تنہائی کے سات عشرے

اگلے روز ایک نوجوان نے سوال کیا کہ عمران خان کو سرائیکی خطے میں اس قدر پذیرائی کیسے مل رہی ہے؟ اسے حیرت تھی کہ عمران کو زیادہ پذیرائی سنٹرل پنجاب میں ملی ہے، اس کے ووٹ بینک کا بڑا حصہ شہروں میں تصور کیا جاتا ہے،جنوبی پنجاب میں تحریک انصاف کی تنظیم بھی خاصی کمزور ہے، ایسے میں ملتان شہر کیوں اس کے جلسے میں ٹوٹ پڑا؟ یہ بنیادی نوعیت کا سوال ہے۔ ملتان کے تاریخ ساز جلسے نے ہر ایک کو حیران کر دیا۔ ن لیگ والے تو خیر بھونچکا رہ ہی گئے، خود تحریک انصاف کے جیالے بھی حیران رہ گئے۔ ملتان جتنے لوگوں سے بات ہوئی، سب کا یہی کہنا تھا کہ یہ ملتان کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ تھا۔ بڑے جلسوں کی شہرت رکھنے والے بھٹو صاحب سے لے کر محترمہ بے نظیر بھٹو تک یہاں اس سے نصف تعداد کا جلسہ بھی نہیں کر پائے ۔غیرجانبدار اندازے کے مطابق ڈیڑھ دو لاکھ لوگ تھے کہ وسیع وعریض گرائونڈ کچھا کھچ بھر جانے کے باوجودباہر سڑکوں تک لوگ موجود تھے۔ ملتان کے ایک اخبارنویس دوست نے جو عمران خان کا سخت مخالف ہے، عمران خان کی تقریر کے دوران اس نے ٹیکسٹ بھیجا کہ اس سے بڑا جلسہ اس نے اپنی پچیس سالہ رپورٹنگ کی زندگی میں نہیں دیکھا۔ کہنے لگا ،'' بدانتظامی بھی انتہا کی تھی اور لوگوں کی شمولیت بھی حیران کن تھی۔ مزے کی بات یہ کہ تمام لوگ اپنے شوق سے اور اپنے انتظام سے پہنچے ۔مقامی تنظیم تو ٹرانسپورٹ کا بھی مناسب انتظام نہیں کر پائی۔‘‘رات گئے اس نے میسج کیا کہ بھگدڑ کے ہولناک سانحے کا تحریک انصاف کو نقصان پہنچے گاکیونکہ اس میں انتظامیہ کی نااہلی کے ساتھ ان کی بدانتظامی کا بھی ہاتھ تھا، مگر ملتان کا یہ جلسہ جنوبی پنجاب کی سیاست کا گیم چینجر ثابت ہوگا۔ جس طرح لاہور کی فتح پنجاب کی مجموعی فتح کے راستے کھول دیتی ہے، اسی طرح ''تخت ملتان‘‘کی فتح پورے سرائیکی وسیب تک رسائی اور وہاں کامیابی ممکن بنا دیتی ہے۔‘‘
اتوار کی صبح ایک جنازے میں شرکت کے لئے گیا۔واپسی پر کچھ دوستوں کے ساتھ گپ شپ چلی، وہ بھی پوچھنے لگے کہ ملتان میںعمران خان نے کیا جادو دکھایا کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ نکل آئے۔ میں نے انہیں جواب دیا کہ تم نے سرائیکی علاقے دیکھے نہیں، وہاں چند دن گزار و تو معلوم ہوجائے گا کہ خوابوں کی سب سے زیادہ ڈیمانڈ سرائیکیوں میں ہے۔ اپنی حالت بدلنے، اسے سنوارنے اور اگلی نسل کی زندگی خوبصورت بنانے کی جس قدر خواہش ایک سرائیکی کے دل میں بسی ہے، اس کا اندازہ دوسرے نہیں کر سکتے۔ عمران خان کی اس پذیرائی میں اس کے شخصی سحر کا بھی عمل دخل ہے ،مگر اس کے تبدیلی کے نعرے اور تحریک انصاف کی مخالف جماعتوں کی بدترین ناکامی نے سب سے اہم کردار ادا کیا ہے۔ پیپلز پارٹی تو اپنی انتہائی ناقص کارکردگی اور سابق وزیراعظم گیلانی کے ''کارناموں ‘‘کے باعث سرائیکیوں کے دلوں سے اتر چکی ہے۔ سرائیکی عوام نے ہمیشہ پیپلزپارٹی کو ووٹ دیا، اسے بھارتی تعداد میں نشستیںجتوائیں،اس کے جواب میں پیپلزپارٹی نے مایوسی اور دکھ کے سوا کچھ نہیں دیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ادوار حکومت میں بری کارکردگی کا الزام وزیراعظم کے دائیں بائیں کے لوگوں پر عائد کر دیا جاتا تھا، جناب زرداری بھی اس وقت ایک اچھا پنچنگ بیگ تھے، پارٹی کے لیڈر اور کارکن سب الزام ان پر دھر کر خودکو معصوم قرار د ے دیتے۔
ایک سینئر صحافی راوی ہیں کہ97ء کے انتخابات میں ناکامی کے بعد بی بی نے پیپلزپارٹی کے چند مرکزی لیڈروں پر مشتمل ایک اجلاس طلب کیا۔ ابھی بی بی کمرے میں نہیں آئی تھیں،الیکشن میں بدترین شکست سے دوچار فرسٹریٹ لیڈروں نے آپس میں طے کیا کہ آج بی بی کو کھل کر حقیقت بتا دیں گے کہ اس شکست کی اصل ذمہ داری زرداری صاحب پر عائد ہوتی ہے، انہیں سائیڈپر کر دیا جائے ،تب ہی پارٹی بچ سکتی ہے، ورنہ ہم اسی طرح ہارتے رہیں گے۔ اسی طرح کی باتیں کر کے یہ لوگ اپنا کتھارسس کرتے رہے۔ جب بی بی کے آنے کا وقت ہوا تو اس سے پہلے بہاولپور ڈویژن کے ایک لیڈر نے پوچھا کہ پھر طے ہوا کہ آج ہم سب یہی باتیں کہہ دیں گے۔ یہ سن کر دوسرے بدک گئے، ایک نے کہا کہ آپ اپنا نام لے کر یہ سب کہہ دیں، آپ کی بات کا بی بی احترام کرتی ہیں، ہم کہیں گے تو وہ ناراض ہوجائیں گے۔ اس لیڈر نے مسکرا کر کہا ، آپ شائد مجھے بے وقوف سمجھتے ہیں ، اس لئے قربانی کا بکرا بنا رہے ہیں، میں بھی آپ کی طرح ہی مصلحت اندیش ہوں۔پھر وہی ہوا کہ بے نظیر بھٹو کے آنے پر سب نے دھاندلی کا رونا رویا اور تمام تر ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ پلس انتظامیہ پر ڈال دی۔ یہ تو ان دنوں کی بات تھی ،جب بی بی کی قدآور شخصیت کا سایہ پارٹی پر قائم تھا۔ جناب زرداری اپنی ناکامی اور ان کے پانچ برسوں میں حکومتی سطح پر جاری رہنے والی لوٹ کھسوٹ کا کوئی جواز نہیں پیش کر سکتے۔ جنوبی پنجاب میں 
پیپلزپارٹی کا کارکن اور ووٹر حد درجہ دلبرداشتہ ہوچکا ہے۔ اس بار مخدوم احمد محمود اپنی خاندانی سیٹ نکال گئے ، ورنہ پورے جنوبی پنجاب میںپی پی پی کا صفایا ہوگیا ۔ آج یہ صورتحال ہے کہ عمران خان اگر کوشش کریں تو جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والی پیپلزپارٹی کی کئی اہم شخصیات کو اپنے ساتھ ملا سکتے ہیں۔ بہاولپور، رحیم یار خان کے چند الیکٹ ایبلز جو ہمیشہ پیپلزپارٹی کے ساتھ رہے، اب تحریک انصاف کے ساتھ جا سکتے ہیں۔مسلم لیگ ن نے اس بار جنوبی پنجاب سے خاصی نشستیں جیت لیں، وجہ پیپلزپارٹی کی حکومتی ناکامی اور تحریک انصاف کی جانب سے بہت سی جگہوں پر کمزور امیدواروں کا انتخاب تھا۔ ڈی جی خان سے لغاری خاندان کی روایتی نشست پر تحریک انصاف نے جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کو ٹکٹ دیا ،جنہیں علاقے میں کوئی جانتا بھی نہیں تھا، صوبائی اسمبلی پر ان کے شوہر نامدار کو ٹکٹ دے دیا۔ اس بلنڈر کے باوجود وہ خاتون اچھے خاصے ووٹ لے گئی، اگر صوبائی اسمبلی پر کوئی اچھا امیدوار ہوتا تو یہ سیٹ نکالی جا سکتی تھی۔ یہ تمام ووٹ عمران خان کا ووٹ تھا ، جو اس خاتون کو پڑا۔ اسی طرح کی غلطیوں کی طویل فہرست ہے۔
ن لیگ کا مسئلہ یہ ہے کہ اس نے کبھی سرائیکی ووٹ بینک کو دل سے قبول نہیں کیا۔ میاں برادران ہمیشہ عدم تحفظ کا شکار رہے۔ صوبے کی تقسیم کے وہ اسی لئے مخالف ہیں کہ انہیں لگتا ہے کہ وہاںسے پارٹی کو ووٹ نہیں ملے گا۔ سرائیکی عوام میں بھی اس جماعت کے لئے خاص قسم کے تحفظات ہمیشہ رہے ہیں۔ اس بار البتہ سرائیکی ووٹروں نے زیادہ تر حلقوں میںمسلم لیگ ن کو سپورٹ کیا، نتیجہ ن لیگ کی غیرمعمولی کامیابی کی صورت میں نکلا۔ پچھلے ڈیڑھ برسوں میںمگر حکومتی جماعت نے ملک بھر کی طرح سرائیکی وسیب کے لوگوں کو بری طرح مایوس کیا ۔ الیکشن سے پہلے جب پیپلزپارٹی نے بہاولپور جنوبی پنجاب کا ناقابل فہم اور بچگانہ نعرہ لگایا، اس وقت مسلم لیگ ن کی قیادت کا کہنا تھا کہ یہ لوگ سیاسی سٹنٹ کر رہے ہیں، البتہ ہم الیکشن جیت کر سنجیدگی سے اس طرف قدم بڑھائیں گے،نئے صوبوں کے لئے کمیشن بنائیں گے اور علاقے کی محرومیاں دور کریں گے۔ ابھی تک تو ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ الٹا جب نیا گورنر بنانے کی باری آئی تو جنوبی پنجاب سے کسی کو منتخب کرنے کے بجائے سنٹرل پنجاب کے پس منظر رکھنے والے کو لے لیا گیا۔ جنوبی پنجاب کے لئے الگ سیکرٹریٹ اور زون بنانے کی باتیں ہوتی رہیں، اس کے لئے کمیٹی بھی بنی، کئی اجلاس ہوئے، مگر کئی مہینوں سے وہ کمیٹی بھی پراسرار طور پر ''لاپتہ‘‘ ہے۔سرائیکی خطے پر عجب یاسیت اور اداسی کا غلبہ ہے۔نوبیل انعام یافتہ لاطینی امریکن ادیب گارشیا مارکیز نے اپنے شاہکار ناول'' تنہائی کے سو سال‘‘ میں ایک قصبے مکاندو کا ذکر کیا ، جس پر کئی نسلوںتک خزاں طاری رہی اور اہل شہرسو سال تک تنہائی اور مایوسی کی عجب کیفیت میں رہے۔ سرائیکیوں کو بھی اس کیفیت میں رہتے سات عشرے ہونے کو ہیں۔ سڑسٹھ برسوں میں کسی نے ان کے ساتھ ایفا نہیں کی، اپنوں اور غیروں ...سب نے دھوکے دئیے۔ اپنے سردار، مخدوم، نواب تو لٹیرے ثابت ہوئے، دوسروں نے بھی وہی وتیرہ اپنایا۔ سرائیکیوں کی نئی امید تحریک انصاف کے قائد عمران خان ہیں۔ اس پر پورا اتر پائیں گے یا نہیں، یہ الگ سوال ہے۔ سردست تو بات خواب کی ہے ، لگتا ہے کہ سرائیکی تحریک انصاف کے رنگوں والا خواب دیکھ رہے ہیں۔ اللہ کرے کہ ان کے سات عشروں کی تنہائی اور مایوسی کا اس بارتو خاتمہ ہوجائے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں