سوال پوچھنے والی زبانیں

کالج کے زمانے میں ہمارے ایک ٹیچر ہوا کرتے تھے۔ نوجوان آدمی تھے۔ نئی نئی ملازمت ہوئی، ہمارے کالج میں ان کی پہلی تقرری تھی۔ ویسے بھی چھوٹے شہروں کے کالج نئے بھرتی ہونے والے استادوں کی ٹریننگ کا کام دیتے ہیں۔ یہاں دو چار سال پڑھا کر، بچوں کا خوب ناس مار کر وہ اپنے آبائی اضلاع واپس چلے جاتے یا پسند کی کوئی اور پوسٹنگ کرا لیتے ۔بات ایسے ہی ایک نوجوان ٹیچر کی ہو رہی تھی۔ انہیں اپنی مبالغہ آمیز تعریف کرنے کا بہت شوق تھا۔وہ اکثر لیکچر کے بعد طلبہ کو سوال پوچھنے کی ترغیب دیتے۔ ہر بار فاخرانہ انداز میں کہتے،'' میرا پڑھانے کا انداز بہت مختلف ہے۔ میں سوال پوچھنے والے طلبہ کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں، بھائی اگر تم لوگ کھل کر پوچھو گے نہیں تو پھر سیکھو گے کیسے؟ دل کھول کر سوال کرو، میں تفصیل سے ہر ایک کا جواب دوں گا۔‘‘ جب کوئی قسمت کا مارا طالب علم کھڑا ہو کر سوال پوچھ لیتا تواستاد محترم کی پیشانی پر بل پڑ جاتے۔ تیکھی نظروں سے اس گستاخ کو گھورتے اور پھر نہایت تیز دھار جملوں سے اس پر حملہ آور ہو جاتے۔ پنجابی میں ''چَوَل‘‘ ایک مشہور لفظ ہے ،کسی کی علمی تحقیر کرنے اور اسے زیرو کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ اس کے لئے یہ لفظ برتا جائے۔ سرائیکی میں اس کی جگہ لفظ ''ـ چبَل ‘‘ استعمال کیا جاتا ہے۔ہمارے ٹیچر کا ایک پسندیدہ جملہ ہوتا، ایسا'' چبَل‘‘ قسم کا سوال میں نے پہلی بار سنا ہے۔ جس نے سوال پوچھا ہوتا ، وہ بے چارہ کھسیانا سا ہو کر بیٹھ جاتا۔ 
بیس بائیس سال گزر گئے، ہمارے وہ ٹیچر معلوم نہیں آج کل کہاں ہوں گے۔ آج کل میڈیا میں ہمارے ان استاد جیسا رویہ عام نظر آ رہا ہے۔ بڑے بڑے جغادری لکھنے والے اور اپنی گفتگو سے لاکھوں کو سحر زدہ کر دینے والے کم وبیش اسی انداز سے تلملا رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جنہیں ایک زمانے میں یہی شکوہ تھا کہ ہماری قوم ہر بات کو سر جھکا کر تسلیم کر لیتی ہے، یہ بغاوت نہیں کرتی، سوال نہیں اٹھاتی، غلط کو غلط نہیں کہتی۔ آج جب حالات بدل گئے تو ان سے نئی حقیقت تسلیم نہیں ہو رہی۔ اب ان کا بنیادی شکوہ یہی ہے کہ لوگ گستاخ ہوگئے ہیں، فضول سوال کرتے اور زبان چلاتے ہیں۔ کبھی وہ قارئین اور ناظرین پر زبان درازی کا الزام دھرتے ہیں تو کبھی انہیں یہ شکوہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کو تربیت کیوں نہیں دیتیں۔ وہ اپنے حامیوں، ووٹروں کو یہ کیوں نہیں سمجھاتیں کہ اس مملکت خداداد میں تجزیہ کار اور اینکر حضرات ہر قسم کی تنقید سے بالاتر ہوتے ہیں، ان پر کوئی الزام لگا سکتا ہے نہ سوال پوچھ سکتا ہے۔ یہ تو قطعی طور پر نہیں پوچھا جا سکتا کہ جب آپ غیر جانبداری کا دعویٰ کرتے ہیں تو ہمیشہ صرف ایک ہی پارٹی کی حمایت اور اس کی مخالف جماعت میں کیڑے کیوں نکالتے ہیں؟ غیر جانبداری تو دونوں سے ایک سا سلوک کرنے کا سبق دیتی ہے۔ یہ لوگ تمام تر الزام سوشل میڈیا پر دھرتے ہیں۔ انہیں یہ شکوہ ہے کہ کچھ بے نام لوگ ان کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں، مگر ان کا زن بچہ کولہو میں پلوایا نہیں جا سکتا کہ خفیہ ادارے انہیں ٹریس کرنے میں مدد نہیں کرتے۔ گویا ہمارے حساس اداروں کا اصل کام ٹی ٹی پی اور دوسرے دہشت گرد گروپوں کا پیچھا چھوڑ کران جغادری میڈیا پرسنز پر تنقید کرنے والوں کا محاصرہ کرنا ہے۔ 
سوشل میڈیا ، ای میلز اور ٹیکسٹ میسجز سے ہونے والی تنقید سے نالاں افراد کو دو تین گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک تو وہ لوگ ہیں، جو کسی خاص جماعت کے دل وجاں سے حامی اور میڈیا میں اس کی ترجمانی کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ان میں کئی قابل احترام نام بھی موجودہیں۔ ان کی نیک نیتی اور اخلاص پر شک کرنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں۔ یہ لوگ یقیناً پوری دیانت داری اور نظریاتی بنیادوں پر اس جماعت کے حامی بنے ہوں گے، مگر یہ حقیقت ہے کہ ان کی یہ حمایت ان کی تحریروں اور پروگراموں پر بری طرح اثرانداز ہوتی ہے۔ وہ نہ صرف جانبدار ہوچکے ہیں بلکہ توازن بھی کھو چکے ہیں، جو صحافت کا بنیادی تقاضا ہے۔مصیبت یہ ہے کہ اس سامنے کی حقیقت کو وہ تسلیم نہیں کرتے۔ اپنے طرز عمل کا وہ شدت سے دفاع کرتے بلکہ غیر جانبداری کی اصطلاح کو ہدف تنقید بناتے ہیں، ان کے خیال میں دنیا کا کوئی بھی شخص غیر جانبدار نہیں کہ اس کی کوئی نہ کوئی رائے تو ضرور ہوگی۔ان کی یہ بات اس لئے غلط ہے کہ غیرجانبداری کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کسی ایشو پر پوزیشن ہی نہ لیں یا کسی کی حمایت یا مخالفت نہ کریں۔اصل بات یہ ہے کہ آپ کسی پارٹی کے ترجمان نہ بنیں، 
اس کی سیاسی جنگ میںشامل نہ ہوجائیں۔ غلط کو غلط اور درست کو درست کہیں۔ جن کی حمایت کر رہے ہیں، وہ غلطی کرے تب اس کا بھی محاکمہ کیا جائے، رعایت نہ دی جائے۔ویسے بھی جب کوئی تجزیہ کار کسی سیاسی صورتحال کو حق وباطل کا معرکہ قرار دے کر اپنے تئیں حق کا ساتھی بن جاتا ہے ، تب اسے صحافت سے کچھ عرصے کے لئے دستبردار ہوجانا چاہیے کہ اب وہ اپنی رائے میں انصاف سے کام نہیں لے سکتا۔اس کی تمام تر توانائیاں اپنے ''حق‘‘ کو جتوانے اور اپنی نظر میں ''باطل‘‘ کو ہرانے کے لئے صرف ہوں گی۔جنگ کی اپنی اخلاقیات ہوتی ہے، جو صحافتی اخلاقیات سے بہت مختلف بلکہ گاہے متضاد بھی ہوتی ہے۔ان لوگوں میں سے اگر کوئی کسی قسم کی حکومتی یا غیر حکومتی مراعات لے رہا ہے ، تب لازمی بات ہے شکوک بڑھ جائیں گے۔
تجزیہ کاروں کا دوسرا حلقہ ایسا ہے جوزعم پارسائی یا خبط عظمت میں مبتلا ہے۔ اللہ نے ان کی تحریروں اورگفتگو میں برکت عطا کی، سماج میں انہیں بھرپور پذیرائی ملی،اس سے وہ خود کو تنقید سے بالاتر سمجھنے لگے۔انگریزی میں ایسے لوگوں کے لئےLarger Than Life کی دلچسپ اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ بہت سے امور میں ان کی رائے معتدل اور پختہ رہی، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہر جگہ پر درست ہیں یا ان کے پڑھنے یا سننے والے ہر ایشو میں ان کی بات کوحرف آخر سمجھیں۔ ان میں سے بعض کو یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ کسی خاص لیڈر نے ان کی رائے سے اختلاف کی جرات کیسے کی، یہ گستاخی بھی ا نہیں برہم کر دیتی ہے۔ 
اس سے انکار نہیں کہ سوشل میڈیا ہمارے سماج میں ایک نیا اضافہ ہے، لوگ ابھی اس کی اخلاقیات سیکھ رہے ہیں، کچھ لوگ ، خاص طور پر نوجوان زیادہ جذباتیت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔فیک آئی ڈیز بھی یہاں عام ملتی ہیں ، مگر میرا مشاہدہ ہے کہ بے شمار لوگ اپنے اصلی ناموں اور اصلی تصویروں سے موجود ہیں۔ہاں ان کے انداز میں جارحیت در آئی ہے، زبان میں کڑواہٹ اور لہجہ کاٹ دار ہے،مگراس کا ذمہ دار صرف انہیں ٹھیرانا درست نہیں۔ جس قوم کے ساتھ اتنے دھوکے ہوئے ہوں، اس کے نوجوان شکی اور زود حس تو ہوں گے۔ چند ایک ایسے بھی مل جاتے ہیں جو معمولی اختلاف رائے پر لفافہ لینے کا الزام لگا دیتے ہیں۔ پچھلے پانچ سال کے دوران سوشل میڈیا پر میں بہت متحرک اور فعال رہا ہوں۔ میرا تجربہ تو مجموعی طور پرخوشگوار ہی رہا۔ میں نے دیکھا کہ اگر تجزیہ کار اپنے فیس بک صفحات اور ای میلز کے ذریعے اپنے نقطہ نظر کو وضاحت سے پیش کریں ، اپنے پڑھنے والوں کی بات تحمل سے سنیں، سوالات کے جوابات دیں تو پھر شدت ازخود کم ہوجاتی ہے۔ویسے بھی قارئین یا ناظرین کے شدید ردعمل سے شاکی لکھنے والے ہوں یا بولنے والے حضرات، ان میں سے کئی بلکہ سچ تو یہ ہے کہ زیادہ تر توازن اور اعتدال کا دامن چھوڑ بیٹھے ہیں۔ ان پر تنقید بلاوجہ نہیں، ہاںناقدین کو شائستگی ہر حال میں ملحوظ رکھنی چاہیے۔ یہ البتہ ہم سب میڈیا والوں کوسمجھنا چاہیے کہ دنیا بدل گئی ہے۔ قاری اور ناظر کو اب نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں ہم نے ٹھوکر کھائی، وہاں سوال اٹھیں گے، تنقید تو ہوگی۔ برداشت کرنے کا ہنرتو سیکھنا پڑے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں