قربانی

یہ کوئی بیس بائیس برس پہلے کی بات ہے، ان دنوں کراچی میں مقیم تھا۔ کیا مزے کے دن تھے، ویسی فرحت اور آسودگی دوبارہ کم ہی ملی۔ زمانہ طالب علمی تھا، طلبہ یونین کی لڑائیاں عروج پر تھیں، لا کالج مہینوں بند رہتا، یونیورسٹی کا بھی کم و بیش یہی حال تھا۔ ہمارے لئے آسانی تھی کہ صبح اٹھے‘ شولڈر بیگ کندھے سے لٹکایا اور باہر نکل گئے۔ کینٹ اسٹیشن کے قریب پاک امریکن کلچرل سنٹر کے سامنے بلدیہ کی لائبریری تھی، غالباً لیاقت لائبریری۔کیا خوبصورت جگہ تھی، کتابیں پڑھنے کے لئے کشادہ ہال، لکڑی کی دیدہ زیب بنچیں، باہر رنگارنگ پھولوں کے تختے، سرسراتی ہوائیں۔ شناختی کارڈ رکھوا کر دو کتابیں ایشو ہو جاتیں۔ وہیں بیٹھ کر گھنٹوں پڑھا کرتے۔ راجندر سنگھ بیدی کی کلیات، ہاجرہ مسرور، منٹو کی کلیات، عصمت، غلام عباس... ان سب کے مکمل کام کو انہی دنوں پڑھنے کا موقع ملا۔ کرشن چندر کو بھی تفصیل سے پڑھا اور پہلی بار اندازہ ہوا کہ ایک بڑے ادیب کو ترقی پسند تحریک نے کیسے برباد کر دیا۔ ان کی توانائی کا بڑا حصہ پروپیگنڈا ادب لکھنے میں صرف ہوا، جو سراسر آورد تھا۔ ہم قانون کے طالب علم تھے، مگر حرام ہے کہ کبھی کسی قانون کی کتاب کو ہاتھ لگایا ہو، فکشن، شاعری، مزاح، تراجم ہی پڑھتے رہتے۔ کسی روز ہمت کر کے انگریزی ناول اٹھا لیتے، اسے پڑھنے کا اپنا مزا تھا، مگر وہ کم بخت تین چار دن لے جاتا، اردو کی کتابیں تو ایک ہی نشست میں پڑھی جاتیں۔ بھوک ستاتی تو اٹھ کر قریب ہی واقع ہوٹلوں کا رخ کرتے۔ آج کل کا معلوم نہیں، ان دنوں وہاں کئی ہوٹل تھے، جہاں پر دو گرماگرم سموسوں کی پلیٹ، پودینے کی چٹنی سمیت دس روپے میں مل جاتی تھی۔ اس کے ساتھ کڑک چائے کا ایک کپ۔ انسان کو اس سے زیادہ کیا چاہیے۔ جس دن زیادہ وقت گزارا جاتا یا کوئی دوست 
ساتھ ہوتا تو بھنی دال ماش کی پلیٹ، گرماگرم تندوری روٹیاں، باریک لچھے دار پیاز اور کٹی ہری مرچوں کے ساتھ ضیافت اڑائی جاتی۔ اتنے کم پیسوں میں ایسا اچھا کھانا کراچی جیسے غریب پرور شہر ہی میں مل سکتا ہے۔ بعد میں لاہور آئے تو اندازہ ہوا کہ یہاں کراچی کی طرح کے ہر علاقے میں درمیانی سطح کے صاف ستھرے ہوٹل موجود نہیں۔ مہنگے ہوٹل ملتے یا پھر ڈھابے، جہاں صفائی نام کو نہ ہوتی۔ اندرون لاہور البتہ اس حوالے سے کمال ہے۔ وہاں شاندار قسم کے کھانے نہایت سستے داموں مل جاتے۔ آدمی کو بس یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اچھے پائے‘ نہاری، ہریسہ، حلیم، کباب ، چنے اور نان ٹکی وغیرہ کہاں سے ملتے ہیں۔ پھر نہایت کم داموں لاہور کے بہترین کھانے کھائے جا سکتے ہیں۔ 
بات لائبریری سے کھانوں تک چلی گئی۔ لذت زبان کا نشہ ہی ایسا ہے کہ قلم بھی بہک جاتا ہے۔ کراچی میں قیام کے دوران لائبریریاںکھوجنے، پرانی کتابوں کی دکانیں ڈھونڈنے اور ساحل سمندر پر گھنٹوں گزارنے کے علاوہ ایک اور کام بھی دلچسپی سے کیا، وہ تھا بابے ڈھونڈنا... جہاں کسی صوفی بزرگ کی خبر سنتے، دو تین دوست اکٹھے ہو کر وہاں پہنچ جاتے۔ اونچی دکان پھیکا پکوان والا معاملہ بھی ہوا اور تھوتھا چنا باجے گھنا والا محاورہ بھی بیشتر جگہوں پر پورا ہوتے دیکھا۔ ہاں ایک دو ایسے درویشوں سے ملاقاتیں بھی ہوئیں، جن سے سیکھ تو نہیں سکے، مگر ان کی صحبت میں گزارے دن آج بھی معطر یادیں لئے ہوئے ہیں۔ کینٹ اسٹیشن والی سائیڈ پر ایک کالونی تھی۔ وہاں پر ایک صاحب کے گھر ہفتہ وار نشست ہوا کرتی تھی۔ 
انہیں سب مرزا صاحب کہتے۔ درویش آدمی تھے۔ سادہ مگر صاف لباس، سر پر دوپلی ٹوپی، سفید ڈاڑھی۔ نہایت شائستہ اور شیریں زبان۔ پان کھایا کرتے مگر ایسی تہذیب سے پان کھاتے کسی کو نہیں دیکھا۔ جمعرات کو عصر سے مغرب تک نشست ہوتی۔ دلچسپ فکر افروز گفتگو کے ساتھ ساتھ کمال قسم کی چائے بھی ملتی۔ مرزا صاحب زیادہ تر خاموش رہتے، ایک آدھ جملہ کہتے مگر وہ چونکا دینے والا فقرہ ہوتا۔ کبھی کبھار ہی تفصیل سے گفتگو کرتے۔ ایک روز قربانی کے حوالے سے گفتگو جاری تھی۔ شرکائے محفل میں ایک دو نوجوان خاصے پُرجوش انداز میں بول رہے تھے کہ ہمارے ہاں اجتہاد کا کوئی تصور نہیں، قربانی کے حوالے سے نئی سوچ لانے کی ضرورت ہے۔ اربوں روپے اس پر صرف ہو جاتے ہیں، وہ اگر غریبوں میں بانٹ دیے جائیں تو ان کا کس قدر بھلا ہو جائے... وغیرہ وغیرہ۔ یہ لوگ ڈاکٹر غلام جیلانی برق اور غلام احمد پرویز وغیرہ سے متاثر تھے۔
مرزا صاحب تمام وقت چپ چاپ سنتے رہے، پھر یکدم سیدھے ہو کر بیٹھ گئے، پان کا ٹکڑا پیک دان میں پھینکا، کلی کر کے تازہ دم ہوئے اور پھر قدرے تفصیل سے قربانی کے تصور اور اس کی افادیت پر روشنی ڈالی۔ خاصا وقت گزر چکا ہے۔ مجھے تفصیل تو یاد نہیں مگرا ن کے دلائل کا مجموعی تاثر ذہن میں ہے۔ کہنے لگے: ''قربانی دراصل اللہ کی طرف سے اپنے بندے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عظیم ایثار و قربانی کا انعام ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ امتحان میں کامیاب ہوئے، اللہ تعالیٰ کی یہ عظمت اور شان ہے کہ جب اس کے بندے آزمائش میں پورے اتریں تو وہ انہیں انعام بھی دل کھول کر دیتا ہے۔ رہتی دنیا تک جاری رہنے والی قربانی کی رسم بھی اسی انعام کا حصہ ہے۔ اللہ کو گوشت اور خون کی کوئی ضرورت نہیں مگر وہ اپنے بندوں کے تقویٰ اور ان کے اخلاص کو دیکھتا ہے۔ اس لئے بے شک صدقات اور خیرات کے لئے اپنی آمدنی کا ایک حصہ نکالنا چاہیے مگر یاد رکھا جائے کہ وہ قربانی کا متبادل نہیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قربانی کرنے کے بجائے وہ رقم غریبوں میں بانٹ دی جائے، ان کا تصور درست نہیں۔ اللہ کے آخری رسولﷺ سے بڑھ کر صدقات اور خیرات دینے والا کوئی نہیں تھا، ان سے بڑھ کر اس کی اہمیت کو سمجھنے والا کوئی نہیں۔ اس وقت کے مسلمان معاشرے کو خیرات اور صدقات کی آج سے زیادہ ضرورت تھی، اس کے باوجود انہوں نے قربانی کی، اپنے ساتھیوں کو اس کی فضیلت بتائی اور اس کی حوصلہ افزائی کی۔ ویسے بھی جدید معاشیات کے اصولوں کے مطابق قربانی بہت اہم معاشی ایکٹوٹی ہے۔ کیٹل فارمنگ اور لائیو سٹاک کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، اربوں روپے گردش میں آتے ہیں، جانور پالنے سے منڈیوں تک لانے، چارے سے قصائی تک لاکھوں لوگ اس سے مستفید ہوتے ہیں۔ یہ کھالیں لیدر پروڈکٹس میں استعمال ہوتی ہیں، جو پاکستان کی بہت اہم ایکسپورٹ ہے۔ سب سے بڑھ کر ان لوگوں کو گوشت نصیب ہوتا ہے، جو شاید سال بھر اس کے لیے ترستے رہتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک کام البتہ کرنے کی ضرورت ہے کہ جو لوگ عام دنوں میں گوشت آسانی سے کھا سکتے ہیں، و ہ قربانی کے گوشت کے حوالے سے ایثار کریں۔ عام طور پر تین حصے بنائے جاتے ہیں، ایک غریبوں کا، ایک عزیز و اقارب کا اور ایک گھر کے لئے۔ اگر اپنے ایک حصے میں سے بھی ایثار کر کے غریبوں یا پھر ایسے رشتے داروں کے گھر زیادہ گوشت بھیجا جائے، جنہوں نے قربانی نہیں کی تو زیادہ بہتر ہو گا۔ ران عید سے پہلے یا بعد میں بھی لے کر بھون کر کھائی جا سکتی ہے۔ قربانی والے گوشت کی ران سے اگر ان لوگوں کو حصہ مل جائے، جو گوشت سے محروم رہتے ہیں تو اس کی روحانی لذت زیادہ فرحت بخش ہو گی۔ اسی طرح لاکھوں روپے کے حسین بیل اور بکرے خریدنے کے بجائے مناسب جانور خرید کر بقیہ رقم خاموشی سے نادار لوگوں کی مدد میں صرف کی جائے تو کیا مضائقہ ہے۔ بعض لوگوں نے تو یہ دستور بنا رکھا ہے کہ بکرا یا مینڈھا قربان کرنے کے بجائے بڑے جانور میں حصہ ملا لیا اور بکرے کی قربانی کے لئے مختص رقم کا باقی حصہ کسی کی مدد کے لئے رکھ لیا۔ یہ اچھا رواج ہے۔ بڑے جانور کا حصہ بکرے سے تین گنا کم پڑتا ہے، اس طرح قربانی بھی ہو جاتی ہے اور مدد بھی‘‘۔ لاہور آنے کے بعد مرزا صاحب سے رابطہ نہ ہو سکا، چار پانچ سال پہلے کراچی گیا تو معلوم ہوا کہ وہ انتقال کر چکے ہیں۔ ان کی کہی باتیں البتہ آج تک ذہن میں محفوظ ہیں۔ ہر سال قربانی کے موقع پر لاکھوں کے جانور خریدنے اور ان کی تصویریں چھپوانے کی خبریں سنتا ہوں تو مرزا صاحب مرحوم کی اس روز والی گفتگو یاد آ جاتی ہے۔ کاش قربانی کی حقیقی روح ہمارے دلوں میں اجاگر ہو سکے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں