ڈراپ سین ؟

اسلام آباد میں جاری سیاسی ڈرامہ اپنے آخری ایکٹ کی جانب بڑھ رہا ہے۔بدھ کی سہ پہر پارلیمنٹ میں شاہ محمود قریشی نے اپنی طویل تقریر فرمائی، جس میں وہ شیکسپیئرین ڈرامے کی طرز پر چہرے کے مختلف زاویے بدل بدل کر ، لہجے میں ڈرامائی نشیب وفراز لا کر بولتے رہے۔مجھے کبھی یہ سمجھ نہیں آئی کہ اس قدر طویل تقریروں کی کیا افادیت ہے؟ اسی طرح چودھری نثار جب پارلیمنٹ میں مائیک لیتے ہیں تو ہر ایک کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ اب اگلے دو ڈھائی گھنٹوں تک ان کے ارشاداتِ عالیہ سننے پڑیں گے۔ اراکین پارلیمنٹ پر تنقیدکرنا مقصود نہیں، مگر اس جوائنٹ سیشن میں تقاریر سننے کے بعد یہ اندازہ ہوا کہ ہمارے معزز منتخب نمائندوں میں سے بہت سوں کو تقریر کے ماہرین سے رابطہ کرنا چاہیے۔ طوالت حد سے زیادہ، الفاظ بے روح اور مغز سے محروم۔ 
ہمارے ایک دوست کسی زمانے میں اخبار میں لکھا کرتے تھے۔وہ علم نجوم میں مہارت کے دعوے دار تھے۔وہ نہایت مشکل اور دقیق موضوعات کا انتخاب کرتے ، اس پر بے رس اور بے ذائقہ قسم کی گنجلک نثر لکھتے اور پھر آخر میں چند ایک پیش گوئیاں نقل کرتے۔ طریق کار یہ ہوتا کہ ہر مہینے کی چند تاریخیں دیتے کہ یہ فلاں مسئلے کے حوالے سے اہم ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار قاضی حسین احمد شدید بیمار ہوگئے، موصوف نے انہی دنوں کالم لکھا اور اس میں بتایا کہ قاضی صاحب کی صحت کے حوالے سے مہینے کا آخری ہفتہ بہت اہم ہوگا۔ ہر ایک نے اس سے خاص تاثر لیا، ویسے بھی قاضی صاحب کی شدید علالت کی خبریں شائع ہو رہی تھیں۔ اللہ پاک نے مہربانی کی اور قاضی حسین احمد مکمل صحت یاب ہوگئے۔ کسی کولیگ نے پوچھا کہ آپ نے تو آخری ہفتے کا ذکر کیا تھا، بڑے اطمینان سے انہوں نے جواب دیا،''میں نے ان دنوں کی اہمیت کا کہا تھا،آپ نے دیکھا نہیں کہ انہی دنوں میں قاضی صاحب کی صحت سنبھل گئی ۔‘‘ اعتراض کرنے والا اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔
ایک دن ہم دو تین دوست بیٹھے تھے،گپ شپ ہو رہی تھی، نجومی کالم نگار نے اچانک کہا، مجھے بتائیں کہ میں اپنا کالم کیسے بہتر کروں؟ ہم ابھی جواب سوچ ہی رہے تھے کہ ایک دوست بول اٹھا، ''اس کا سائز کم کر دیں، جتنا لکھتے ہیں ، اس میں سے چالیس فیصد کم کر کے لکھا کریں؟ پیش گوئیاں لکھنے والے نے حیرت سے پوچھا، ''اس سے کیا ہوگا؟‘‘ستم ظریف دوست نے برجستہ کہا، ''آپ کی تحریر چالیس فیصد کم بور ہوجائے گی۔‘‘اگر ہمارے سیاستدان ، خاص طور پر اراکین پارلیمنٹ اس مشورے پر عمل کریں تو انہیں بھی یقیناً نفع حاصل ہوگا۔ اس دھرنے میں ویسے حیران کن حد تک بور اورنیند آور تقریریں سننے کا اتفاق ہوا۔ علامہ طاہر القادری صاحب کے گھنٹوں کے خطاب اس حوالے سے خاصے صبر آزماتھے، یہ ممکن ہی نہیں کہ اسے سنتے ہوئے آپ جمائیاں نہ لیں یا نیند غلبہ نہ کر لے۔مجھے ان لوگوں پر حیرت ہے جو قادری صاحب کو بہت اچھا خطیب گردانتے ہیں۔ وہ الفاظ کو اس فراوانی سے لٹاتے ہیں کہ تھوڑی دیر بعد خیالات کی تکرار شروع ہوجاتی ہے ،جو خطابت کا سب سے بڑا عیب ہے۔ عمران خان کبھی اچھے مقرر نہیں رہے، دھرنے کے تین ہفتوں میں ان کی یہ کمزوری بری طرح ایکسپوز ہوئی، انہوں نے جارحانہ انداز اپنایا ا ور مخالفوں پر تند وتیز حملے کر کے اسے چھپانے کی ناکام کوشش کی۔ 
مجھے نہیں معلوم کہ دھرنے کا اختتام کیا ہوگا؟ ویسے اس آخری رائونڈ میں حکومت کی پوزیشن مضبوط نظر آ رہی ہے۔ اس کی دو تین وجوہ رہیں۔ عمران خان اپنے مارچ کے آغاز ہی سے جس طرح کا تاثر جمانا چاہتے تھے ، اس میں ناکام رہے۔ پی ٹی آئی کے نوجوان اس پر ناراض ہوجاتے ہیں، مگر حقیقت یہی ہے کہ عمران خان زیادہ لوگ اکٹھے نہیں کر سکے، مبصرین جس قدر کرائوڈ کی توقع کر رہے تھے، اس سے دو تین گنا کم لوگ عمران کے ساتھ اسلام آباد پہنچے۔ عوامی سیلاب کا تاثربن ہی نہیں پایا۔ جس سونامی کے ذریعے وہ حکومت پر دبائو ڈالنا چاہتے تھے، وہ تخلیق ہی نہیں ہوسکا۔ استقامت بہرحال انہوں نے دکھائی، وہ تین ہفتوں تک میدان میں ڈٹے رہے،مگر اتنا لمبا دھرنا نہ صرف رہا سہا تاثر کھو بیٹھتا ہے، بلکہ ٹی وی پر تماشا دیکھنے والے بھی بوریت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ عمران خان کی اصل غلطی بے لچک رویہ اور ضرورت سے زیادہ سخت مطالبات تھے۔انہوںنے چھ نکات پیش کئے، کہا جاتا ہے کہ ان میں سے پانچ مطالبات تسلیم کئے جا سکتے تھے، چھٹا وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ ناقابل قبول تھا۔منطقی طور پر تو خان صاحب کو چھٹے سے دستبردار ہوجانا چاہیے تھا کہ پانچ مطالبات منوا نے سے ان کی جھولی بھر جاتی ، سیاسی ثمرات انہیں ہی ملنے تھے۔ ایسا کرنے کے بجائے وہ استعفے کے مطالبے پر اٹک گئے۔ یوں یہ معاملہ اتنا طول کھنچ گیا اور عمران سیاسی تنہائی کا شکار بھی ہوگئے۔ 
حکومت نے دوسری طرف غلطیاں بھی بے پناہ کیں، مگر آخر میں اس نے اپنے کارڈز اچھے کھیلے۔ سانحہ ماڈل ٹائون حکومت کا بلنڈر تھا، ایسی تباہ کن غلطی ، جس کی تلافی کبھی نہیں ہوسکتی۔ تحریک انصاف کے مطالبات کو بروقت مانا جاتا تو آل آئوٹ وار شروع ہی نہیں ہونا تھی۔ حکومتی وزرا نے آخری دنوں میں جو رویہ رکھا، وہ شروع ہی سے رکھنا چاہیے تھا۔ اپنے سیاسی مخالفوں کی تذلیل اور تضحیک کر کے معاملات بگڑتے ہیں، سنورتے نہیں۔ عمران کی غلطیوں اور بے لچک رویے نے حکومت کو فائدہ پہنچایا۔ پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتیں وزیراعظم کے گرد اکٹھی ہوئیں کہ انہیں عمران کی جیت کی صورت میں اپنا سب کچھ ضائع ہوتا نظر آ رہا تھا۔ پیپلز پارٹی سندھ میں حکومت چلا رہی ہے، قائد حزب اختلاف کا عہدہ ان کے پاس ہے، وہ نئے الیکشن کی حمایت کیوں کریں گے؟ محمود اچکزئی صاحب کو زندگی میں پہلی بار اقتدار ملا، بھائی کو گورنری،خاندان کے کئی افراد اراکین پارلیمنٹ، ان کی جماعت کے پاس وزارتیں... وہ تو اسی سیاسی سسٹم کی بقا کے لئے لڑیں گے، یہی حال ڈاکٹر مالک بلوچ کی جماعت کا ہے، مولانا فضل الرحمن چار وزارتیں لئے بیٹھے ہیں، ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف ان کی دو نشستیں چھین چکی ہے، ایک پر مولانا کے فرزند ہار گئے ۔ مولانا ہوں یا آفتاب شیرپائو، مسلم لیگ ن کا ساتھ دینا ان کی مجبوری بھی ہے۔
اے این پی بھی زخم خوردہ ہے، تحریک انصاف نے خیبر پختون خوا میں اسے بدترین شکست سے دوچار کیا ہے۔ یہ سب وزیراعظم نواز شریف کے گرد اکٹھے ہوئے۔ جاوید ہاشمی کی ''بغاوت‘‘ نے بھی مسلم لیگ ن میں نئی توانائی ڈالی ۔ ہاشمی صاحب کے لئے اپنے تمام تر احترام کے باوجود مجھے تو ان کی باتوں میں زیادہ وزن محسوس نہیں ہوا۔ اپنے چند فقروں میں انہوں نے دو اہم ترین قومی اداروں پر وار کر دیا۔جاوید ہاشمی کا جیل جانا اپنی جگہ، جمہوریت کے لئے قربانیاں ہم ماننے کو تیار ہیں، مگر جس قدر سنگین الزامات انہوں نے لگائے ، وہ بغیر ثبوت کے مانے نہیں جا سکتے۔ان سے دوستی کا طویل تعلق رکھنے والے رعایت دے سکتے ہیں، مگر علمی دیانت دوستی، مخالفت سے ہٹ کر ٹھوس بنیاد پر تجزیہ کرنے کی متقاضی ہے۔
آخری ایکٹ چل رہا ہے۔ مظاہرین کو سیف ایگزٹ دینا ہوگا۔ میں عمران ، قادری مارچ اور دھرنے کا مخالف رہا، مگر ان لوگوں کے لئے بلوائی کی اصطلاح استعمال کرنا زیادتی ہے۔ بلوائی کا نام لے کرانہیں کچلنے کا حق کسی کو نہیں دیا جا سکتا۔ سیاسی حل نکل سکتا ہے، وہ نکلنا چاہیے۔ میاں نواز شریف بظاہر خطرے سے باہر آ چکے ہیں،مگر کھیل ابھی ختم نہیں ہوا۔ بقول شاعر ابھی انگوروں کے خوشے میں خاصا رس باقی ہے۔ میاں صاحب معاملات بہتر کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے رویے میں جوہری تبدیلی لانا ہوگی۔ اداروں کے ٹکرائو کا تاثر پیدا ہونا خطرناک ہے۔ پارلیمنٹیرین کو بھی یہ سمجھنا ہو گا۔ میاں صاحب شروع ہی سے زیادہ اختیارات حاصل کرنے کے بجائے اپنی توجہ اچھی پرفارمنس پر مرکوز کرتے‘ تو انہیں یہ مشکل دن نہ دیکھنے پڑتے۔ اگر وہ اپنے اندر تبدیلی لے آئیں تو آنے والے دن بہترہوسکتے ہیں۔ غلطیاں دہراتے رہے تو حکومت یوں ہی ڈگمگاتی رہے گی، ہر بار خوش نصیبی ساتھ نہیں دیتی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں