ایک اورلاحاصل مہم

چند دن پہلے اخبارات میں خبر شائع ہوئی کہ مسلم لیگ ق کالا باغ ڈیم کے حق میں ایک بھرپور مہم شروع کرنے والی ہے۔ چودھری پرویز الٰہی نے اس حوالے سے بتایا کہ کالا باغ ڈیم کا منصوبہ ملک وقوم کے لئے بے حد مفید ہے، اس لئے وہ اس پراجیکٹ کے حق میں مہم چلائیں گے۔ پچھلے تین چار دنوں کے دوران فیس بک پر بھی کالا باغ ڈیم کے حق میں کئی پوسٹ آئے، لوگوں نے حسب معمول اس منصوبے کی حمایت میں کمنٹس کئے اور اس کے مخالفین کو خوب جلی کٹی سنائیں۔ اگلے روز ایک اخبار میں کالاباغ ڈیم منصوبے کے حوالے سے کارٹون بھی شائع ہوا۔ کالموں اور تجزیوں میں ابھی یہ نمایاں نہیں ہوا کہ اس وقت عمران خان کے تیس نومبر کے جلسے اور ان کے خلاف ممکنہ حکومتی کارروائی پر زیادہ توجہ مرکوز ہے۔
مجھے لاہور میں رہتے بیس برس ہو گئے ، صحافتی کیریئر بھی اتنے ہی برسوں پر محیط ہے کہ خاکسار بطور صحافی ہی اس شہر نگاراں میں وارد ہوا تھا، جس کے سحر نے ایسا جکڑا کہ پھر کہیں اور کا نہیں چھوڑا۔ اس عرصے کے دوران صحافتی کمیونٹی اور دوسرے شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں میں ہر ایک کالاباغ ڈیم کا حامی ملا۔دو باتیں ہی سننے کو ملتی ہیں، ''کالاباغ ڈیم ملک وقوم دونوں کے لئے انتہائی اہم اور مفید ہے، دوسرا یہ کہ اس کی مخالفت کرنے والے ملک دوست نہیںیا وہ قوم پرست سیاستدانوں کے بہکاوے میں آ ئے ہوئے ہیں، جنہوں نے اپنے مفادات کے لئے اس منصوبے کو متنازع بنا رکھا ہے۔‘‘ میں نے کئی دوستوں سے پوچھا کہ بعض قوم پرست اتنی شدت سے کالاباغ ڈیم کے مخالف ہیں،کوئی وجہ تو ہوگی؟ اس کا جواب ہمیشہ یہی ملا، ''انہیں گمراہ کیا گیا ہے، اگر حقیقت سے آگاہ کیا جائے تو ان کی رائے بدل جائے گی۔ ‘‘ ممکن ہے یہ بات درست ہو، مگر مجھے ہمیشہ اس تیقن پر حیرت ہوئی۔یوں لگا کہ کالاباغ ڈیم کے حامی یہ طے کر بیٹھے ہیں کہ صرف وہی درست ہیں اور ان سے مختلف رائے رکھنے والے کو اپنی عقل کا ماتم کرنا چاہیے۔ لاہور آنے سے پہلے مجھے کراچی میں کچھ عرصہ رہنے کا اتفاق ہوا، زمانہ طالب علمی تھا، لکھنے کا شوق تھا، دو چار کالم بھی قومی اخبارات میں شائع ہوچکے تھے ، شہر کی مختلف علمی مجالس میں شریک ہونے کی کوشش کرتا۔میں نے یہی دیکھا کہ کالاباغ ڈیم کے حوالے سے قوم پرست حلقوں میں شدید مخالفت پائی جاتی ہے۔ سندھی قوم پرست تو اس حد تک مخالف تھے کہ وہ اس کا نام تک سننا گوارا نہ کرتے۔ ان کے پاس اپنے دلائل تھے ، مگر ایک بات میں وہ یکسو تھے۔ ان سب کو یقین محکم تھا کہ کالاباغ ڈیم منصوبہ سندھیوں کے لئے نہایت خطرناک اور تباہ کن ہے اور جو لوگ کالاباغ ڈیم بنانا چاہتے ہیں، وہ دراصل سندھ دشمن اور پنجابی سامراج کے حامی ہیں۔ کم وبیش یہی رائے خیبر پختون خوا کے پشتون قوم پرست رکھتے ہیں۔ 
ہمارے ہاں پنجاب میں خاص طور پر کالاباغ ڈیم کے حوالے سے جو رومانوی تصور پایا جاتا ہے، وہ سیاسی شخصیات اور کبھی میڈیا گروپس کو بھی اس منصوبے کے حق میں باربارمہم چلانے پر آمادہ کر دیتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے تو اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے اپنی پرجوش تقریر کے آخر میں کالاباغ ڈیم بنانے کا اعلان کیا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی لکھی تقریر میں وہ بات شامل نہیں تھی، یہ انہوں نے آخری وقت میں اپنے مشیروں کے کہنے پر شامل کی تھی، جن کے خیال میں کالاباغ ڈیم بنا کر میاں صاحب تاریخ میںامر ہوسکتے ہیں۔ یہ اور بات کہ ان کا یہ اعلان بھی چند ہفتوں بعد ٹھس ہو کر رہ گیا، جب انہیں بتایا گیا کہ اس منصوبے پر عملی پیش رفت کرنے سے سندھ میں شدید ردعمل ہوگا۔ برسوں بعد‘ جب آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات میں ہولناک زلزلہ آیا تو پاکستانی قوم دیوانہ وار متاثرین کی مدد کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی، یوں لگا جیسے پوراملک اپنے تمام تر اختلافات بھلا کر متحد ہوگیا۔ انہی دنوں جنرل پرویز مشرف نے کالاباغ ڈیم کے حوالے سے مہم شروع کر دی اور اندرون سندھ اہم شخصیات کی حمایت لینے کی کوشش کی ،جو شدید عوامی ردعمل پیدا ہونے کی وجہ سے کامیاب نہ ہوسکی۔دراصل پنجاب کی اشرافیہ اور انٹیلی جنشیا کو دو باتوں کا کبھی ادراک ہی نہیں ہوسکا۔ ایک یہ کہ سندھیوںمیں اس منصوبے کے حوالے سے اس قدر شدید قسم کے تحفظات پیدا ہوچکے ہیں کہ اب کسی بھی قسم کی مہم یا گریٹ ڈیبیٹ انہیں دور نہیں کر سکتی۔سندھیوں کے اس منصوبے پر دو تین تکنیکی اعتراضات ہیں، سندھ کے ہر چیف انجینئر نے انہی اعتراضات پر سٹینڈ لیاہے۔ سندھی سمجھتے ہیں کہ پنجاب نے اپنے حصے کے تین دریاستلج، راوی اور بیاس بھارت کو بیچ دئیے ہیں، اب سندھ پر ان کا حق نہیں بنتا، یہ سندھیوں کا دریاہے۔ ہمارے اکثر ماہرین اس پر کڑھتے ہیں کہ ہر سال ہزاروں لاکھوں کیوسک پانی سمندر میں گر کر ضائع ہوجاتا ہے۔ سندھی اسے ضائع ہونا نہیں سمجھتے۔دراصل سمندر کے نمکین پانی کی وجہ سے ٹھٹہ، بدین اور دیگر ساحلی علاقوں کی ہزاروں ایکڑ اراضی ناکارہ ہوچکی ہے۔ سمندر میں گرنے والے میٹھے پانی کی وجہ سے وہ نمکین پانی پیچھے ہٹ جاتا ہے اورزمین پر اس کے مضر اثرات کم ہوجاتے ہیں۔ اس لئے سندھی ماہرین ہمیشہ ڈائون سٹیم کوٹری چند لاکھ کیوسک پانی بہنے کے پرزور حامی رہے ہیں۔ پھر سندھ کی مشہور پلہ مچھلی اور مینگرووز بھی اسی میٹھے پانی کے مرہون منت ہے۔ سب سے بڑھ کرسندھی ماہرین کے ذہنوں میںپنجاب کے حوالے سے موجود تحفظات ہیں۔انہیں یہی خدشہ ہے کہ ایک بار پانی ذخیرہ ہوگیا تو اس کا استعمال پنجاب کی مرضی اور اس کے مفاد میں ہوگا۔ مختلف حکمرانوں نے اس تاثر کو دور کرنے کے لئے مختلف فارمولے متعارف کرائے،مگر عدم تحفظ دور نہیں ہوسکا، ٹیلی میٹری سسٹم تک یہ منفی تاثرختم نہیں کر پایا۔ برسوں پہلے پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک واپڈا افسرنے مجھے بتایا کہ سمندر کے نمک کی وجہ سے سندھ کے ساحلی علاقوںکی جو اراضی ناکارہ ہورہی ہے، اسے بچانے کے لئے مختلف منصوبے تجویز کئے گئے ہیں، مگر بے عملی کی وجہ سے کچھ نہیں کیا گیا۔
وجوہ جو بھی ہوں، یہ حقیقت ہے کہ پنجاب کی سیاسی اشرافیہ اور انٹیلی جنشیا سندھیوں کے تحفظات، خدشات اور خوف دور کرنے میں ناکام رہی، سچ تو یہ ہے کہ ہم سب ناکام ہوئے۔ ہم سے پہلی اور ہماری نسل کالاباغ ڈیم بنانے ، اس کے لئے فضا ہموار کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اب وقت ہی اس کا علاج ہے۔ کالاباغ ڈیم کے منصوبے کو بیس پچیس برسوں کے لئے فریز کر دینا چاہیے، ممکن ہے ہماری آنے والی نسل اپنے تعصبات سے اٹھ کر اس کا کوئی حل ڈھونڈ سکے۔ اس قسم کے بڑے منصوبوں کی ٹیکنیکل فزیبلٹی کے ساتھ ساتھ سیاسی فزیبلٹی بھی ہوتی ہے، کالاباغ ڈیم کی سیاسی فزیبلٹی نہیں بن پا رہی۔ تب تک ہم دوسرے بڑے ڈیم بنا لیں۔ بھاشا ڈیم بنانے میں دس بارہ سال لگ جائیں گے، اس کے لئے ابھی تک فنڈز نہیں جمع ہو پا رہے۔ داسو ڈیم اگر بنا لیں تو ڈھائی ہزار میگاواٹ سستی بجلی تو ملے گی، بھاشا ڈیم کے بعد بونجی ڈیم بنا کر ہم سات ، ساڑھے سات ہزار میگاواٹ مزید بنا سکتے ہیں۔اکھوڑی ڈیم اگر بنا لیں تو پانی ذخیرہ ہونے کے ساتھ چھ سو میگا واٹ بجلی بھی بن جائے گی۔ کالا باغ ڈیم کو ابھی بھول کر قابل عمل منصوبوں کی طرف جانا چاہیے۔ لاحاصل مباحثوں اور وقت ضائع کر نے والی مہمات کے بجائے کبھی ٹھوس کام بھی کر لینا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں