چھوٹے چھوٹے کام

چار پانچ برس قبل مجھے یونیورسٹی طلبہ کو پڑھانے کا اتفاق ہوا، دو تین برس تک دو مختلف یونیورسٹیوںمیں وقتاً فوقتاً پڑھانے کا یہ تجربہ کئی اعتبار سے خوشگوار رہا۔ اس سے پہلے مجھے قطعی اندازہ نہیں تھا کہ پڑھانا اس قدر دل خوش کن اور پرجوش کام ہوسکتا ہے۔ حقیقی معنوں میں تب ادراک ہوا کہ ایک استاد کس قدر موثر طریقے سے طلبہ پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔ ہمارے جیسے وزیٹنگ فیکلٹی کے لوگوں کے لئے تو قدرے مشکل ہوتا ہے کہ انہوں نے ہفتے میں ایک دو بار ہی لیکچر کے لئے جانا ہوتا ہے ،مگر ریگولر فیکلٹی والے اساتذہ اگر چاہیں تو اپنے سٹوڈنٹس کی شخصیت پر بہت گہر ا اثر مرتب کر سکتے ہیں۔ یہ درست کہ تمام طلبہ ایک جیسے نہیں ہوتے، مگر ہر کلاس میں دو چار ایسے نکل ہی آتے ہیں ،جن میں سپارک ہو اور وہ کچھ سیکھنا چاہتے ہوں۔ ایک چیز میں نے نوٹ کی کہ بہت سے نوجوان کچھ کرنا چاہتے ہیں، مگر کوئی گائیڈ نہیں، راستہ دکھانے ، روڈ میپ دینے والا ہی نہیں۔سوشل میڈیا پر موجود بہت سے نوجوانوں کی بھی یہی حالت ہے، ان کے اندر معاشرے کے لئے مثبت کنٹری بیوشن کرنے کا جذبہ موجود ہے، وہ عملی طور پر کچھ کرنا چاہتے ہیں، مگر ہمارے ہاں مائیکرو لیول پر سوشل ورک کے زیادہ مواقع نہیں۔ بڑی بڑی تنظیمیں تو ہیں،ان میں سے کچھ بہت اچھا کام بھی کر رہی ہیں۔ اخوت، الخدمت، نادار لوگوں کے لئے موتیے کے مفت آپریشن کرنے والی تنظیم ''پی اوبی ‘‘(Prevention of Blindness) ، غزالی ٹرسٹ سکول،ہیلپ لائن ، کاوش، جھگی والوں کے بچوں کو تعلیم دینے والی ''ڈورز آف اوئیرنیس‘‘ اور اس جیسی کئی تنظیمیں اپنے اپنے فیلڈ میں کام کر رہی ہیں۔ کوئی بلاسود قرضے دیتی، کسی نے غریب کے بچوں کے مفت سکول بنائے ہوئے ہیں، کسی کا دائرہ کار صحت ہے تو کوئی تعلیم وتربیت کے شعبے میں سرگرم ہے۔ طلبہ یا عام نوجوانوں کے لئے البتہ ان سے رابطہ کرنا اوربطور والنٹیئر کام کرنا آسان نہیں۔ میری خواہش ہے کہ کوئی تنظیم صرف رہنمائی کا کام انجام دے۔ وہ ویب سائٹ، فیس بک پیج ، ای میلز یا پھر براہ راست ملاقات کے ذریعے سماجی کام کرنے کے خواہش مند رضاکاروں کی رہنمائی کرے، اس شعبہ میں کام کرنے والی تنظیموں کے ساتھ ان کا رابطہ کرا دے اور یوں نیکی کی نیٹ ورکنگ کرے۔ 
مغرب میں جہاں بہت بڑی بڑی سماجی خدمت کی تنظیمیں کام کرتی ہیں، وہا ں انفرادی طور پر بھی اچھا کام کرنے والی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ مغرب میں ایسے روشن واقعات کو بھرپور انداز سے اجاگر کیا جاتا ہے۔مشہور میگزین ریڈرز ڈائجسٹ نے ایوری ڈے ہیروز کے نام سے ایک باقاعدہ سلسلہ شروع کر رکھا ہے، جس میں روز مرہ زندگی میں غیرمعمولی مثبت کام کرنے والوں کی کہانیاں شائع کی جاتی ہیں۔ دنیا سنڈے میگزین میںاہل مغرب کی چند دلچسپ انفرادی مثالوں کو اکٹھا کر کے ایک دلچسپ رپورٹ شائع کی گئی ہے۔ایک امریکی ریاست لووا کی رہائشی للین وبیر کی کہانی عزم وہمت کی اچھوتی مثال ہے۔ یہ معمر خاتون سو برس کی ہونے والی ہیں، مگر اس پیرانہ سالی میں بھی وہ مشین پر ایک جوڑا خود سیتی ہیں۔ بڑی بی تقریباًتین برسوں سے روزانہ ایسا کر رہی ہیں، اب تک ساڑھے سوکے قریب جوڑے سل چکے ہیں۔ یہ جوڑے ایک تنظیم کو بھیجے جاتے ہیں جوا نہیں غریب افریقی بچوں میں تقسیم کر دیتی ہے۔ للین ویبر کی خواہش ہے کہ وہ اگلے برس اپنی سالگرہ سے قبل ایک ہزار جوڑے سی لیں۔ اس سلسلے کی ابتداایک ٹی وی ڈاکومینٹری سے ہوئی ، خاتون نے ٹی وی پر وہ دستاویزی فلم دیکھی، انہیں اندازہ ہوا کہ وہ گھر بیٹھے جوڑے سی کر ان افریقی بچوں کی مدد کر سکتی ہیں ،جواپنا تن ڈھانپنے کے لئے کپڑے خریدنے کی بھی سکت نہیںرکھتے۔ اس خیال نے ان کے لاغر بدن میں نئی توانائی بھر دی اور وہ روزانہ صبح ناشتے کے بعد سے اسی کام میں جت جاتی ہیں۔ للین ویبر کومقامی ٹی وی چینل نے ایک ایوارڈ بھی دیا ہے ،مگر یہ نیک دل خاتون بچوں کے چہرے پر آئی مسکراہٹ کو اپنا اصل ایوارڈ گردانتی ہیں۔ 
بال کاٹنا یا شیو کرنا کوئی ایسا کام نہیں لگتا،جس کے ذریعے سماجی خدمت ہوسکے۔ ہمارے ہاں باربروں کی کمی نہیں،مگر شائد ہی کسی کو اپنا ہنر اس حوالے سے آزمانے کا خیال آیا ہو۔ فلپائن کے مارک بسٹوس نے البتہ ایسا کر دکھایا۔ وہ فلپائن سے روزی کمانے امریکہ گیا،بال کاٹنے کا ہنر وہ پہلے سے جانتا تھا، امریکہ میں اس فن کو جلا ملی اور وہ نیویارک کے ایک بڑے ہیر کٹنگ سیلون میں ملازمت کرنے لگا۔ چھٹیوں میں وہ فلپائن اپنے گائوں گیا تو اس نے دیکھا کہ کئی غریب بچوں کے بال بڑھے ہوئے ہیں، معلوم ہوا کہ پیسے نہ ہونے کے باعث وہ کٹنگ نہیں کرا پاتے۔ مارک بسٹوس نے ایک مقامی حجام سے کرسی ادھار مانگی ، بازار سے قینچی اور کنگھی خریدی اور ان بچوں کی مفت کٹنگ شروع کر دی۔ اسے ایسا کر کے بہت اچھا محسوس ہوا۔دل کش کٹنگ کے بعد آئینے میں خود کو دیکھ کرخوش ہوتے بچوں کو دیکھنا اسے سرشار کر گیا۔ امریکہ واپس آ کر اس نے یہ سلسلہ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ آج کل وہ ہر اتوار کو اپنے اوزار کی کٹ اٹھائے باہر نکل جاتا ہے۔ اس کا رخ غریب علاقوں کی طرف ہوتا ہے ، جہاں پسماندگی اور غربت کے سائے چھائے ہیں۔ وہ ہر اتوار کم ازکم چھ افراد کی مفت کٹنگ کرتا ہے۔ مارک زیادہ تر بے گھر افراد کی کٹنگ کرتا ہے ،جن کے پاس حجامت کرانے کے پیسے نہیں ہوتے۔ مارک کہتا ہے کہ اسے 
ایک بے گھر شخص کبھی نہیں بھولے گا۔ اس کے سر اور ڈاڑھی کے بال بے ہنگم بڑھے ہوئے تھے، وہ ایک درخت کے نیچے مایوس بیٹھا تھا۔ میں نے اسے کٹنگ کی آفر کی تو اس نے اشارے سے مثبت جواب دیا۔ جب میں نے اس کی سٹائلش کٹنگ کی اور شیو کیا تو چھوٹے آئینے میں اپنا صاف چہرہ دیکھ کر وہ کھل اٹھا۔ اس کی آنکھوں میں زندگی کی چمک آگئی۔ بے اختیار اس نے مارک سے پوچھا کہ کیا وہ اسے کسی قسم کی ملازمت دلوا سکتا ہے۔ اس بے گھر مایوس شخص کے دل میں دوبارہ سے زندہ رہنے کی خواہش نے جنم لے لیا۔ مارک اسے اپنی سب سے بڑی کامیابی سمجھتا ہے۔ نیک دل مارک مفت کٹنگ کے بعد ان لوگوں کو مفت کھانا بھی کھلاتا ہے، اس کا کہنا ہے کہ میں روزانہ سینکڑوں ڈالر کماتا ہوں، چند ڈالر کا یہ کھانا میرے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا، مگر یہ ان لوگوں کے لئے بہت زیادہ اہم ہے،جو دنیا سے مایوس ہوچکے ہوں۔ 
چیریٹی کا جذبہ ہمارے ہاں بھی کم نہیں، انفرادی چیریٹی کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں ممتاز مقام رکھتا ہے، رضاکارانہ جذبے سے کام کرنے والے نوجوان بھی بہت ہیں، انہیں رہنمائی ، مدد اور اخلاقی سپورٹ دینے کی ضرورت ہے۔ تاریک مثالوں کی پاکستان میں کمی نہیں، ایسے ایسے تعفن آلود کردار یہاں مل جاتے ہیں، جنہیں دیکھ کر اچھائی سے یقین ہی اٹھ جائے، نیکی اور خیر پر یقین کرنے والے شفاف کردار بھی مگر کم نہیں۔ انشاء اللہ ایسے مثبت کرداروں کی جھلک انہی کالموں میں پیش کی جاتی رہے گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں