دسواں حصہ

سید سرفراز اے شاہ صاحب لاہور کے مشہور صوفی بزرگ اور روحانی سکالر ہیں۔ روحانیت کے حوالے سے انہوں نے بے مثال کتابیں لکھی ہیں، تصوف کی جدید تاریخ میں ان کی مثال نہیں ملتی۔ اس اخبار نویس کو وہ کتابیں پڑھنے اور ان پر لکھنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ ان کی چوتھی کتاب ''لوح فقیر‘‘ آج کل زیر مطالعہ ہے۔ اس پر انشاء اللہ جلد تفصیل سے لکھوں گا۔ بہت سے اہم اور دقیق مسائل شاہ صاحب نے اس کتاب میں کمال خوبصورتی اور سادگی سے سلجھائے ہیں۔ شاہ صاحب کی محفل میں کئی بار جانے کا موقع ملا۔ ہمارے جیسے دنیادار اپنے روزمرہ کے مسائل اور دنیاوی خواہشات ہی لے کر جاتے ہیں، کاش دنیا کی رغبت دل سے دور ہوتی تو روحانیت کے حوالے سے بھی کچھ سیکھا جاتا۔ شاہ صاحب کا دلچسپ طریقہ ہے، وہ کبھی براہ راست نصیحت نہیں کرتے، وعظ نہیں کرتے، وہ اس بات کے قائل ہیں کہ فقیر کو عملی مثال بننا چاہیے۔ ویسے نصیحت کا سب سے موثر طریقہ یہی ہے۔ شاہ صاحب باتوں باتوں میں البتہ بہت سے ایسے نکات بیان کر دیتے ہیں، جو دل میں اتر جاتے ہیں۔ ایک دن کہنے لگے کہ رزق میں اضافہ کا سب سے آسان نسخہ یہ ہے کہ اپنے رزق میں دوسروں کو شامل کر لیا جائے، رب تعالیٰ ان کا رزق آپ کے توسط سے دینا شروع کر دیتا ہے، اپنی ضرورت کے مطابق استعمال کریں اور باقی آگے تقسیم کر دیں۔ ہر ماہ اپنی آمدنی میں سے کچھ فیصد، دس، بیس، تیس... جتنی اللہ توفیق دے، اتنا حصہ نکال لیا جائے، نہایت خوش اسلوبی اور خاموشی سے وہ ضرورت مندوں کو دے دیا جائے، ایسے کہ ان کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہو، اپنے رشتے داروں میں ضرورت مند ہوں تو 
انہیں ترجیح دی جائے کہ اس سے صلہ رحمی کا تقاضا بھی پورا ہو جائے گا۔ شاہ صاحب نے دو اور باتیں بھی کہیں۔ کہنے لگے کہ اپنی بہنوں کے گھر جب بھی جائیں، کچھ لے کر جائیں، وہ خواہ ارب پتی گھرانے میں بیاہی ہوں، ان کے حوالے سے ہاتھ کھلا رکھا جائے۔ آمدنی بڑھانے کا ایک اور روحانی نسخہ یہ بھی ہے، جب بھی دعا مانگی جائے، اپنے دشمنوں، مخالفوں کے حق میں پورے خلوص اور خشوع و خضوع سے دعا مانگی جائے۔ دشمنوں کو فائدہ ہو یا نہ ہو، آپ کی زندگی سنور جائے گی۔ یہ بات سن کر ہم نے تو دل میں واہ واہ کر دی، میرے جیسے صحافی گفتار کے غازی بننا پسند کرتے ہیں کہ اس میں کچھ جاتا نہیں، کردار کا غازی بننا البتہ خوش نصیبوں کا مقدر ہے۔ دو چار لوگوں سے میں نے اس بات کا ذکر کیا اور پھر بھول بھال گیا۔ کچھ عرصہ کے بعد انہی دوستوں میں سے ایک نے ملاقات پر شکریہ ادا کیا کہ تمہاری ایک بات نے میری زندگی بدل دی۔ حیرت سے پوچھا، کون سی بات؟ اس نے بتایا، ''وہی سرفراز شاہ صاحب والا نسخہ، میں نے اپنی آمدنی میں سے دس فیصد ہر ماہ نکالنا شروع کر دیا، یہ فرض کر لیا کہ تنخواہ دس فیصد کم ہو گئی ہے، بہنوں کے حالات اچھے نہیں، خاموشی سے ان کی مدد کر دیتا ہوں، بیوی تک کو نہیں معلوم۔ اس کا اثر یہ نکلا کہ دو تین ماہ کے اندر ہی اچانک میری آمدنی بڑھ گئی، بیٹھے بٹھائے تنخواہ میں اضافہ ہو گیا، ایک اور جگہ سے بھی اضافی آمدنی کی سبیل نکل آئی‘‘۔ وہ صاحب میرا شکریہ ادا کرتے رہے اور میں خاموشی سے ان کا منہ دیکھتا رہا۔ 
اپنی آمدنی میں دوسروں کو شریک کرنے اور خلق خدا کی مشکلات کم کرنے والے لوگوں کی زندگیوں میں حیران کن تبدیلیاں آنے کے بے شمار واقعات ہیں۔ کئی ایسے کہ سن کر یقین نہیں آتا، مگر وہ حقیقت پر مبنی ہیں۔ مزے کی بات ہے کہ ان کا تعلق صرف اسلامی معاشرے یا مشرق سے نہیں، مغربی معاشرے میں ایسے کاموں کی زیادہ روایات موجود ہیں اور اب تو سائنسی بنیادوں پر بھی ان کے حق میں دلائل ڈھونڈے جا رہے ہیں۔ چند دن پہلے ایک امریکی مصنف کی کتاب پڑھی۔ اس کا مرکزی خیال شیئر کرنا اور دینا (Giving) ہے۔ اس نے اپنے تھیسس کو خاصے بڑے تناظر میں تحریر کیا۔ کتاب میں ایک حصہ دسویں حصے کی چیریٹی یا سخاوت کے حوالے سے تھا۔ امریکی ماہر لکھتا ہے کہ اپنی آمدنی کا صرف دسواں حصہ ہی شیئر نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنے وقت کے دسویں حصے کو بھی وقف کرنا چاہیے۔ یہ وقت اچھے کام کرنے والی چیریٹی تنظیموں کو بطور رضاکار دینا چاہیے۔ آمدنی کا دسواں حصہ نکال لینے کے بعد یہ بھی سوچنا چاہیے کہ باقی ماندہ نوے فیصد میں سے بھی کتنے فیصد نکالا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لئے اپنی زندگی میں سادگی لائی جائے، اپنے اخراجات گھٹا لئے جائیں تاکہ ہر ماہ دس فیصد سے زیادہ رقم نکالی جا سکے۔ ایک اور دلچسپ نکتہ بھی بیان کیا۔ کہتا ہے، ''مجھ سے اکثر لوگ سیمینار میں پوچھتے ہیں کہ یہ چیریٹی اور سخاوت کب کرنی چاہیے، جب ہمارے پاس معقول رقم جمع ہو جائے؟ میرا جواب ہوتا ہے، نہیں آج اور ابھی سے یہ کام شروع ہونا چاہیے۔ چند ڈالر بھی دیے جا سکتے ہیں۔ دینے کی عادت ڈالنی بہت ضروری ہے۔ اگر کوئی پچاس ہزار ماہانہ آمدنی میں سے پانچ ہزار نہیں نکالے گا‘ تو پھر کل اس کی تنخواہ دو لاکھ ہو جائے تو بیس ہزار دینا اسے مشکل لگے گا، جب دس لاکھ آمدنی ہو تو ایک لاکھ نکالنا اس کے لئے مزید مشکل ہو جائے گا۔ میں بل گیٹس کی مثال دیتا ہوں۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اتنا امیر ہو جانے کے بعد سخاوت دکھانی چاہیے، لیکن اگر اپنی آمدنی میں سے کچھ فیصد نکالنے کی عادت نہیں رہی تو بل گیٹس والی پوزیشن میں جا کر اربوں ڈالر کی سخاوت کیسے دکھائی جا سکتی ہے؟‘‘ اس نے اس حوالے سے ایک واقعہ بھی بیان کیا کہ چیریٹی تنظیم کا ایک کارکن اپنے علاقے کے کروڑ پتی کے پاس گیا۔ اس سے چیریٹی مانگی تو اس نے انکار کر دیا۔ اس نے کروڑ پتی سے کہا کہ آپ اپنے لان کی مٹی سے بھرا ایک چھوٹا پیکٹ ہی دے دیں۔ وہ امیر آدمی حیران ہوا۔ مالی کو بلا کر اس نے کہا کہ انہیں مٹی دے دو۔ کچھ عرصے کے بعد وہ امدادی کارکن دوبارہ اسی کروڑ پتی کے پاس گیا۔ اس بار اس نے کچھ کہے بغیر چیک کاٹ کر دے دیا۔ بعد میں بزنس مین نے چیریٹی ورکر سے پوچھا کہ تم نے وہ مٹی کیوں مانگی تھی‘ اس کا کیا استعمال کیا؟ کارکن نے جواب دیا، مٹی تو بے کار تھی، مانگی اس لئے کہ آپ کو دینے کی عادت پڑے۔ آج مٹی دی ہے تو کل کو اپنے پیسوں میں سے بھی دینے کو تیار ہو جائیں گے۔ بزنس مین نے اعتراف کیا کہ واقعی میرے اندر دینے کی عادت نہیں تھی، میں یہ سمجھتا تھا کہ میںسیلف میڈ ہوں، اتنی محنت سے یہ سب کمایا ہے، کسی کا اس پر حق نہیں، اب یہ سوچ بدل گئی ہے‘‘۔
امریکی مصنف ہاروے میکنن نے اس کتاب میں کئی دلچسپ اور نئی باتیں کی ہیں۔ وہ لکھتا ہے کہ آئیڈیے کے دسویں حصے کی بھی سخاوت کرنی چاہیے۔ اپنے شاندار آئیڈیاز کا ایک حصہ لوگوں کی مدد کے لئے بغیر نفع اور بغیر غرض کے دے دینا چاہیے۔ اپنی ذات کے لیے بھی دسویں حصے کی سخاوت کی جائے۔ ہاروے نے لمبے چوڑے حساب کتاب کے بعد بتایا کہ ایک سال میں آدمی کے پاس آٹھ ہزار سات سو ساٹھ گھنٹے ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کام کے لئے، کچھ سونے، کھانے پینے، گھر والوں کے ساتھ وقت گزارنے، دوستوں، مشاغل وغیرہ کے لئے مختص کر دینے کے بعد بھی ایک ہفتے میں چند گھنٹے بچتے ہیں، جو صرف اپنی ذات کے لئے نکالنے چاہیے، جس میں آدمی صرف اپنے آپ سے بات کرے، سوچے، اپنی شخصیت کو پالش کرنے کا سوچے۔ ہاورے میکنن کہتا ہے کہ آمدنی، وقت، آئیڈیاز کے دسویں حصے کی سخاوت یا شیئرنگ کرنا نہ صرف مادی اعتبار سے نفع بخش ثابت ہو گا بلکہ اس سے شخصیت کی اندرونی دنیا کی بھی تکمیل ہو گی۔ طمانیت، آسودگی اور مکمل ہونے کا وہ احساس ملے گا، جس کی آج کے مشینی اور تیز رفتار زندگی میں سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں