حیران ہونے کا حق تو دیں

جس دن ملالہ یوسف زئی کو نوبیل انعام دینے کا اعلان ہوا، اسی دن اندازہ ہوگیا کہ آنے والے دنوں میں ایک گرما گرم بحث میڈیا اور سوشل میڈیا کی زینت بنے گی۔ میرا خیال تھا کہ اینٹی ملالہ مہم بڑے زوردار طریقے سے چلائی جائے گی، ملالہ کے حوالے سے سازشی تھیوریاں گھڑی اور پھیلائی جائیں گی۔ دوسری طرف ملالہ کے حامی زور شور سے میدان میں اتریں گے، خوب گھمسان کا رن پڑے گا۔منظرنامہ مگر کچھ اور ہی انداز میں ترتیب پا گیا۔اس بار اینٹی ملالہ مہم چلانے والے کچھ سست رہے۔ کچھ گڑ بڑ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بھی کر دی۔ موصوف نے ملالہ کی مذمت کرنے اور اپنے پیش رو سید منورحسن کی طرح سازشی نظریہ کا احاطہ کرنے کے بجائے ملالہ کو مبارک باد دے ڈالی۔ جماعت اسلامی کے نو منتخب امیر نے ہر ایک کو حیران کر رکھا ہے۔ اگلے روز سوشل میڈیا پر ایک معروف لبرل خاتون نے بڑے تاسف سے ٹوئیٹ کیا کہ سراج الحق کہیں جماعت اسلامی کا امیج بہتر ہی نہیں کر ڈالیں ۔ میرا جی چاہا کہ اس عفیفہ کو تسلی دی جائے کہ جب تک جماعت اور جمعیت سے تعلق رکھنے والے نوجوان اپنے مخصوص تعصبات اورمحدود سوچ کے ساتھ سوشل میڈیا پر متحرک ہیں،جماعت اسلامی کا سافٹ امیج بننے کا کوئی امکان نہیں۔ خیر سراج الحق صاحب کے بیان نے وابستگان جماعت کو اپنی تلواریں واپس نیام میں ڈالنے پر مجبور کر دیا۔ادھر طالبان کے حامی منقار زیر پر (مایوسی سے پروں میں چونچیں چھپائے بیٹھے)ہیں، انہیں اپنی پڑی ہے ، ملالہ پر تبریٰ کیا کرتے۔ یہ البتہ حقیقت ہے کہ ملالہ کو نوبیل انعام ملنے کا عوامی سطح پرکھل کر خیر مقدم نہ ہوسکا۔ پشاور میں اے این پی کے چند وابستگان نے ڈھول کے ساتھ رقص فرما کر اپنی خوشی کا اظہار کیا ۔اے این پی والوں کو بھی یہ توفیق نہ ہوسکی کہ والہانہ رقص کے ایسے اجتماع صوبے کے دوسرے شہروں میں بھی منعقد کریں۔ ہمارے بزرگ شاعر اور اظہاریہ نویس جمیل الدین عالی صاحب ایسے موقعوں پر یہ مصرع لکھا کرتے تھے، اے کمال افسوس ہے، تجھ پر کمال افسوس ہے۔ 
ملالہ کو نوبیل انعام ملنے پر ناقدری کا یہ عالم دیکھ کر نہ صرف پاکستان میں لبرل ، سیکولر حلقے شدید چراغ پا ہیں بلکہ عالمی میڈیا بھی ناخوش ہے۔امریکہ کے اہم اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اگلے روز لکھا کہ نوبیل انعام ملنے سے ملالہ پاکستان کے تنہا ترین افراد کے کلب (loneliest club of Pakistan)میں شامل ہوگئی۔ہمارے بعض بڑے محترم لکھنے والوں نے طعنوں سے بھرپور تحریریں رقم فرمائیں۔ انہیں اس پر برہمی ہے کہ آخر ملک بھر میں ملالہ یوسف زئی کو نوبیل انعام ملنے پر جشن کیوں نہیں منایا گیا، لوگ سوال کیوں اٹھا رہے ہیں، یہ کیوں کہتے ہیں کہ ملالہ کے بجائے عبدالستار ایدھی کو یہ انعام ملنا چاہیے تھا؟ ہر ایک کا حق ہے کہ وہ جو مرضی رائے رکھے، اپنے مرضی کے ہیرو تراشے ، ان کی پرستش کرے اور بے شک دوسروں کو بھی ان کی پرستش کی ترغیب دے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ایسا پاکستانی قوم کی قیمت پر نہیں ہونا چاہیے۔آخر ہر کچھ عرصے کے بعد، کسی نہ کسی بات کا بہانہ بنا کر پاکستانی قوم کو لعن طعن کیوں کیا جاتا ہے؟ پاکستانی عوام کو جوتے مارنے، اسے ذلیل کرنے، حقیر ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آخر کیوں؟ ٹھیک ہے کہ ہم میں بہت سی خامیاں ہیں، ان میں سے بہت سوں پر ہم بھی بات کرتے ہیں، اپنا احتساب کرنے پر زور دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ پاکستانی قوم دنیا کی گھٹیا ترین قوم ہے، جس میں کوئی اخلاقی وصف باقی نہیں رہا۔یہ سوچ رکھنے والے غلطی پر ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں کہ پاکستانی اپنے ہیروز سے نفرت کرتے ہیں۔یہ بھی نہیں کہ کسی لڑکی کی کامیابی کے حوالے سے تنگ نظری یا کنجوسی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ کراچی کی ایک لڑکی نے ایشین گیمز میں تیز ترین ایتھلیٹ کا مقابلہ جیتا، اسے سر آنکھوں پر بٹھایا گیا، لاکھوں کے کیش انعامات اور قومی اعزازات کی بھرمار کر دی گئی۔یہ اور بات کہ موصوفہ نے اس کے بعد کسی اور مقابلے میں حصہ ہی نہیںلیا، انعامات لے کر مزے سے گھر بیٹھ گئیں۔ ارفع کریم نے جب مائیکرو سافٹ کا مقابلہ جیتا تو اس معصوم بچی کی غیرمعمولی پزیرائی ہوئی، لاکھوں روپے کے انعامات کے علاوہ درجنوں ایوارڈز دئیے گئے۔چند سال بعد جب وہ بیمار ہوئی تو سرکاری سطح پر اس کا علاج کیا گیا اور ارفع کی موت کے افسوسناک سانحے پر ملک میں سوگ کی کیفیت تھی۔ ہماری ویمن کرکٹ ٹیم کاکھیل اگرچہ دیکھا نہیں جاسکتا ، کرکٹ کھیلنے والا کوئی بھی آدمی اس بچگانہ کرکٹ کو دیکھ کر مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس کے باوجود ایشین گیمز میں ویمن ٹیم کی کامیابی پر انہیں اعزازات دئیے جاتے ہیں، میڈیا پر بھرپور پزیرائی ملتی ہے۔ آخر یہ سب بھی خواتین ہی ہیں، پاکستانی معاشرہ اگر عورت دشمن ہوتا تو انہیں پزیرائی نہ ملتی۔
ان لوگوں کو چھوڑئیے جو ملالہ کو استعمار کا ایجنٹ اور معلوم نہیں کیا کیا سمجھتے ہیں، ایسے شدت پسندوںکی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ ملالہ کے معاملے میں اصل مسئلہ یہی ہوا کہ لوگوں کو یہ سمجھ نہیں آئی کہ کس بات پر ایوارڈ دیا گیا؟ سوات آپریشن کے دوران ملالہ 
نے گل مکئی کے نام سے ڈائری لکھی۔ اچھی تحریر تھی،لوگ پڑھ کر محظوظ ہوئے۔ سوات کلیئر ہوا تو فوج اور میڈیا کو ہیرو چاہیے تھے۔ ملالہ کی خوش قسمتی کہ اسے چن لیا گیا۔ اس کا کچھ حق بھی بنتا تھا۔ قومی سطح پر ایوارڈز دئیے گئے، کیش انعامات بھی ملے۔پھر دو سال گزر گئے۔ سب چیزیں پرسکون ہو گئیں۔ ملالہ بھی لو پروفائل میں چلی گئی۔پورے دو سال گزر گئے، وہ اپنے والد کے سکول میں پڑھ رہی تھی، لوگ اس کا نام تک بھول گئے ۔ اچانک پاکستانی طالبان نے اسے نشانہ بنا لیا۔ ملا فضل اللہ کو سوات میں واپس انٹری ڈالنے کے لئے ایک دھماکہ خیز خبر چاہیے تھی۔ یہ بڑا سفاکانہ اقدام تھا۔ خوش قسمتی سے ملالہ بچ گئی۔ آرمی چیف نے ذاتی طور پر کوشش کی ورنہ شائد سانحہ ہوجاتا۔ انگلینڈ علاج کے لئے اسے بھیجا گیا، رحمان ملک نے اس کے والدکو وہاں کے پاکستانی سفارت خانے میں اکاموڈیٹ کرا دیا۔ اچھا کیا۔ ملالہ ہماری اپنی بچی ہے، اسکے لئے وہ سب ہونا چاہیے تھا۔ اہل مغرب میں ملالہ کی پزیرائی بھی سمجھ میں آتی ہے۔ انہیںکوئی اینٹی طالبان چہرہ چاہیے ،جسے گلوریفائی کیا جاسکے۔ایک خاص حد تک یہ سب بھی چل سکتا ہے ، مگر نوبیل انعام جیسے بڑے انعام کو اس مقصد کے لئے استعمال کرنا مناسب نہیں تھا۔ ملالہ کے ساتھ کیلاش ستیارتھی کو ایوارڈ دیا گیا، ان کے بارے میںکچھ تفصیل کل کے دنیا اخبار میں ڈاکٹر ویدک نے بیان کیں۔ معلوم ہوا کہ کیلاش ستیارتھی نے ایک دھرم شالہ کھول رکھا ہے، جہاں ہزاروں بچوں کی دیکھ بھال کی جاتی ہے، وہ پچھلے بیس پچیس برسوں سے سماج سدھار تحریکیں چلا رہے ہیں، وہ اور ان کا خاندان طویل عرصے سے لڑکپن میں مزدوربن جانے والوں کو بچانے کے لئے سرگرداں ہے۔ پڑھ کر سمجھ آجاتا ہے کہ انعام
کیوں دیا گیا۔ پاکستان میں ایدھی صاحب ، ڈاکٹر شہیر رضوی یا ڈاکٹر امجد ثاقب جیسے کسی شخص کو یہ انعام دیا جاتا تو ایک بھی آدمی نقطہ اعتراض نہ اٹھاتا۔ ملالہ یوسف زئی نے آخر پاکستانی سماج میں کیا کنٹری بیوٹ کیا ؟ ان پر قاتلانہ حملہ ضرور ہوا،دکھ کی بات تھی، مگر اس میں ملالہ کا کیا کمال ہے؟
تصور کریں کہ آپ کے موبائل فون پر کال آئے اور بتایا جائے کہ آپ نے موبائل فون کمپنی کی جانب سے کرائی جانے والی ایک لاٹری سکیم میں حصہ لیا تھا، آپ کا نمبر منتخب ہوگیا اور اس پر جیک پاٹ انعام نکلا ہے۔ یہ فون سن کرکیا حالت ہوسکتی ہے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ غیرمتوقع خوشی کے ساتھ شدید حیرت بھی ہوگی کہ کون سی لاٹری، کون سا انعام، میں نے تو کسی لاٹری سکیم میں حصہ نہیں لیا، پھر یہ انعام کہاں سے آگیا؟ حیرانی کے ساتھ شک بھی پیدا ہوگا کہ کہیں کوئی گڑ بڑ نہ ہو، یہ کچھ ہتھیانے کا بہانہ نہ ہو۔ ع ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں۔ ظاہر ہے ان کیفیات کے ساتھ ساتھ یہ خوشی بھی ہوگی کہ چلو جیسا بھی آیا، مفتے میں انعام تومل گیا۔ ہمارا معاملہ بھی وہی ہے، ملالہ یوسف زئی کو نوبیل انعام ملنے پر خوشی کے ساتھ ساتھ حیرت بھی ہوئی کہ کس بات پر انعام دیا گیا؟ اس نے کون سا ایسا کام کیا ہے، جس پر اتنا بڑا انعام دیا جا رہا ہے ؟کہیں کچھ گڑ بڑ نہ ہو، کوئی خاص ایجنڈا تو اس کے پیچھے کارفرما نہیں؟ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے لبرل دوستوں کو اس پر غصہ ہے کہ یہ کم بخت حیران کیوں ہو رہے ہیں، بلا سوچے سمجھے ناچنا شروع کیوں نہیں کر دیا۔ عرض یہ ہے کہ ہم بے حد خوش ہیں، ہمارا سر فخر سے تن گیا ہے، پیر زمین پر رکھے نہیں جا رہے۔ یہ خاکسار پچھلے تین چار دنوں سے اچھل اچھل کر چل رہا ہے ۔تین سو پونڈ وزن کے ساتھ یوں چلنا کس قدر مشکل ہوگا، پھر بھی خوشی کے مارے پروا نہیں کر رہے۔اس کے ساتھ مگر تھوڑا سا حیران ہونے کی اجازت تو دے دیں، اتنا تو ہمارا حق ہے یا نہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں