بلاول بھٹو کی سیاسی رونمائی

کراچی میں پیپلزپارٹی نے اٹھارہ اکتوبر کو جو سیاسی شو کیا تھا، اس کے بارے میںمختلف تاثرات سامنے آ رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی تو خیر اسے تاریخ ساز جلسہ ہی قرار دے گی، پارٹی ذرائع نے دعویٰ کیا کہ شرکا کی تعداد دس لاکھ کے قریب تھی۔ دوسری طرف پولیس، خفیہ اداروں اور غیر جانبدارذرائع کے مطابق ایک سے سوا لاکھ لوگ شریک ہوئے۔تحریک انصاف کے لوگ اس جلسے کے اخراجات پر تنقید کر رہے ہیں، کروڑوں کے اخرا جات کی بات کی جارہی ہے۔ جلسے سے پہلے کے دو تین دنوں میں جس طرح پورے کراچی شہر کو مفلوج کر کے رکھ دیا گیا، شہر بھر کے بل بورڈز پر اس جلسے کے حوالے سے نعرے اور پیغامات لگائے گئے ، سرکاری سطح پرگاڑیاں چلیں،پورے ملک سے لوگ اکٹھے کئے گئے، اندرون سندھ سے خاص طور پر بسیں بھر کر لائی گئیں، یہ اور اس طرح کی باتیں کی جار ہی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر درست ہیں، مگر یہ ہمارے سیاسی نظام کا چہرے کا ایک مسخ رخ ہی ہے۔ سیاسی جماعتیں حکومت میں ہوں تو پارٹی کے جلسوں کے لئے سرکاری خزانے سے اربوں روپے جھونک دیتی ہیں، کوئی تنقید کرے تو شرمندہ بھی نہیں ہوتے۔بہرحال یہ حقیقت ہے کہ پیپلزپارٹی نے ایک اچھا سیاسی شو کر لیا، اگرچہ انہیں اپنے روایتی گڑھ لیاری سے سپورٹ نہیں مل سکی، مگر پھر بھی خاصی معقول تعداد جمع ہوئی۔ 
تحریک انصاف نے ملک میں پُرجوش جلسوں کا ٹرینڈ ڈال دیا ہے، جوش وجذبے سے سرشارہجوم،تیز ٹیمپو والی موسیقی، مقررین کی تقریروں میں مناسب وقفوں پر نغمے ڈالنا... یہ سب ان کے جلسوں کو پُرکشش بنا دیتا ہے۔ پیپلزپارٹی کے کارکنوں کا روایتی جیالا کلچر مشہور ہے، وہ اپنے روایتی جوشیلے نعروں، بھنگڑوں اور سندھی رقص سے جلسوں میںجان ڈال دیتے ہیں۔ ہفتہ کے جلسہ میں وہ تاثر نہیں بن پایا۔ بلاول کی تقریر اور ہجوم کے جوابی ردعمل میں تال میل نہیں تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے بلاول کہیں اور تقریر کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ بلاول بلٹ پروف ، سائونڈ پروف سکرین کے پیچھے تھے، جہاں ہجوم کے نعرے سنائی نہیں دے رہے تھے۔ وجہ جو بھی ہو،پیپلزپارٹی کو اس کا حل نکالنا ہوگا۔ ان کو تحریک انصاف کے ڈی جے بٹ کی طرح اچھا ڈی جے بھی ڈھونڈنا چاہیے ، جو صاحب بلاول کی تقریر میں نعرے لگوا رہے تھے، انہیں سیاسی جلسوں کا اندازہ تھا ،نہ ہی وہ کوئی اچھا تاثر قائم کر پائے۔ 
بلاول کی تقریر غیر معمولی طویل تھی۔ نوے منٹ تقریر کی قطعی کوئی ضرورت نہیں تھی، اتنا زیادہ بولنے سے وہ اپنا تاثر کھو بیٹھے۔ عربی کا مقولہ ہے ، جس نے جس قدر طویل کلام کیا، اسے اتنا ہی بے برکت کیا۔کہا جاتا ہے کہ بلاول کے لئے کئی اتالیق مقرر کئے گئے ہیں، انہیں تقریر کرنے ، الفاظ کے زیروبم سکھانے، شاعری پڑھنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ میری ناچیز رائے میں فوری طور پر'' حاضر سروس‘‘ استادوں کی چھٹی کرا کے کہیں سے اچھے ٹیوٹر ڈھونڈے جائیں۔ بلاول کا اردو لب ولہجہ پہلے سے بہتر ہوگیا ، تقریر میں روانی بھی آگئی ، مگر ضرورت سے زیادہ تربیت کے باعث اس میں مصنوعی انداز آ چکا ہے۔ شاہ محمود قریشی بھی ایسے ہی مصنوعی انداز میں تقریر کرنے کے ماہر ہیں۔ بلاول کونارمل اور اوریجنل لہجہ اپنانا چاہیے۔نقالی کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اپنی تقریر میں انہوں نے ہر اہم سیاسی قوت کو نشانہ بنایا اور طنزیہ جملوں سے ان کی تحقیر کرنے کی کوشش کی۔ مسلم لیگ ن پر تخت شریف کی پھبتی کسی، عمران خان سے پیپلزپارٹی خاصی ناراض ہے، اس لئے خان کو بار بار نشانہ بناتے رہے۔ ایم کیو ایم کو بھی نشانہ بنایا۔ پیپلزپارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف جانے والوں پر سخت تنقید کی ، انہیں بار بار لوٹے کہہ کر پکارا۔ایک صاحب نے دلچسپ ٹوئیٹ کیا، کہنے لگے،'' بلاول نے ہر ایک کو نشانہ بنایا، صرف یہ کہنے کی کسر باقی رہ گئی تھی کہ اے سمندر میں تیرتی مچھلیو، آسمان پر اڑتی چیلو، سرسراتی ہوائو تم بھی کچھ شرم کرو ، بھٹو ازم سے سیکھ لو۔‘‘چار عشرے بیت گئے، لاہور کے بے مثل مقرر اور انشا پرداز شورش کاشمیری نے کہا تھا،''زندگی ا پنے محاسن پر بسر ہوتی، دوسروں کے عیوب پر نہیں۔‘‘سیاست میں دوسروں کو نشانہ بنانا بھی ایک حکمت عملی ہوسکتی ہے، مگر اپنے پلے بھی کچھ ہے یانہیں، یہ بتانا اتنا ہی ضروری ہے۔ بلاول دوسروں کو تو نشانہ بناتے رہے، اپنے نانا اور والدہ کے گن گاتے رہے، مگر یہ نہیں بتا پائے کہ ان کے پاس عوام کی تقدیر بدلنے کا کیا منصوبہ ہے ۔ 
پچھلے چند ہفتوں میں بلاول نے دانستہ طور پر دو تین اہم ایشوز کے بارے میں کھل کر بات کی اور ایک خاص پوزیشن لی ہے، اس جلسے میں بھی اسی موقف کو دہرایا۔ سیلاب زدگان کی مدد کے لئے پنجاب کے دورے میں انہوں نے کشمیر ایشو پر بات کی اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پر سخت تنقید کی، اپنے ٹویٹس میں بھی وہ اینٹی انڈیا اور پرو کشمیر پیغامات دیتے رہے۔ یہ حیران کن بات تھی ، کیونکہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی بھارت کے حوالے سے پالیسی یکسر مختلف رہی۔ بلاول نے اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو کے انداز میں بھارت کو للکارا۔ یہ پنجاب میں مقبول نعرہ ہے، اسٹیبلشمنٹ بھی اس موقف کو پسند کرتی ہے۔ بلاول نے سرائیکیوں کوخوش کر نے کے لئے سرائیکی میں کہا ،جنوبی پنجاب (صوبہ)لیں گے،پنجابی میں کہا کہ ہم کشمیر لے کر رہیں گے۔سندھی عوام کی ترجمانی وہ مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں کا نعرہ لگا کر کرتے ہیں۔ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کو نشانہ بنا کر انہوں نے یہ پیغام دیا کہ میں ہی لیڈر ہوں اورمیںبطور ''بھٹو ‘‘ ملک کو بحرانوں سے نکال سکتا ہوں۔
بلاول بھٹوزرداری کی سیاسی رونمائی ہوچکی، کامیابی حاصل کرنے کے لئے انہیںمگر کچھ کر کے دکھانا ہوگا۔ پیپلزپارٹی کی بدترین کارکردگی کا بوجھ ان کی گردن پر موجود ہے۔ سندھ میں تو وہ سات سال سے حکمران ہیں، وہاں کیا فرق آیا؟ سندھ حکومت نااہلی، کرپشن اور بدترین گورننس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ غیر فعال وزیراعلیٰ، بدعنوانی کے الزامات میں جکڑے وزرا، عوام سے کٹے ارکان اسمبلی...بلاول اس سب کے ہوتے مستقبل کے خواب کیسے بیچ سکتے ہیں؟ کون خریدے گا ان کا سودا؟ اگر وہ قومی سطح پر اپنی شناخت بنانا چاہتے ہیں تو انہیں سندھ حکومت میں تبدیلی لانا ہوگی۔ لوگوں کو معلوم ہو کہ آکسفورڈ کا پڑھا لکھا ایک کلین امیج والا نوجوان پارٹی کا سربراہ ہے، جس کے اثرات سندھ حکومت پر بھی پڑ رہے ہیں۔ اگر ایسا نہیں تو جذباتی نعروں، لاشوںاور قبروں کی سیاست ، بھٹو ازم کی مالا جپنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ سب پرانی کہانیاں ہو چکیں۔ سیاسی شعور کی سطح پہلے جیسی نہیں ، اب لوگ سوال اٹھانا سیکھ گئے ۔ بلاول ایک طرف یوسف رضا گیلانی ، دوسری طرف راجہ پرویز اشرف ، اور دیگر روایتی ،بدعنوانی کے الزامات سے دوچار سیاستدانوں کو کھڑا کرکے تبدیلی کی بات کس طرح کر سکتے ہیں؟ اعتزاز نے ہمت کر کے سچ بول دیا کہ نوجوانوں پر مشتمل نئی ٹیم بنائی جائے۔ پیپلزپارٹی کا ووٹر اپنی پارٹی کی حکومتی کارکردگی سے شرمندہ اور کارکن بری طرح مایوس ہے۔باقیوں کی تو بات چھوڑئیے، اپنی پارٹی کے دور ہوئے ساتھیوںاور سابق ووٹ بینک کو واپس لانے کے لئے نئے انداز سے سیاست کرنا ہوگی۔ سوال مگر یہی ہے کہ نوجوان بلاول کو اس کے عزت مآب والد اور پارٹی کے اولڈ گارڈز اتنی مہلت اور گنجائش دیں گے؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں