ہیروز‘ جن کا اعتراف کیا گیا

وہ ایک عجیب شام اور اتنی ہی عجیب تقریب تھی۔ ہم صحافیوں کی تربیت کا حصہ ہے کہ جذبات کو ایک طرف رکھ کر پروفیشنل آنکھ سے ہر چیز دیکھی جائے، ویسے بھی پیشہ ورانہ زندگی کے پچھلے بیس برسوں میں اتنا کچھ دیکھ لیا ہے کہ دل آسانی سے نرم نہیں ہوتا۔ نومبر کی اس گلابی شام نے مگر دل پر عجب انداز سے اثر ڈالا۔ کئی بار آنکھیں بھیگ گئیں۔وہ تقریب کچھ ہیروز کو خراج تحسین کرنے کے لئے بپا کی گئی تھی۔ ایسے ہیروز جن کا اعتراف نہیں کیا جاتا، جن کے گیت نہیں گائے جاتے ، جو ہمیشہ unsungہیرو ہی رہتے ہیں۔ اس شام کے تیور عجیب تھے۔ ہم نے وہ ہوتے دیکھا،جو کم کم ہی نظر آتا ہے۔ پورا ہال ایک عمر رسیدہ ریٹائرڈ سکول ٹیچر کے لئے کھڑا ہوا۔ اس استاد کو خراج تحسین پیش کیا گیا، جس نے اپنی زندگی کے بہترین ماہ وسال بچوں کی تعلیم وتربیت کے لیے وقف کر دئیے۔ پنشن پا کر وہ گھر چلا گیا، اپنے جیسے ان گنت ریٹائرڈ گمنام اساتذہ کی طرح۔اسے اندازہ بھی نہیں ہو گا کہ اس شام لوگوں سے کھچا کھچ بھراہال اٹھ کر اس کا استقبال کرے گا،شاندار ہدیہ تبریک پیش کرے گا۔ 
تقریب کے آغاز ہی میں جھٹکا لگا، جب نعت پڑھنے کے لئے ایک خاتون کو بلایاگیا۔ معمولی لباس میں ملبوس ایک نیک دل خاتون آئی، سادگی ایسی کہ دس بارہ ماہ کا بچہ گود میں اٹھائے، سیدھی مائیک پر چلی آئی۔ ایسے دل وجاں سے نعت پڑھی کہ پورے ہال میں سناٹا چھا گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ چار پانچ جماعتیں پڑھی اس خاتون کی نعتوں کا ایک مجموعہ شائع ہوچکا ہے۔ نعت پڑھنا اس نے اپنی زندگی کا شعار بنا رکھا ہے۔ تقریب کا پہلا ہیرو ایک نوجوان تھا۔ اس کی زندگی عزم وہمت کا ایک اچھوتا استعارہ تھا۔ پانچ بہنوں کے بعد وہ پیدا ہوا، ماں باپ غریب مگر محنت کش تھے، لاڈلا بیٹا تھا، بڑے چائو سے پالا، سکول پڑھ رہا تھا ۔ آٹھویں جماعت میں ایک روز گوجرانوالہ سے مریدکے آتے ہوئے بس میں لڑائی ہوگئی، ایک شرابی نے فائرنگ کر دی، اس کی ریڑھ کی ہڈی میں گولی لگی اور نچلا دھڑ مفلوج ہوگیا۔ اپنی بساط کے مطابق علاج کرانے کی کوشش کی گئی، ناکامی ہوئی۔ ایک دن مقامی سکول ٹیچر گزرا، لڑکے نے استدعا کہ سر کوئی کتاب تو پڑھنے کو دیں۔ نیک دل ٹیچر نے کتاب پڑھنے کو دی اور پھر یوں سلسلہ چل نکلا۔ لڑکے کو خیال آیا کہ پڑھا جائے۔ ٹیچر نے پڑھانے کی ہامی بھری۔ اپنے فولادی عزم کی بدولت اس لڑکے نے میٹرک، ایف اے، بی اے اور پھر ایم اے کر ڈالا۔ ایک ٹیوشن سنٹر کھولا، اس قدر محنت کی کہ دور دراز کے لوگ بھی اپنے بچے ادھر بھیجنے لگے۔ جو خود مفلوج اور بے سہارا بن چکا تھا، اس نے ہمت اور قدرت نے مدد کی ، آج وہ پورے گھر کا سہارا ہے، چھوٹے بھائیوں کو پڑھایا، بہنوں کی شادی کی۔ جب وہیل چیئر پر بیٹھے اس باریش نوجوان کو شیلڈ دی گئی اور پورے ہال نے کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں تو وہ منظردیکھنے کے قابل تھا۔ 
ایک ایک کر کے اس چھوٹے پسماندہ شہر کے عزم وہمت اور ایثار کے جذبوں سے سرشار حقیقی ہیرو سٹیج پر آتے ، اپنی شیلڈ لیتے گئے۔ ایک نوجوان جو ایف اے میں انگریزی میں فیل ہوگیا۔ اس نے تہیہ کیا کہ انگریزی میں کمال حاصل کرنا ہے۔ وہ گھر میں ہفتوں بند ہو کر بیٹھا اور کتابیں پڑھتا رہا۔ اس قدر محنت کی کہ گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ ہوگیا۔ انگلش لٹریچر میں ایم اے ، آسٹریلیا سے انگریزی زبان میں پی ایچ ڈی اورجرمنی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کیا۔ پنجاب یونیورسٹی، گورنمنٹ کالج، فاسٹ جیسے اداروںمیں پڑھایا، بڑے انگریزی اخبارات میں لکھا اور اپنے فن کا لوہا منوایا۔ مقامی کالج کے ایک لائبریرین‘ جسے پڑھنے ، آگے بڑھنے کا شوق تھا‘ نے سوشیالوجی میں ایم اے کیا، سکالر شپ پر کینیڈا سے کرمنالوجی میں پی ایچ ڈی کی اور آج پنڈی کی مشہور یونیورسٹی میں پڑھا رہا ہے۔ نہایت غریب مگر محنت کش گھرانے کا ایک نوجوان ، جس نے ٹیوشن پڑھا کر خود تعلیم حاصل کی اور گھر بھی چلایا‘ فزکس میں ایم ایس سی کی، جرمنی سے فزکس میں پی ایچ ڈی اور آج کل جرمنی ہی میں بطور ریسرچ سائنس دان کے کام کر رہا ہے۔ مقامی سادات کے ایک معزز گھرانے کے بزرگ ،جولاہور کے اس نواحی قصبہ نما شہر میں بیٹھ کر فارسی شاعری کر رہے ہیں‘ اب تک ان کے فارسی شاعری کے بارہ مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ اس بگڑے دور میں جب فارسی بولنے والا کوئی ،نہ سمجھنے والا، وہ اسی 
شعری روایت کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایک ایسے صاحب سے بھی ملاقات ہوئی، جو خود زیادہ خوشحال نہیں، مگر دیانت داری کی کریڈیبلٹی سے مالا مال ہیں۔ انہوں نے نادار بچیوں کی اجتماعی شادیوں کا سلسلہ شروع کیا۔ پہلے پانچ سات، پھر بیالیس، پھر تریسٹھ اور پچھلے سال بانوے بچیوں کی اجتماعی شادی کرائی۔ برسوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ بتایا گیا کہ ہر بچی کو مکمل جہیز دیا جاتا ہے اورشادی کی تقریب میں ہزاروں لوگ شریک ہوتے ہیں۔ ایک اور نیک دل انسان کا تذکرہ ہوا ، جس کا بچپن ادھر گزرا، مگر اب وہ لاہور میں رہتا ہے، اپنے سابق شہر والوں کو اس نے یاد رکھا، ایک فری ہسپتال بنا ڈالا، جہاں دس بیس روپے کی پرچی کے عوض آنکھوں کی تمام تر فری ٹریٹمنٹ کرائی جاسکتی ہے۔ ہر ماہ ڈھائی تین لاکھ روپے اپنی جیب سے ڈالتے ہیں۔ایک صاحب نے انگریزی میں قرآن پاک پر کتاب لکھ ڈالی، ایک بچی جو ابھی طالبہ ہے، مگر اس نے اردو ناول لکھ کر شائع کر ا لیا۔شہر کے پہلے صاحب دیوان شاعر کو بھی ایوارڈ دیا گیا۔ 
''ہیروز آف مریدکے ‘‘کے نام سے یہ تقریب ہمارے ایک صحافی دوست نے سجائی۔ انہوں نے مریدکے کو روایت ، جدت اور امید کی بستی قرار دیا۔دانشور اور قانون دان پروفیسر ہمایوں احسان مہمان خصوصی تھے۔ ہمایوں صاحب نے جو تقریر کی، کاش اسے نقل کر لیتا تو چند فقرے یہاں بھی لکھ دیتا۔ اتنا کہہ سکتا ہوں کہ اس سے بہتر موٹی ویشنل لیکچر کم ہی سننے کو ملا۔ ہفتہ کی دوپہر اس تقریب میں شرکت کے لئے جب روانہ ہوا تو دل اداس تھا۔ عجب سی کہولت طاری تھی۔ڈھائی تین گھنٹے وہاں گزرے، یوں محسوس ہوا، دل دھل کر صاف ہوگیا۔ ایک نئی امید، نیا ولولہ سا امنڈنے لگا۔ ایک دوست نے تقریب پر رائے پوچھی تو عرض کیا، تین باتیں حیران کن ہوئی ہیں۔ ایک تو ہیروز کو خراج تحسین پیش کرنے کا آئیڈیا ہی شاندار ہے۔ ہمارے ہاں ہیروز کو سراہنے، انہیں گلیمرائز کرنے اور آئیکون بنانے کا رواج ہی نہیں۔ الٹا ہم نے ایک ایک کر کے اپنے تمام ہیروز کے چہرے مسخ کر ڈالے ، ان کی آنکھیں نوچ ڈالیں۔ جس سے یہ خطرہ محسوس ہو کہ کہیں ہیرو نہ بن جائے، اس کی کردار کشی شروع کر دیتے ہیں۔ دوسرااہم کام یہ ہوا کہ حقیقی ہیروز تلاش کئے گئے۔ فنکاروں، کھلاڑیوں کو تو ہمیشہ عزت، تکریم ملی۔ علم وادب کے میدان میں نمایاں کام کرنے والے ہمیشہ گمنام اور unsung ہیرو ہی رہے۔ اس تقریب میں ایسے ہی گمنام سپاہیوں کو نمایاں کیا گیا۔ تیسری بات یہ ہے کہ ہر طرف سے پھیلی مایوسیوں اور تاریکیوں کے اس دور میں یوںلگتا ہے کہ جیسے کہیں پر کچھ اچھا ہو ہی نہیں رہا۔ اس قسم کی تقریبات وہ منفی تاثر دھو ڈالتی اور یہ بتاتی ہیں کہ اچھا کام کرنے والے موجود ہیں، انہیں سراہنے والوں کی البتہ کمی ہے۔ اوائل سردیوں کی اس بھیگی شام لاہور واپسی پر یہی خیال ذہن میں تھا کہ کاش یہ رجحان دوسرے شہروں، قصبوں اور بستیوں تک بھی پہنچے۔ وہ بھی اپنے اپنے ہیروز کے لئے یوں کھڑے ہوں، انہیں عزت دیں، سر آنکھوں پر بٹھائیں۔اپنے اپنے حصے کی شمعیں جلائیں کہ اگر ایسی ہزاروں شمعوں کی روشنی اکٹھی ہو تو تاریکی چھٹتے پتہ نہیں چلے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں