نیا تناظر، نئے حقائق

بات بڑی سادہ ہے۔ وہی پرانا سوال کہ آخر یہ مختلف عوامی طبقات میں اتنا ابال کیسے آ گیا؟ عمران خان کو اس قدر بڑے پیمانے پر سپورٹ کیوں مل رہی ہے؟ غلطیوں کے باوجود لوگ اس کی طرف کیوںکھنچے چلے جا رہے ہیں؟ اسلام آباد میں دھرنے ناکام رہے یا کامیاب... اس حوالے سے مختلف آرا ہو سکتی ہیں۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں کا اصرار ہے کہ اگرچہ دھرنوں کے شرکا کی تعداد غیرمعمولی نہیں رہی، پھر بھی اسے ناکام نہیں کہنا چاہیے کہ وہاں ہونے والی تقریروں نے ملک بھر میں سیاسی بیداری اور شعور کی ایک ایسی طاقتور لہر پیدا کر دی، جس کے اثرات عمران خان کے کراچی اور لاہور میں ہونے والے جلسوں میں محسوس ہوئے ہیں۔ اس بات میں کسی حد تک وزن ہے مگر مارچ اور دھرنے پر اس لئے تنقید کی جاتی رہی کہ جس نعرے اور مقصد کو لے کر یہ سب کیا جاتا رہا، وہ پورا نہ ہوا اور اس دبائو کے تحت جو ریفارمز ہو سکتی تھیں، انہیں حاصل کرنے کے لئے سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ یہ مگر حقیقت ہے کہ چودہ اگست کے بعد سے شروع ہونے والے اس سیاسی شو نے پورا قومی سیاسی منظرنامہ ہی بدل ڈالا۔ جن ریٹائرمنٹس کا چرچا تھا، وہ بھی ہو گئیں مگر تحریک انصاف کی سیاسی قوت کو ضعف نہیں پہنچا، الٹا دھرنے والی سیاست اسلام آباد سے نکل کر دوسرے شہروں تک پھیل رہی ہے۔
عمران خان کے گرد جمع ہونے والے لوگوں، خاص طور پر پڑھے لکھے، خوشحال طبقات سے تعلق رکھنے والوں کے حوالے سے ہمارے ایک دوست نے چند دن پہلے دلچسپ تھیسس پیش کیا۔ انہوں نے لکھا، ''اصل میں یہ لوگ اقتدار میں حصہ چاہتے ہیں، ورنہ انہیں نظام نے مایوس نہیں کیا، یہ خاصا کچھ حاصل کر چکے ہیں۔ اختیار اور اقتدار میں حصہ لینے کی خاطر یہ لوگ سرگرم ہیں، انہیں غصہ ہے کہ اقتدار پر روایتی اہل سیاست نے قبضہ کر رکھا ہے اور ان کے لئے جگہ نہیں بن رہی‘‘۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ غیر ضروری مباحث کا حصہ نہ بنا جائے۔ ہر ایک کی اپنی رائے ہوتی ہے، جو اس کی افتاد طبع، سوچ اور تجزیے کے پیش نظر قائم کی جاتی ہے۔ ان محترم تجزیہ نگار کے تھیسس کے جواب میں اپنی رائے اس لئے پیش کرنی پڑی کہ ہمارے رائے میں یہ اہم فکری مغالطہ تھا اور اس سے تبدیلی کی خواہش رکھنے والوں، اس کے لئے کھڑے ہونے والوں کی تحقیر کا پہلو نکلتا تھا۔ گزشتہ روز انہی تجزیہ نگار نے اپنی رائے کو دوبارہ دہرایا، اس اصرار کے ساتھ کہ تجزیہ کو غیر جذباتی ہونا چاہیے۔ بقول ان کے تجزیہ جذباتی شاعری نہیں ہوتا۔ غالباً یہ کہنا مقصود تھا کہ تحریک انصاف کے حامیوں کو ہدف بنانا سنجیدہ تجزیہ تصور کیا جائے اور اس حوالے سے دوسرا نقطہ نظر سامنے لانا جذباتی شاعری یعنی ناقص تجزیہ قرار پائے گا۔ کالم کے شروع میں جس سوال کا ذکر کیا، وہ بڑا اہم ہے۔ اس کا تجزیہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس کے اثرات ہماری سیاسی تاریخ اور پاکستانی سماج پر مرتب ہوں گے۔ اس لئے اپنے نقطہ نظر کو مزید تفصیل سے بیان کرنے کی کوشش کر رہا ہوں؛ تاہم خاکسار کی جانب سے اس موضوع پر یہ آخری تحریر تصور کی جائے، دوستوں کے ساتھ جواب در جواب کی بحثوں میں الجھنا ویسے بھی مناسب نہیں۔ 
بات بہت سادہ ہے، اقتدار یا اختیار میں حصہ لینے کی خواہش بری نہیں، تمام سیاسی جماعتیں یہی کرتی ہیں۔ نظریاتی سوچ رکھنے والی جماعتیں بھی الیکشن میں حصہ لیتی ہیں تاکہ اقتدار میں آ کر اپنے منشور پر عمل درآمد کرا سکیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری حکمران اشرافیہ خود غرضی اور بے حسی کے انتہائوں پر ہے۔ سیاسی طاقت بھی چند گھرانوں تک ہی محدود ہے۔ چند درجن روایتی الیکٹ ایبلز کے گرد پوری انتخابی سیاست گھومتی ہے۔ ہمارے سیاستدان جمہوریت کا نام لیتے ہیں، مگر عملاً اپنی پارٹی میں جمہوریت نافذ کرتے ہیں‘ نہ ہی وہ ملک میں جمہوری کلچر پیدا کرنے کے خواہاں ہیں۔ جمہوریت کی پہلی سیڑھی بلدیاتی انتخابات کرانے کو کوئی تیار ہی نہیں۔ یہ تمام باتیں اصولی طور پر درست ہیں مگر ان کا یہ قطعی مطلب نہیں کہ جو لوگ تبدیلی لانے کی خواہش لے کر گھر سے نکلے ہیں، جو اس نظام کو بدلناچاہتے ہیں، وہ دراصل اقتدار و اختیار میں حصہ چاہتے ہیں۔ یہ بھی خوش فہمی ہے کہ اگر بلدیاتی انتخابات کرا دیے جائیں تو عمران خان کے گرد موجود بھیڑ چھٹ جائے گی اور یہ لوگ تبدیلی کے نعرے کو بھول بھال، جھپٹ کر بلدیاتی اداروں میں جا گھسیں گے۔ بلدیاتی انتخابات زیادہ دور نہیں، چند ماہ میں تینوں صوبائی حکومتوں کو کرانے پڑیں گے۔ اسی روایتی سٹرکچر اور سالخوردہ سسٹم کے تحت ہونے والے انتخابات تبدیلی چاہنے والوں کی تشفی نہیں کر سکتے۔ تبدیلی کی خواہش‘ اس کے لئے جدوجہد کرنے کی ضرورت اسی طرح موجود رہے گی۔ 
ایک بات جس کا ہمارے تجزیہ نگاروں کو اندازہ نہیں ہو رہا یہ ہے کہ اس بار تبدیلی کی خواہش شدید ہے، لوگ پچھلے کئی عشروں میں ہونے والے سیاسی ڈراموں سے تنگ آ چکے ہیں۔ وہ جوہری تبدیلی چاہتے ہیں، ایسی تبدیلی، جس سے ان کا ملک، اس کا سسٹم، ریاستی ادارے بہتر ہو جائیں، جہاں وہ اور ان کی اگلی نسلیں زیادہ سکون سے زندگیاں بسر کر سکیں۔ لوگ اس لئے باہر نہیں نکل رہے کہ اقتدار کے کیک کے چند ٹکڑے یا ریزے ان کے حلق میں بھی چلے جائیں۔ ہمارے اچھے بھلے سنجیدہ تجزیہ کار بھی یہ نیا تناظر اور حقائق نہیں سمجھ پا رہے۔ ویسے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ عوامی جدوجہد کبھی اقتدار کے لئے نہیں ہوتی۔ وہ ہمیشہ آئیڈیلز اور اعلیٰ اخلاقی اصولوں (High Morals) کی برتری کے لئے ہوتی ہے۔ نظریاتی تحریکیں اصولوں کے لئے اٹھائی اور چلائی جاتی ہیں، اقتدار اس کے نتیجے میں مل بھی جائے تو وہ ان اصولوں پر عمل درآمد کرنے کیلئے ایک ہتھیار، ٹول کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اقتدار میں حصہ بھی ظاہر ہے پارٹی کے کچھ سرگرم لوگوں کو ملتا ہے۔ ان کے باقی حامی، کارکن، ووٹر یہ قربانیاں اجتماعی فائدے اور ملک گیر بہتری کے لئے دیتے ہیں۔ عوامی جدوجہد کبھی صرف اقتدار کے لئے نہیں ہوتی، اس کے لئے ڈرائنگ روم پالیٹکس یا محلاتی سازشیں اور جوڑ توڑ بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ کوئی لیڈر عوام کو دھوکا دے رہا ہو، 
خواب دکھا رہا ہو، بعد میں وہ توقعات پر پورا نہ اتر سکے، سپنے شرمندہ تعبیر نہ ہوں، مگر اس میں قصور اس لیڈر کا ہوتا ہے، عوام تو پورے خلوص، جذبے اور ایثار کے ساتھ جدوجہد کرتے ہے۔
بات کو واضح کرنے کے لئے ایک سادہ سی دیہاتی ٹائپ مثال دیتا ہوں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ الیکشن لڑنا کوئی برائی نہیں، یہ جمہوری اور سیاسی کلچر کا حصہ ہے۔ اس کے باوجود کسی دیہہ، قصبے یا شہر کے کسی محلے میں کوئی شخص ویلفیئر کے کام کرنا شروع کر دے، لوگوں کے چھوٹے موٹے مسائل حل کرنے میں وہ متحرک ہو تو کئی لوگ یہ شک ظاہر کرتے ہیں کہ کہیں یہ الیکشن تو نہیں لڑ رہا۔ یہ خیال سامنے آتے ہی اس شخص کا تمام کیا کرایا فوراً صفر ہو جاتا ہے‘ حالانکہ ہمارے سماج میں الیکشن لڑنے میں کوئی برائی نہیں، یہ عام بات ہے، مگر الیکشن لڑنے کی نیت رکھنے والے کے عوامی خدمت کے منصوبوں پر شک ہو جاتا ہے، اس کی نیت اور بے لوث جذبہ مشکوک ہو جاتا ہے۔ جو تجزیہ نگار تبدیلی کی نیت سے باہر آنے، تحریک انصاف کو سپورٹ کرنے والوں پر اقتدار اور اختیار میں حصہ لینے کی خواہش رکھنے کی تہمت دھرتے ہیں، وہ دانستہ یا نادانستہ ان کی تمام قربانیوں اور جدوجہد کو صفر کرنا چاہ رہے ہیں۔ اگر یہ تھیسس مان لیا جائے تو پھر خود کو انقلابی کہلانے والے اس گروہ کا امتیاز ہی ختم ہو جاتا ہے۔ اقتدار اور اختیار میں اپنا حصہ لینے والے فرد کی جدوجہد کی کس قدر اعلیٰ اخلاقی حیثیت باقی رہتی ہے؟ اپنا حصہ لینے کے لئے لڑنے والے کو کون انقلابی کہے گا؟ ملک میں چھائے گلے سڑے، بدبودار سسٹم کے خلاف کھڑے ہونے، سٹیٹس کو کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کے بارے میں ایسی بات کہنا‘ ان کے جذبے کی توہین اور انہیں گالی دینے کے مترادف ہی ہے‘ اور بعض اوقات گالیاں ان ڈائریکٹ بھی تو دی جاتی ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں