ہونے کی وجہ ہی سے وہ سول نافرمانی کی تحریک چلانے جیسا ناعاقبت اندیشانہ اعلان کر پائے۔ ایسا اعلان، جس کا کوئی جواز ہے نہ ہی کوئی روایت موجود۔ بجلی، گیس کے بل نہ دینے، ٹیکس جمع نہ کرانے والی بات کچھ لوگوں کو بظاہر پُرکشش لگے گی مگر کیا ایسا کرنا ممکن ہے؟ یہ بات تو اپنی جگہ درست ہے کہ ایسا کرنے سے ریاست کا شیرازہ بکھر جائے گا اور انارکی پھیل جائے گی۔ سوال مگر یہ بھی ہے کہ لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، ملتان یا پشاور وغیرہ کا کوئی رہائشی خان صاحب کے ارشاد کے مطابق بل جمع نہ کرائے تو جب واپڈا اور گیس والے اس کا میٹر کاٹنے آئیں گے، پھر اسے کون بچائے گا؟ کیا خان صاحب ہر محلے کے لئے ڈنڈا بردار دستے بنائیں گے، جو واپڈا، گیس یا انکم ٹیکس کے عملے سے لڑائی لڑیں؟ باقی تو دور کی بات ہے، خود خان صاحب بنی گالہ کے گھر کے بل ادا نہ کر کے دیکھ لیں، انہیں اندازہ ہو جائے گا کہ ایسا اعلان کرنے اور اسے نبھانے میں کیا فرق ہے؟ 
عمران خان اپنی ہی کھودی خندقوں میں مقید ہو چکے ہیں۔ اس پر مگر خوش ہونے کے بجائے انہیں باہر نکالنا چاہیے۔یہ سیاسی جماعتوں خاص طور پر پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کی ذمہ داری ہے۔ تحریک انصاف کی کمزوری ایک جماعت کی کمزوری نہیں بلکہ یہ پورے سیاسی نظام کے توازن کو بگاڑ کر رکھ دے گی۔ حکومت کو بھی سمجھنا ہو گا کہ فرسٹریشن کی انتہا ہجوم کو کسی بھی حد تک لے جا سکتی ہے۔ تصادم کسی کے حق میں نہیں۔ عمران اپنے مطالبات پر نظرثانی کریں، حکومت کچھ پیچھے ہٹے، راستہ نکل سکتا ہے۔ سرنگ کے دوسرے سرے پر روشنی کی کرن ابھی معدوم نہیں ہوئی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں