کچھ اچھا بھی سیکھ لیں

ہمارے ہاں کرنٹ افیئرز کی خبریں ٹی وی سکرین اور اخبار کے صفحات پرغالب جگہ پانے میں کامیاب رہتی ہیں۔ بعض اوقات تو ان کا شیئر اس قدر زیادہ ہوجاتا ہے کہ تمام نمایاں خبریں سیاسی ہنگامہ خیزی کے اردگرد ہی گھومتی رہتی ہیں۔ان خبروں کی ایک خاص اہمیت ہے ،دنیا کے ہرملک کے آزاد میڈیا میں انہیں جگہ دی جاتی ہے، ہمارے ہاں مگر یہ کام غیر متوازن انداز سے ہونے لگا ہے۔ اب پچھلے دو ہفتوں سے جاری سیاسی ہنگامے نے سکرین اور اخبار کے صفحات پر کچھ یوں قبضہ جمایا ہے کہ بہت سے لوگوں کو کوفت ہونے لگی ہے۔ ایک ہی طرح کی تقریروں، ٹاک شوز اور تجزیے سن سن کر آدمی اکتا ہی جاتاہے۔ جو ابھی تک دلچسپی سے یہ سب دیکھ رہے ہیں ، ان کی ہمت اور جرات کو سلام۔لگے رہیں، خدا نے چاہاتو ایک نہ ایک دن اس صبر کا پھل ضرور ملے گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس سیاسی ہنگامے کی وجہ سے بہت سے اہم خبریں نظر انداز ہو رہی ہیں ،جن پر سنجیدہ بحث ہونی چاہیے۔ ایک بہت اہم خبر ہمارے پڑوسی ملک بھارت سے چند دن پہلے آئی ہے۔ وہاں انڈین سول سروس کے داخلہ امتحانات کے حوالے سے تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔ 
بھارت میں انڈین سول سروس کے امتحانات کے لئے داخلہ ٹیسٹ لیا جاتا ہے۔ یہ ایک طرح کے پری ٹیسٹ ہیں، ان میں کامیاب ہونیوالے سول سروس کے امتحان میں بیٹھ سکیں گے۔تین سال پہلے اس پری ٹیسٹ میں سی سیٹ (C SAT)نامی ایک لازمی پیپر متعارف کرایا،یہ انگریزی زبان کی مہارت سے متعلق ہے۔ اس بار بھارت میں اس پیپر کے خلاف ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا۔ ہندی بولنے والے طلبہ کے ساتھ ساتھ بہت سے ممتاز بھارتی دانشوروں اور تجزیہ کاروں نے اس ٹیسٹ پر تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندی میڈیم سکولوں میں پڑھنے والوں کو اس سے نقصان پہنچ رہا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ پچھلے سال کامیاب ہونے والوں میں غیر انگریزی سکولوں کے لڑکوں کی تعداد پچیس فیصد کم ہوگئی۔ اس سال پارلیمانی انتخابات میں بھارتی جنتا پارٹی جیتی ہے ،جو ہندی کی بھرپور حامی ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سرکاری اہلکاروں کو ہدایت کر چکے ہیں کہ وہ سوشل میڈیا اور سرکاری خط وکتابت میں انگریزی کی جگہ ہندی کا استعمال کریں۔ سول سروس کے امتحان میں انگریزی زبان کا لازمی پیپر شامل ہونے اور اس سے انگریزی نہ بولنے والے لڑکوں کے نقصان کا معاملہ بھارتی پارلیمنٹ میں بھی اٹھایا گیا۔ الہ آباد جیسے شہروں میں طلبہ نے سڑکوں پر احتجاجاً بھیک مانگی ، شمالی ہند کے دوسرے بڑے شہروں میں بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ اس عوامی دبائو کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارتی حکومت نے سی سیٹ کے انگریزی پیپر کے نمبر حتمی نتیجے میں شامل نہ کرنے کی ہدایت جاری کر دی۔ یہ پیپر آئندہ سے شامل نہیں کیا جائے گا۔ 
ایک معروف ویب سائٹ پر یہ سٹوری دیکھ کر میں نے تفصیل معلوم کرنے کے لئے بھارتی اخبارات کھنگالے تو معلوم ہوا کہ نہ صرف بھارتی جنتا پارٹی نے اس کی حمایت کی بلکہ دوسری بڑی جماعتوں میں بھی اس حوالے سے اتفاق رائے پایا جاتا تھا، عام آدمی پارٹی (عآپ)کے ایک معروف رہنما جوگندرا یادیو نے مشہور بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس میں آرٹیکل لکھا، جس میں دلچسپ جملہ تھا،''ہم انگریزی زبان کے مخالف نہیں، مسئلہ انگریزی زبان نہیں، بلکہ انگریزی زبان کی حکمرانی سے ہے۔‘‘ بھارتی اخبارات اور دانشوروں نے اس مسئلے کو معاشرتی تقسیم کے تناظر میں بھی دیکھا۔ انگریزی سکول مہنگے اور اشرافیہ کے بچوں کے لئے مختص ہیں، جبکہ ہندی سکول لوئر اور لوئر مڈل کلاس کے بچوں کی واحد امید ہیں۔ غریب آدمی جو اپنے بچوں کو سرکاری ہندی میڈیم سکولوں میں بھیجتا ہے ، اس کے لئے اپنے حالات بدلنے اور اپنی اولاد کے لئے بہتر معاشی مستقبل کا واحد راستہ سول سروس کے امتحانات ہیں۔سی سیٹ کا پیپر ان کے راہ کی رکاوٹ بن گیا، جس میں انگریزی میڈیم سکولوں کے لڑکوں کو ایڈوانٹیج حاصل تھا۔ اس پر احتجاج شروع ہوا تو ان کے میڈیا، انٹیلی جنشیا اور ارکان پارلیمنٹ سمیت بیشتر سیاسی جماعتوںنے اس مطالبے کی حمایت کی۔ بھارت میں ایک اور ایشو بھی کھڑا ہو گیا ہے، وہاں یہ امتحان ہندی اور انگریزی میں سے کسی ایک زبان میں دینے کی اجازت ہے۔ جنوبی ہند کی سیاسی جماعتیں اب مطالبہ کر رہی ہیں کہ ہندی اور انگریزی کی طرح بھارت کی دوسری بڑی زبانیں تامل، بنگلہ، تیلگو وغیرہ میں بھی امتحان دینے کی آپشن ملنی چاہیے۔ اس پر بحث جاری ہے، ممکن ہے اگلے کسی مرحلے میں ایسا بھی ہو جائے، مگر بھارتی فکری اور سیاسی قیادت نے یہ بہرحال ثابت کر دیا کہ وہ انگریزی سے مرعوب نہیں۔
یہ رپورٹیں پڑھتے ہوئے میں یہی سوچتا رہا کہ ہم پاکستانی کب اس احساس کمتری سے باہر آئیں گے؟ہمارے سول سروس کاامتحان نہ صرف انگریزی زبان میں ہوتا ہے بلکہ انٹرویو 
کے لئے اچھی سپوکن انگریزی بولنا ضروری ہے۔ دور دراز کے پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے ذہین بچے اگر سرتوڑکوشش کر کے تحریری امتحان پاس کر بھی جائیں، اچھی انگریزی نہ بول سکنے کے باعث وہ اعتماد سے انٹرویو نہیں دے سکتے، جس کا انہیں نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ تحریری امتحان صرف انگریزی میں ہونے کی بھی کوئی تُک نہیں۔ ہمارے ہاں کئی مضامین میں ایم اے اردو میں ہوتا ہے ، یہ طرفہ تماشا ہے کہ جس مضمون میں اردو زبان میں لکھ کر ماسٹر کر لیا جائے، اسی مضمون کا بی اے کی سطح کا پیپر سول سروس امتحان میں لازمی طور پر انگریزی میں دینا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں اس موضوع پر بات کی جائے تو فوراً ہنگامہ کھڑا ہوجاتا ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے فوراً رائٹ لیفٹ کا ایشو بنا دیا جاتا ہے، اردو میں مقابلے کے امتحانات کا مطالبہ کرنے والوں پر رجعت پسندی ، مغرب دشمنی اور تنگ نظری سے لے کر نجانے کتنے لیبل لگا دیے جاتے ہیں۔ ہمارے بہت سے لبرل ،سیکولر دوست اس مطالبے ہی پر چراغ پا ہوجاتے ہیں۔ دو تین دلائل خاص طور پر دیے جاتے ہیں کہ آج کل تمام علوم انگریزی زبانوں میں ہیں، اس لئے ہم انگریزی کے بغیر نہیں رہ سکتے، اس کے بغیر ترقی نہیں کرسکتے... وغیرہ وغیرہ۔
دو باتیں بڑی واضح ہیں، ایک تو ہمیں اپنی قومی زبان میں علمی مواد کو منتقل کرنا چاہیے، ادب خاص کر فکشن کی حد تک تو خاصا کچھ ہوچکا ہے، سوشل سائنسز اور سائنسی علوم کے حوالے سے حکومتی سطح پر یہ کام ہونا چاہیے۔ کہیں سے تو آغاز کرنا پڑے گا۔ ایرانی چند ماہ کے دوران مغرب میں چھپنے والی ہر اہم کتاب کا فارسی میں ترجمہ کرلیتے ہیں، ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ ترکی کی آپشن بھی بروئے کار لائی جا سکتی ہیں،جہاں سوشل سائنسز میں اعلیٰ تعلیم ترکی زبان جبکہ سائنسی علوم انگریزی زبان میںپڑھائے جاتے ہیں ۔چلیں اس سب میں کچھ تاخیر لگ سکتی ہے، چند سال کے لئے اس حوالے سے ہم صبر کر سکتے ہیں، مگر سول سروس کے امتحانات میں انگریزی کے ساتھ اردو کی آپشن دینے میں کیا قباحت ہے؟ ہسٹری، پولیٹیکل سائنس اور بعض دوسرے مضامین میں طلبہ باآسانی اردو میں پیپر دے سکتے ہیں۔یہ امتحان دینے والوں کی بڑی تعداد اردو میڈیم سکولوں یا عام سے نام نہاد انگریزی میڈیم سکولوں سے پڑھ کر آئی ہوتی ہے۔ہمارے بڑے شہروں میں اعلیٰ پائے کے تعلیمی ادارے موجود ہیں، جہاں ایک بچے کی ماہانہ فیس دس پندرہ سے بیس پچیس ہزار تک ہے، ظاہر ہے لوئر مڈل کلاس تو درکنار اپرمڈل کلاس کے لوگ بھی اپنے بچے وہاں نہیں پڑھا سکتے ۔ اشرافیہ کے ان سکولوں سے پڑھنے والے بچوں کو روانی سے انگریزی بولنے اور لکھنے کی عادت ہوتی ہے، جس کا انہیں سول سروس کے امتحانات اور انٹرویو میں ایڈوانٹیج ملتا ہے ۔
سنٹرل سول سروس ہو یا صوبائی سروس کے امتحانات ، ان میں انگریزی مضمون (Essay English )کے پرچے میں بے شمار طلبہ فیل ہوتے ہیں۔ اس پرچے کی کیا تُک ہے؟ فارن سروس میں تو چلو اس کا کوئی جواز ہو، اگرچہ میں نے ایران کے کئی سفارتکار دیکھے ہیں، جو صرف فارسی ہی بول سکتے ہیں، ا س کے باوجود وہ اپنے ملک کے لئے فرائض انجام دیتے ہیں۔ پولیس، کسٹم ، انکم ٹیکس ، ریلوے اور دیگر محکموں میں اچھی انگریزی ڈرافٹنگ کیوں اتنی لازمی سمجھی جاتی ہے؟ آخر ہمارے ہاں بھی بھارت کی طرح سرکاری خط کتابت اردو میں کیوں نہیں ہوتی؟ ہم ہر معاملے میں بھارت کی طرف دیکھتے ہیں، ان سے کچھ اچھا بھی سیکھ لیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں