واپسی

چند دن پہلے ایک ڈسکشن فورم پر ایک سینئر صحافی نے وزیراعظم نواز شریف کے بارے میں کہا کہ وہ ٹف سروائیور( Survivor ) ہیں، مشکل حالات سے نکل آتے ہیں، دھرنے کی خطرناک پوزیشن سے بھی بچ نکلے ہیں۔ میاں صاحب کے بارے میں یہ بات کئی لوگ کہتے ہیں۔ ان کا قومی سیاست میں تیس برسوں سے موجود ہونا اور تین بار وزیراعظم بن جانا اس کی ایک دلیل بھی ہے۔ ویسے حالیہ کرائسس ابھی ختم نہیں ہوا اور حتمی رائے نہیں دی جا سکتی ، کیونکہ ایک رائے یہ بھی ہے کہ میاں صاحب کا جانا ٹھیر گیا ہے، بات صرف وقت کی ہے ۔ جلد یاتھوڑا دیر سے، یہ بات میاں صاحب کا طرز عمل طے کرے گا۔
میاں صاحب کی طرح عمران خان کے بارے میں بھی ایک بات کہی جاسکتی ہے کہ ان میں بائونس بیک کرنے کی زبردست صلاحیت موجود ہے۔ وہ انتہائی نچلی سطح تک پہنچ کر بھی ایک جھٹکے سے دوبارہ ٹاپ پر آ سکتے ہیں۔ ان کی جماعت کے ساتھ دو بار ایسا ہوچکا۔ تجزیہ کار97ء کے انتخابات کے بعد اپنی دانست میں تحریک انصاف کو دفنا کر اس کی قبرکے اوپر گھاس بھی اگا چکے تھے کہ عمران خان دوبارہ زندہ ہوگئے۔ ڈکٹیٹر کے ریفرنڈم کی حمایت کی بدترین غلطی انہوں نے کی، اس کی تلافی بعد میںمشرف کے خلاف تحریک چلا کر کرتے رہے۔کئی لوگ اس وقت عمران کی عقل پر ماتم کرتے پائے گئے کہ جب مشرف انہیں وزیراعظم یا کوئی اور عہدہ دینا چاہتے تھے ، تو وہ پیچھے کیوں ہٹ گئے؟ عدلیہ کی بحالی کی تحریک میں عمران خان نے نوجوانوں کو متحرک کرنے کی کوشش کی اور اسی سلسلے میں پنجاب یونیورسٹی میں گرفتار بھی ہوئے۔ چند دنوں کے لئے جیل میں بھی رہنا پڑا۔ عمران نے اپنی کتاب میں اس واقعے کواپنی زندگی کا اہم موڑ قرار دیتے ہوئے اسے شروع میں بیان کیا۔ اس کے بعد تحریک انصاف میں کسی حد تک جان پڑگئی۔ ججوں کی بحالی کے لئے شروع کئے گئے لانگ مارچ میں وہ راولپنڈی میں موجود تھے ،مگر وہ مارچ گوجرانوالہ سے آگے نہ گیا۔ تحریک انصاف ان دنوں تانگہ پارٹی ہی سمجھی جاتی تھی۔ ون مین پارٹی ،جس کے صوبائی صدور اور سیکرٹری جنرل تک کو کو ئی نہیں جانتا تھا۔ صرف عمران خان ہی تھے ، جو ٹی وی ٹاک شوز میں اپنے بڑے بڑے ہاتھ لہراتے،پیشانی پر بل ڈالے ، سرخ تمتماتے چہرے کے ساتھ تند وتیز بحث کرتے نظر آتے۔ سٹیٹس کو کی مخالفت کرتے، اس گلے سڑے نظام پر حملے کرتے ۔وہ نجانے کب لوگوں ،خاص کر نوجوانوں کے دل میں سما گئے۔ تیس اکتوبر 2011ء کو لاہور میں ہونے والے غیرمعمولی جلسے نے انہیں اچانک ہی سپرسٹار بنا دیا۔مختلف حلقوں کے روایتی سیاست دان جنہیں الیکٹ ایبلزکہا جاتاہے، ان میں سے کچھ لوگ تحریک انصاف کی جانب متوجہ ہوئے۔ مسلم لیگ ن کے حامی الزام لگاتے ہیں کہ تحریک انصاف کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ تھا، جنرل ریٹائر شجاع پاشا کو اس حوالے سے مورد الزام ٹھیرایا جاتا ہے۔بات اس کے برعکس صرف اتنی تھی کہ لوگ بڑی شدت سے یہ محسوس کر رہے تھے کہ چاروں طرف چھائے استحصالی نظام سے چھٹکارے کا کوئی راستہ نہیں۔ عوام ہمیشہ متبادل کے لئے اپوزیشن کی طرف دیکھتے ہیں۔ میاں نواز شریف کے فرینڈلی اپوزیشن والے سٹائل نے مسلم لیگ ن کو سٹیٹس کو کی علمبردار جماعت بنا دیا۔تبدیلی کے خواہش مند یہ لوگ تحریک انصاف کی جانب لپکے، جس کے ناتجربہ کار ، مگرپٍُرجوش اور جذباتی لیڈر نے اس خلا میں قدم رکھا تھا۔ اس نے وہی نعرہ لگایا، جو لوگ چاہتے تھے۔ تحریک انصاف کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ عمران خان کا تبدیلی کا نعرہ اور روایتی نظام میں تبدیلی لانا تھا۔ یہ تحریک انصاف کا نقطہ عروج تھا۔ تحریک انصاف اپنی اس قوت کو کیوں نہ مجتمع کر پائی، پارٹی الیکشن کے غیر دانشمندانہ فیصلے نے کتنا قیمتی وقت اور توانائی ضائع کی، الیکشن کے لئے موزوں امیدوار کیوں نہ ڈھونڈے جا سکے... یہ سب ایک طولانی داستان ہے، اس پر بہت بار بات ہوچکی، ویسے بھی یہ سب اب ماضی کا حصہ ہے۔ 
تحریک انصاف کے پرجوش حامی اسے پسند نہیں کریں گے، مگر میری ذاتی رائے میں پچھلے سال مئی کے الیکشن میں تحریک انصاف کی شکست کے پیچھے ان کی اپنی غلطیوں کا بھی بڑا حصہ ہے۔ وہ نہایت آسانی سے بیس پچیس مزید نشستیں جیت سکتے تھے، اگر امیدوار بہتر ہوتے اور الیکشن ڈے پر ہونے والی روایتی قسم کی دھاندلی روکی جا سکتی۔شروع میں عمران خان پچیس نشستوں پر دھاندلی کی بات کرتے تھے، اس میں کسی حد تک وزن لگتا تھا۔ لاہور میں کم از کم تین چار نشستیں وہ جیت چکے تھے۔ ان کی اپنی نشست، حامد خان کی نشست اوراین اے 118کے حلقوں میں الیکشن ڈے پر یوں محسوس ہو رہا تھا کہ تحریک انصاف کی جیت یقینی ہے، نتائج البتہ مختلف آئے۔تحریک انصاف کے پُرجوش ساتھی تو خیر ن لیگ کو ایک نشست بھی دینے کو تیار نہیں ہوں گے، میرا اندازہ تھا کہ وہ نوے سو نشستیں جیت لے گی۔ جو 
نتائج آئے، وہ ہمارے لئے بھی حیرت انگیز تھے۔ عمران نے دھاندلی کا ایشو اٹھایا، ان کا حق تھا۔ انہوں نے الیکشن ریفارمز کے مسئلے کو نیشنل ایجنڈا بنا دیا، یہ ان کا بہت اہم کنٹری بیوشن تھا۔ اس مسئلے پر البتہ انہوں نے جس انداز میں دھرنا دیا، وہ غلط تھا، اس کا دفاع کرنا بھی ممکن نہیں۔عمران خان اسلام آباد ڈیڑھ دو لاکھ لوگ لے جانا چاہتے تھے،اگر وہ ایسا کر پاتے تو یقیناً آج اسلام آباد کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔ مجھے خوشی ہے کہ تحریک انصاف کے اپنے حامیوں نے اسے پسند نہیں کیا اور ساتھ نہ دیا۔ اس طرح اسلام آباد پر چڑھائی کر کے طاقت کے سہارے وزیراعظم کو بدل دینا نہایت خطرناک ٹرینڈ تھا۔ عمران خان بمشکل پانچ ہزار افراد کے ساتھ اسلام آباد داخل ہوئے۔ ان کے دھرنے میں بتدریج لوگ آئے ،مگر وہ مقامی اجتماع تھا،پنڈی ، اسلام آباد کے دس پندرہ ہزار کے قریب لوگ روزانہ شام کو جمع ہوجاتے۔ 
عمران خان کا دھرنااور مارچ حکمت عملی ناکام ہوئی۔ تحریک انصاف سے ہمدردی رکھنے والوں کو خطرہ تھا کہ یہ ناکامی تحریک انصاف کے لئے بڑا بوجھ ثابت ہوگی اور وہ اس کے تلے دب جائے گی۔ عمران خان کے بارے میں یہ تاثر بن رہا تھا کہ ان کا دھرنا ان کی سیاسی خودکشی ثابت ہوگا۔ پی ٹی آئی سے ہمدردی رکھنے والے کئی لوگ ہمیںای میلز اور ٹیکسٹ میسج بھیجتے کہ میڈیا والے عمران خان کے غلط فیصلوں پر تنقید کریں تاکہ وہ بلنڈر نہ کرپائے۔ ان لوگوں کی مجبوری یہ ہے کہ اس وقت عمران ان کی واحد امید ہے۔ عمران کے سوا پورے سیاسی نظام میں کوئی ایسا شخص یا جماعت نہیں، جو سٹیٹس کو کو چیلنج کرے اور وہ موجود سسٹم میں تبدیلی لانے کی قوت رکھتی ہو۔ جماعت اسلامی کا ایجنڈادرست ہے، وہ الیکشن ریفارمز سے بھی آگے بڑھ کر الیکشن سسٹم بدلنے کی بات کر رہے ہیں، متناسب نمائندگی پر انتخابات کی بات کرنا بہت اہم ہے۔ الیکٹ ایبلز سے نجات پانے، ہر حلقے پر کروڑوں روپے کے خرچ کے خاتمے کا واحد طریقہ متناسب نمائندگی ہے۔ افراد کے بجائے پارٹی کے نام اور نشان کو ووٹ پڑے۔ جماعت اسلامی کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کا حلقہ محدود ہے، بڑے پیمانے پر اسے پزیرائی حاصل نہیں۔ تحریک انصاف میں یہ پوٹینشل موجود ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ عمران خان سے شاکی لوگ بھی اس کی حمایت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ 
لاہور کے جلسے میں عمران خان کے ایسے ہی حامیوں نے کرشمہ کر دکھایا ہے۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ خان واپس آیا ہے اور انگریزی محاورے کے مطابق اس کی واپسی زوردار دھماکے کے ساتھ ہوئی ہے۔ کراچی کے جلسے نے تحریک انصاف میں جان ڈال دی تھی، لاہور نے پارٹی کو دوبارہ اکتوبر2011ء کی پوزیشن پر لا کھڑا کیا۔ عمران خان پوری طاقت کے ساتھ واپس آئے ہیں۔وہ دوبارہ بارگیننگ پوزیشن میں آ گئے ہیں۔ انہوں نے ثابت کر دیا کہ ان کی جماعت ملک کی اہم ترین سیاسی قوت ہے۔ لاہور میں اتنا بڑا جلسہ کرنا کسی بھی اور جماعت کے بس کی بات نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان اس قوت کو کس طرح استعمال کرتے ہیں؟ کیا وہ دوبارہ اسے دھرنے یا استعفے کے لاحاصل مطالبے میں ضائع کرتے ہیںیا اس نئے موقع کو ملک گیر بیداری کی سیاسی تحریک میں تبدیل کرتے ہیں؟ وہ اصلاحات کی بات منواتے ، شفاف بلدیاتی انتخابات کے ذریعے گراس روٹ لیول پرسرائیت کرتے ہیں یا پھر شارٹ کٹ اپناتے ہیں؟ فیصلہ ان کے ہاتھ میں ہے، خبر مگر یہی ہے کہ عمران خان کی پوری قوت کے ساتھ واپسی ہوگئی ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں