جماعت اسلامی اور اس کی قیادت

قومی سیاسی جماعتوں میں جماعت اسلامی دو تین حوالوں سے خاص اہمیت کی حامل ہے۔ ایک تو یہ ملک کی واحد دینی سیاسی جماعت ہے، ورنہ دوسری مذہبی جماعتیںتو بنیادی طور پر فرقہ ورانہ جماعتیں ہیں جو اپنے فرقوں اور ان سے تعلق رکھنے والے علما اور مدارس کی نمائندگی کرتی ہیں۔ جمعیت علما ء اسلام روایتی دیوبندی مذہبی حلقے کی نمائندہ ہے تو جمعیت علماء پاکستان کے مختلف دھڑوں کے پیچھے سنی بریلوی مذہبی حلقہ ہے، اسی طرح دوسری مسالک کی اپنی اپنی سیاسی جماعتیں ہیں۔جماعت اسلامی کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔ جماعت اسلامی صرف مذہبی سیاسی جماعت ہی نہیں بلکہ ایک نظریاتی تحریک بھی ہے، اس کے دنیا بھر کی اہم اسلامی تحریکوں سے قریبی تعلقات ہیں ۔ مصر کے اخوان المسلمون ہوں، تیونس کے النہضہ یا پھر ترکی کے نجم الدین اربکان کے فکری پیرو کار ہوں ...ان سب سے جماعت اسلامی کے بہت اچھے اور قریبی تعلقات ہیں۔ بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا وغیرہ میں جماعت اسلامی خود مختلف ناموں سے موجود ہے۔بنگلہ دیش میں تو آج کل جماعت کے رہنما اور کارکن قربانیوں کی اچھوتی مثالیں قائم کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ایسا ظلم ہو رہا ہے، جس کے مثالیںکم نظر آتی ہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کا ایک بڑاکریڈٹ یہ بھی رہا کہ اس نے دائیں بازو کوفکری راہنمائی اور تربیت فراہم کی،60،70، اور80ء کے عشرے میںدینی سوچ رکھنے والے پڑھے لکھے نوجوان جماعت کی طرف متوجہ ہوتے اور کسی نہ کسی سطح پر جڑتے رہے۔ 
یہ صورتحال اب مگر یکسر بدل چکی ہے۔ جماعت اسلامی پر ابھی تک کسی خاص مسلک کا اثر تو نہیں پڑا، مگر یہ اپنی نوعیت میں ایک فرقہ سا بن گئی ہے، فرقہ اگر سخت لفظ ہے تو اسے کمیونٹی یا گروہ میں بدل لیں۔ ''جماعتیے‘‘ کے لفظ سے ایک خاص تاثر ہی بنتا ہے۔ جماعت اسلامی کا نظریاتی تحریک والا امیج بھی متاثر ہوا ہے، عملی طور پر یہ سیاسی سرگرمیوں میں مصروف دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح کی ایک پارٹی ہی نظر آتی ہے۔ ہمارے ایک دوست جو ایک زمانے میں اسلامی جمعیت طلبہ کے سرگرم رکن تھے ، آج کل وہ برہمی سے جماعت اسلامی کو'' ایک سوشل کلب‘‘ قرار دیتے ہیں، جہاں اراکین اکٹھے ہوتے، گپ شپ لگاتے، تعلقات نبھاتے ، رشتے ناتے کرتے اور یوں نشستند، گفتند، برخاستند والے محاورے پر عمل کر تے ہیں۔یہ بہت سخت تبصرہ ہے اور میری طرح آپ کا بھی اس سے اتفاق کرنا ضروری نہیں،مگر جمعیت کے سابقون میں سے کچھ لوگ جماعت کی موجودہ حالت دیکھ کر مایوسی اور فرسٹریشن کے باعث تلخی کی اس حد تک جا چکے ہیں۔چند ماہ پہلے جماعت اسلامی کے الیکشن کے موقعہ پر ایک دلچسپ تبدیلی آئی، اس وقت کے امیر جماعت سید منور حسن اور قیم لیاقت بلوچ کے بجائے کارکنوں کی اکثریت نے سراج الحق کو امیر منتخب کر لیا۔ جماعت کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا تھا۔ سراج الحق اپنی سادگی، عوامی مزاج اور عملی سیاسی تجربے کے باعث جماعت کے نوجوان کیڈر میں بہت مقبول تھے۔ لوگ انہیں جماعت کامستقبل کہتے تھے۔ جماعت کے حالیہ الیکشن سے خاصا پہلے مجھے جماعت سے ہمدردی رکھنے والے کئی دوست بتایا کرتے تھے کہ سراج الحق کو اگلے چند برسوں میں امارت کا موقعہ ملے گا اوروہ جماعت کو فعال اور متحرک بنا دیں گے۔وہ آخر کار امیر بن ہی گئے۔
سراج الحق کے امیر بننے کے بعد شروع میں تو یوں لگا کہ جیسے وہ جماعت میں اصلاحات اور تبدیلیوں کا ایک نیا دور شروع کرنے لگے ہیں۔ اندازے لگائے جا رہے تھے کہ وہ سندھ کی جماعت کے کسی نہایت متحرک رہنما کو مرکزی قیم (سیکرٹری جنرل)بنائیں گے اور اولڈ گارڈز سے اٹی ہوئی جماعت میں نئی روح پھونکنے کی کوشش کریں گے۔ نئے امیر جماعت کا پہلا فیصلہ البتہ کئی حلقوں کے لئے خاصا مایوس کن ثابت ہوا، انہوںنے قیم کے لئے لیاقت بلوچ ہی کو ترجیح دی ، جن پر جماعت کے اندرونی حلقے میں ''سٹیٹس کو‘‘ کا حامی ہونے کی پھبتی کسی جاتی ہے۔ میری سراج الحق صاحب سے ایک ہی ملاقات ہوئی ہے۔ امیر جماعت کی جانب سے صحافیوں کے لئے رمضان میںایک افطاری کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس بار سراج صاحب میزبان تھے۔ انہوں نے اپنی طبیعت کے مطابق خاصی سادگی سے ایک عوامی اجتماع منعقد کیا، جس میں روایتی خطبہ ارشاد فرمایا۔ جماعتی پلیٹ فارم پر ایسی رسمی، بے روح ، بے ذائقہ تقریریں عام ہیں،جس میںوہ مخصوص جملے ہوتے ہیں جو میاں طفیل محمد کے دور سے اب تک ہر امیر رٹے رٹائے انداز میں بولتا ہے،لوگ احتراماً سن لیتے ہیں، ہم بھی سنتے رہے۔ بعد میں جماعت کے سیکرٹری اطلاعات امیر العظیم کو خیال آیا تو انہوںنے امیر جماعت سے غیر رسمی گفتگو کی چھوٹی سی نشست رکھی۔ سچ تو یہ ہے کہ سراج الحق مجھے اچھے لگے،ان میں پشتونوں والامخصوص تپاک اور اپنائیت ہے۔ایک اچھی بات تھی کہ رپورٹروں کے سوالات پرسید منور حسن کی طرح مشتعل نہیں ہوتے، بات کرتے ہوئے ہلکا سا وقفہ لیتے ، جس میں انہیں سوچنے کا موقعہ مل جاتا۔ صحافیوں نے انہیں اکسانے کی بھرپور کوشش کی ،مگر ناکام رہے۔ سید منور حسن جلدٹریپ ہوجاتے تھے، ان کے مزاج میں تلخی بھی بدرجہ اتم موجود تھی، معمولی سی جسارت پر وہ بھڑک اٹھتے اور وہ کہہ بیٹھتے ، جس سے گریز لازم ہوتا۔ سید صاحب میں خوبیاں بھی بلا کی ہیں، دو کام انہوں نے جماعت کے لئے بہت اعلیٰ کئے۔ ایک ایم ایم اے کی مخالفت کر کے جماعت کو مولانا فضل الرحمن کے چنگل سے نکالا، دوسرا اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ اس مضبوطی سے ہر جگہ دہرایا کہ جماعت کو پرواسٹیبلشمنٹ کہنے والوں نے اپنی بات سے رجوع کر لیا۔ نئے امیرِ جماعت نے پچھلے چند ماہ میں خاصا پھونک پھونک کر قدم رکھا ہے۔ ان میں سیاسی پختگی بھی ہے اور توازن کی دولت سے بھی وہ مالامال ہیں۔ پاور پالیٹکس انہیں خوب آتی ہے، تحریک انصاف کا پلہ انہوںنے کمال خوبصورتی سے پکڑا ہوا ہے، خیبر پختون خوا کی اسمبلی بچانے اور اسی سیاسی سسٹم میں رہنے کی وہ بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے نوجوان کارکن تو سراج الحق اور جماعت اسلامی پر خفا ہیں کہ اس نے دھرنے میں کھل کر ساتھ نہ دیا، مگر یہ حقیقت ہے کہ سراج الحق نے بڑی حکمت عملی اور تدبر سے اپنے آپ کو الگ بھی رکھا اور تحریک انصاف کے ساتھ موجود تعلق ٹوٹنے بھی نہیں دیا۔ وہ ثالثی کمیٹی میں شامل تھے ، ان کے لئے کسی ایک فریق کا کھل کر ساتھ دینا مشکل تھا، مگر وہ دبے لفظوں میں تحریک انصاف کے ایجنڈے ہی کو سپورٹ کرتے رہے۔ بعض دوسرے سماجی ایشوز میں بھی ان کا رویہ اس قدر معتدل رہا کہ ٹوئٹر پر سرگرم بعض معروف لبرل سیکولر شخصیات پریشان پائی گئیں کہ نیا امیر تو جماعت کا امیج بہتر کر رہا ہے، یہ تنقید کا موقعہ ہی نہیں دے رہا۔ سراج الحق سیاسی اور پارلیمانی تجربہ رکھتے ہیں، اتحادبنائے رکھنے اور چلانے میں انہیں مہارت ہے۔ سیاسی حرکیات کو وہ سمجھتے ہیں۔ مسئلہ صر ف یہ ہے کہ جماعت اسلامی صرف سیاسی جماعت نہیں، اپنی ذات میں ایک نظریاتی تحریک بھی ہے۔ اس نظریہ کا کیا حال ہے، نظریاتی کارکن ، نظریاتی انٹیلی جنشیا اور عوام میں اس کی پزیرائی کے حوالے سے کیا کچھ کیا جا رہا ہے یا کیا جا سکتا ہے...یہ سب بہت اہم ہے۔ اس پر انشا ء اللہ اگلی نشست میں بات کریں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں