نئے انتظامی یونٹس کا ایشو

ہمارے ہاں ہر کچھ عرصے کے بعد ایک نیا ایشو پھوٹتا اور پھرمیڈیا سمیت چائے خانوں اور ڈرائنگ روم بحثوں کا مرکز بن جاتا ہے ۔ لوگ مہینوں اس پر بحث کرتے، اُلجھتے رہتے ہیں ، پھر چپکے سے کوئی اور ایشو سر اٹھا لیتا ہے۔ اس لاحاصل مشق کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ہم ایشو ٹو ایشو معاملات ہی میں الجھے رہتے ہیں، مستقبل کو سامنے رکھ کر سوچ بچار اور فیصلے کرنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔ بعض معاملات اس قدر حساس، اہم اور نازک ہوتے ہیں کہ ان پر کھلے عام ، تھڑوں ، ہوٹلوں میں بحثیں کرنا مناسب نہیں۔ بہتر یہی رہتا ہے کہ ٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ ، پورے سکون اور سنجیدگی کے ساتھ ان پر غورکیا جائے اور ایسا ٹھوس لائحہ عمل تلاش کیا جائے ، جس پر اتفاق رائے ہوسکے اور عملی جامہ پہنانا ممکن ہو۔نئے صوبے یا انتظامی یونٹ بنانا بھی ایسا ہی ایک معاملہ ہے۔
پیپلزپارٹی حکومت نے اپنے آخری ڈیڑھ دو برسوں میں اس حوالے سے خاصا ہلہ گلہ کیا۔ زرداری صاحب ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتے تھے۔ پنجاب کی تقسیم سے مسلم لیگ ن اور شریف برادران کو دھچکا پہنچانا مقصود تھا، جو لاہور میں بیٹھ کر دس کروڑ کے صوبے پر شاہانہ حکومت کرنے کے عادی ہیں۔ دوسرا مقصد عام انتخابات میں سرائیکی ووٹروں کو صوبے کے جذباتی نعرے کے ذریعے اپنی طرف کھینچناتھا۔پیپلزپارٹی کے اس ایڈونچر سے کچھ عرصہ پہلے جناب محمد علی درانی بہاولپور صوبے کے مردہ گھوڑے میں جان ڈال چکے تھے۔ درانی صاحب کئی برسوں تک جنرل پرویز مشرف کے ساتھ رہے،کابینہ میں وزیر رہے ، مگر کسی کو یہ شک تک نہ گزرا کہ وہ سرائیکی ہیں یا بہاولپورکی قدیمی تحصیل احمدپورشرقیہ سے ان کا تعلق ہے۔ یہ خاکسار احمدپورشرقیہ کا رہنے والا ہے۔ ان برسوں میں کئی ایسے لوگ ملے ،جو یہ انکشاف کرتے تھے کہ درانی صاحب آپ کے شہر کے ہیں۔ حیرت سے ہم سوچتے کہ کبھی ان کو شہر میں دیکھا نہیں، کسی بیان میں ایسا اشارہ بھی نہیں ملا۔ خیر اس کے لئے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ دو تین سال کے اندر ہی پرویز مشرف پر برا وقت آگیا۔ اس'' سانحے ‘‘کے ساتھ ہی ایک دلچسپ واقعہ رونما ہوا۔ جناب محمد علی درانی پر کسی روحانی طریقے سے یہ منکشف ہوا کہ وہ احمدپورشرقیہ یعنی سابق ریاست بہاولپور کے رہنے والے ہیں، کسی پیر مغاں نے یا پیر فرتوت نے ان کے کان میں یہ بھی سرگوشی کر دی کہ صوبہ بہاولپور کی بحالی ملک وقوم اور ریاستیوں یعنی بہاولپور ڈویژن کے لوگوں کیلئے بہت ضروری ہے اور انہیں یہ تحریک چلانی ہوگی۔درانی صاحب ایک عجب انوکھے جوش وخروش سے اس میں جت گئے۔ احمد پورشرقیہ ان کا بیس کیمپ ٹھیرا، صوبہ بحالی کی تحریک انہوں نے شروع میں اخباری صفحات پر اٹھائی اوریہ ماننا پڑے گا کہ اس میں جان ڈال دی۔ حتیٰ کہ نواب بہاولپور صلاح الدین عباسی یہ بیڑا اٹھانے کے لئے تیار ہوگئے۔ رحیم یار خان کے مخدوم احمد محمود بھی اس میں کود پڑے۔ایک نئی جماعت کی بنیاد ڈالی گئی، جلسے ، جلوس، ریلیاں شروع ہوئیں۔ معاملہ اس حد تک بڑھا کہ جب پیپلزپارٹی نے نئے صوبے کا ایشو اٹھایا تو انہیں اپنے اس نعرے میں بہاولپور کا نام ایڈجسٹ کرنا پڑا۔ اسے ''بہاولپورجنوبی پنجاب ‘‘کا عجیب وغریب نام دیا گیا، دارالحکومت بہاولپور بنانے کے اعلان پر میانوالی اور بھکر والے خفا ہوگئے، جنہیں بہاولپورلاہور جتنا ہی دور پڑتا تھا۔ادھر ن لیگ کی قیادت نے اس کا توڑ کر نے کے لئے نیا طریقہ سوچا۔ انہوںنے بہاولپور اور جنوبی پنجاب کے الگ الگ صوبے بنانے کا اعلان کیا ۔
سرائیکی و ہ بدنصیب قوم ہے ،جسے ہر دور میں ایک سے ایک نئے ڈرامے اور چالبازیوں سے واسطہ پڑتا رہا۔ اس بار بھی پہلے کی طرح ہوا۔ مخدوم احمد محمودقبلہ زرداری صاحب کی مفاہمت یا ''رل مل کر کھائو سیاست‘‘ کا شکار ہوئے، گورنری سنبھال کر بحالی صوبہ بہاولپور کی تحریک سے جان چھڑا لی۔ نواب بہاولپور اپنی نوزائیدہ جماعت سمیت الیکشن میں کود پڑے۔ کئی نشستوں پر امیدوار کھڑے کئے اور بری طرح ہروائے، صرف ایک صوبائی اسمبلی کی نشست ہاتھ آئی۔ پیپلزپارٹی نے الیکشن مہم میں پہلے الگ صوبوں والے معاملے کو اٹھانے کا سوچا ، مگر وہ جارحانہ حکمت عملی طے ہی نہ کر پائے۔ مفاہمت کی سیاست نے ان کا سیاسی سورج پنجاب میں ایسا غروب کیا کہ پارٹی کے ووٹ بینک پر مکمل اندھیرا چھا گیا۔ 
جنوبی پنجاب میں ان کے مضبوط ترین امیدوار بھی ہار گئے۔ ہر ایک نے شکوہ کیا کہ تیر کا وزن انہیں لے ڈوبا۔ ن لیگ کے امیدوار الگ صوبوں کے ایشو پر یہ بات بار بار کہتے رہے کہ پیپلزپارٹی اور محمد علی درانی ڈرامہ بازی کر رہے ہیں، ہم الیکشن جیت کریہ کام سلیقے سے کریں گے۔بازی ن لیگ کے ہاتھ رہی، مگر الیکشن کے بعد نئے صوبے والا معاملہ تو یوں غائب ہوا، جیسے یہ کبھی مسئلہ تھا ہی نہیں۔ ن لیگی رہنما اب اس معاملے پر بات کرنے سے کتراتے ہیں، اگر کوئی رپورٹر یہ سوال پوچھ لے تو اسے کھاجانے والی نظروں سے گھورا جاتا ہے کہ کم بخت تیرے پاس کوئی اور سوال نہیں ؟
کچھ عرصہ پہلے سے اچانک نئے انتظامی یونٹ بنانے والا مسئلہ اٹھ کر سامنے آ گیا ہے۔ اس بار متحدہ قومی موومنٹ اس کے پیچھے ہے۔ سندھ کے شہری علاقوں پر مشتمل الگ صوبہ یا کراچی کو الگ صوبہ بنانے کا خیال متحدہ کے لئے ایک سنہری خواب کی حیثیت رکھتا ہے، تاہم اپنے صوبے کے معروضی حالات سامنے رکھتے ہوئے وہ کھل کر ایسا نہیں بولتے تھے، اس بار ان کے تیور مختلف ہیں۔ سرائیکی یا جنوبی پنجاب صوبہ کی البتہ انہوں نے ڈٹ کر حمایت کی تھی۔ اس وقت بھی مبصرین یہی کہتے رہے کہ وہ اپنی راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔دوسری طرف اندرون سندھ سے ہمیشہ کی طرح سندھ کی تقسیم کی پرجوش مخالفت ہوئی۔ اب کی بار تو مرسوں مرسوں، سندھ نہ ڈیسوں جیسا جذباتی اور طاقتور نعرہ بھی 
سامنے آ چکا ہے۔ نوجوان بلاول اپنی کھنکتی آواز میں اس نعرے کو قوت عطا کر چکے ہیں۔ بعض سینئر لکھنے والے بھی اس بار متحدہ کے نئے انتظامی یونٹس والی تجویز کی حمایت کرتے نظر آ رہے ہیں۔ بعض لوگ تو ملک بھر میں اٹھارہ سے بیس نئے صوبے بنانے کی بات کر رہے ہیں، کوئی ہر ڈویژن کو صوبہ بنانا چاہتا ہے تو کسی کے خیال میں دو ڈویژن پر مشتمل چھوٹے صوبے بہتر رہیں گے۔سچ تو یہ ہے کہ سرائیکی ایسی ہر تجویز کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ پندرہ بیس صوبے تو کہاں بننے ہیں،سرائیکی وسیب پر مشتمل صوبہ بننے کا جو تھوڑا بہت چانس ہے، وہ بھی جاتا رہے گا۔ ویسے بھی جو صوبہ بنانا آسان ہے ، اسے تو بنایا نہیں جا رہا، ملک بھر کوڈیڑھ دو درجن صوبوں میں تقسیم کرنے کی خیالی اور کتابی بات کہاں پوری ہو سکتی ہے؟ ہم اس معاملے میں صرف اتنا عرض کرنا چاہتے ہیں کہ خواہ ایک نیا صوبہ بنانا ہے یا زیادہ، ثقافتی بنیادوں پر تقسیم ہو یا انتظامی فیکٹر ملحوظ خاطر رکھا جائے... خدارا اس معاملے کو میڈیا سے دور رکھئے۔ سنجیدہ اور کریڈیبلٹی رکھنے والے افراد پر مشتمل کمیشن بنائیے، جو ماہرین کی خدمات بھی حاصل کر سکے، وہ میڈیا کے شورشرابے سے دور، خاموشی سے کہیں بیٹھ کر اس پر غور کرے اور قابل عمل ٹھوس تجاویز تیار کرے، ان پر عملدرآمد البتہ ہونا چاہیے۔ا س کی رپورٹ کھوہ کھاتے میں نہ ڈالی جائے۔ جہاں تک سرائیکی عوام کا تعلق ہے،پاکستان کی دوسری محروم آبادیوں کی طرح ان کے مسائل حل کرنے ہوں گے۔اس سے پہلے سرائیکیوں کی محرومی کی مختلف سطحوں کو سمجھنا ہوگا، اس موضوع پر تفصیل سے بات انشاء اللہ ہوتی رہے گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں