سوشل میڈیا کی سیاست

پچھلے دو تین برسوں کے دوران سوشل میڈیا کی ہمیں ایسی لت پڑی کہ روزانہ دو تین گھنٹے اس پر صرف ہوجاتے ہیں۔ کئی بار سوچا کہ فیس بک چھوڑ چھاڑ کر اکائونٹ ہی ڈی ایکٹی ویٹ کر لیا جائے، کئی بار دانستہ دو چار دن کا وقفہ بھی دیا، مگر پھر واپس لوٹ آتے ہیں۔ دوسرے لکھنے والوں کا علم نہیں، مجھے یوں لگتا ہے کہ فیس بک کا معاملہ تھیٹر کا سا ہے۔ ٹی وی، فلم اور تھیٹر پر کام کرنے والے اداکار اکثر تھیٹر کے حوالے سے یہ کہتے ہیں کہ ادھر ردعمل فوری مل جاتاہے، جس کی وجہ سے سٹیج ڈرامے میں کام کرنے کا زیادہ لطف بھی آتا ہے اور ذمہ داری کا احساس بھی رہتا ہے۔یہی صورتحال سوشل میڈیا کی ہے۔ ویسے کالم لکھیں تومیلز، ٹیکسٹ میسجز یا خطوط کی صورت میں اگلے روز یا دو تین دنوں میں فیڈ بیک ملتا ہے ۔ فیس بک پر کالم پوسٹ کیا جائے تو اگلے چند منٹوں میں ردعمل سامنے آنے لگتا ہے۔ مثبت یا منفی، دونوں صورت ۔ ٹوئٹر کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ اگرچہ مجھے کوشش کے باوجود ٹوئٹر سے ابھی تک زیادہ رغبت ہو نہیں سکی، فیس بک نسبتا ًزیادہ آسان اور دلچسپ ہے۔ سوشل میڈیا آج کل سیاسی جماعتوں کی توجہ کا مرکز بھی بنا ہوا ہے۔ ہر کسی نے اعلانیہ یا غیر اعلانیہ طور پر اپنے سوشل میڈیا سیل بنا رکھے ہیں، جن کے ارکان مختلف آئی ڈیز بنا کر اپنا موقف پیش کرتے رہتے ہیں۔ ان میں سے بعض آئی ڈیز خواتین کے ناموں سے بھی بنی ہوتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر مٹر گشت کا ایک فائدہ ہمیں یہ بھی ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی ان شرمائی، لجائی ہوئی حرکتیں دیکھنے کا موقعہ مل جاتا ہے۔ بھئی سیدھا طریقہ تو یہ ہے کہ اپنے آفیشل پیج ہی سے ہر قسم کی وضاحت جاری کی جائے ، کسی اور فورم پر بھی اپنا نقطہ نظر دینا ہو تو اسی آفیشل آئی ڈی کا استعمال کیا جائے۔ ایسا مگر ہوتا نہیں۔ 
فیس بک پرتحریک انصاف، مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی کے لوگ زیادہ متحرک نظر آتے ہیں۔ ان سب کے اپنے سوشل میڈیا سیل ہوں گے، مگر ان سے وابستہ افراد اپنے طور پر بھی فعال ہیں۔مسلم لیگ ن کے حامیوں میں مسلم لیگی سوچ اور ذہن رکھنے والوں کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی شامل ہیں جو عمران خا ن کو مختلف وجوہ کی بنا پر پسند نہیں کرتے۔ یہ تحریک انصاف اور عمران خان کے بارے میں طنزیہ نعرے، میسج اور کیری کیچر وغیرہ پوسٹ کرتے ہیں، ان میں سے خاصی چیزیں معیار سے گری ہوئی اور عامیانہ بھی ہوتی ہیں۔ تحریک انصاف کے حامیوں کا جواب بھی الا ماشااللہ ویسا ہی ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی کے بارے میں اس کے مخالفین ، خاص طور پر میڈیا میں مسلم لیگ ن کے ترجمانی کرنے والے اخبارنویسوں اور تجزیہ کاروں کا یہ شکوہ ہے کہ یہ لوگ بہت متحرک ہیں اور عمران خان پر تنقید کرنے والوں کا ناطقہ بند کر دیتے ہیں۔ تحریک انصاف کے ان ناقدین کے خیال میں پی ٹی آئی نے اس مقصد کے لئے باضابطہ سیل بنا رکھے ہیں۔ یہ الزام پڑھ کر مجھے ہمیشہ ہنسی آتی ہے۔ جو لوگ اپنے حامیوں کو مثبت فیڈ بیک نہ دے سکیں، ان کی ستائش نہ کر سکیں، مخالفین کے خلاف منظم مہم انہوں نے کیا چلانی ہے۔ ویسے تو تحریک انصاف میں کسی بھی منظم شعبے کا وجود ہی نہیں۔ اس پارٹی کی سب سے بڑی خامی بھی یہی ہے کہ تنظیم نہیں، کوئی رہنمائی کرنے والا ہے نہ ہی کارکن متحد ہیں۔ ان کی میڈیا ٹیم کا بھی اللہ ہی حافظ ہے۔تحریک انصاف سے وابستہ نوجوان البتہ بہت زیادہ متحرک ہیں، ان میں اوورسیز پاکستانی بھی شامل ہیں۔ انصافین نوجوانوں میں تندی زیادہ ہے اور برداشت نسبتاً کم۔ میں نے دیکھا کہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف دونوں کے نوجوان ایک دوسرے کے خلاف کم وبیش ایک ہی طرح کے الزامات لگاتے اوراکثر اوقات عامیانہ انداز اپناتے ہیں۔ہمارے قومی سیاسی منظرنامے میں اصل مقابلہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن میں ہو رہا ہے،پیپلزپارٹی ایک کونے میں بیٹھی ہے۔ لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی کوپروا ہی نہیں کہ وہ صرف اندرون سندھ تک محدود ہوچکی ۔ ہمارے اکثر سیاستدان آصف زرداری صاحب کے سیاسی تدبر کو سراہتے اور کہتے ہیں کہ ان سے سیاست سیکھنا چاہیے۔ ممکن ہے یہ بات درست ہو، مگر عملی طور پر تو انہوںنے بھٹو کی ملک گیر پارٹی کو ایک صوبے بلکہ آدھے صوبے تک پہنچا دیا ہے۔سوشل میڈیا پر بھی پیپلزپارٹی کی یہی صورتحال ہے۔ مجال ہے کہیں پر پیپلزپارٹی کا موقف منظم انداز میں پیش کیا جائے۔ ایک آدھ جیالا کبھی تلملا کر بول پڑا تو بول پڑا ، ورنہ ان کی طرف سے خاموشی ہی چھائی رہتی ہے۔ البتہ سابق جیالے خاصے نظر آ جاتے ہیں، جو بھٹو صاحب کے سحر میں گرفتار ہیں، مگر حالات کا جبر انہیں تحریک انصاف یا کسی اور جماعت میں لے گیا یا پھر وہ سیاست ہی سے لاتعلق ہوگئے۔ البتہ جہاں کسی پوسٹ میں بھٹو صاحب پر بات ہوئی، وہاں ان کی جیالے پن کی رگ پھڑک اٹھتی اور ان کے کمنٹس میں تندی اُمڈ آتی ہے۔
جماعت اسلامی کی منظم تنظیم کی طرح سوشل میڈیا پر بھی ان کے حامیوں میں تنظیم نظر آتی ہے، بلکہ اگرجماعت والے اسے گستاخی نہ سمجھیں تو یہ کہوں گا کہ وہ ضرورت سے زیادہ منظم ہیں۔ ان کے حامی ایک دوسرے کو فوری مدد بہم پہنچاتے بلکہ ایک دوسرے کے کمنٹس کو اپنی اپنی وال پر شیئر کرتے ہیں۔اگلے روز ایک دوست بتا رہے تھے کہ بلاگنگ کے حوالے سے بھی جماعت والے متحرک ہو رہے ہیں، وہ سوشل میڈیا کو ایک چیلنج سمجھ کر پورے دعوتی شعور کے ساتھ ادھر کا رخ کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں، بطور سیاسی جماعت ان کا حق ہے، مگر یہ یاد رکھا جائے کہ جب بھی کسی فورم یا کسی کے پیج پر لوگ جتھا بنا کر حملہ آور ہوں تو ہمیشہ اس کا منفی اثر برآمد ہوتا ہے۔ اپنا نقطہ نظر دیا جائے ،مگر دوسرے کی بات بھی سنی جائے، اسے کچلنے یا اس کا مذاق اڑانے کی کوشش نہ کی جائے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی خیبرپختون خوا میں اتحادی ہیں، اگلے الیکشن میں بھی ان کا فطری الائنس بن سکتا ہے۔ ان کا ایجنڈا بھی ملتا جلتا ہے، مگر سوشل میڈیا پر ان کے حامیوں میں خاصا فاصلہ ہے۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دل سے قبول نہیں کیا۔ جیسے ہی کوئی موقعہ ملے، ایک دوسرے پر جھپٹ پڑتے ہیں۔ انصافین کا جارحانہ انداز تو ان کا ٹریڈ مارک بن چکا ہے، مگر جماعت یا جمعیت والے بھی وہی انداز اپناتے ہیں۔ دراصل ان کا عمران خان سے لو ہیٹ (Love Hate) ریلیشن ہے۔ ایک دوسرے کے بغیر بات بھی نہیں بنتی، مگر دلی طور پر دوسرے کو پسند بھی نہیں کرتے۔ جماعت کوعمران خان سے یہ خطرہ لاحق ہے کہ وہ ان کے یوتھ ووٹ کا کہیں صفایا نہ کر دے۔ پچھلے الیکشن میں پنجاب، کے پی کے اور خاص طور پر کراچی میں جماعت کے ووٹ بینک کا خاصا حصہ تحریک انصاف کی طرف گیا۔ جماعت اسلامی کی قیادت کا علم نہیں، مگر جماعتی سوچ رکھنے والے لوگ اس خطرے کومحسوس کرتے ہیں کہ اگر عمران خان سے ایک خاص قسم کا فاصلہ برقرار نہ رکھا گیا، تحریک انصاف کے ایجنڈے اور طریقہ کارپر تنقید نہ کی جاتی رہی تو اگلی بار نقصان زیادہ گہرا اور وسیع ہوسکتا ہے۔
سیاسی جماعتوں کی سوشل میڈیا میں دلچسپی خوش آئند ہے، مگرافسوس یہ ہے کہ جتنی محنت اپنے مخالفین کے پروپیگنڈاکو رد کرنے میں کی جار ہی ہے، اس سے کئی گنا کم محنت کر کے یہ جماعتیں اپنا موقف اچھے طریقے سے پیش کر سکتی ہیں۔ انہیں چاہیے کہ یہ مختلف ایشوز پردلائل کے ساتھ اپنا نقطہ نظر بیان کریں اور اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا سے اپنے کارکنوں کی نظریاتی تربیت کا کام بھی لیں۔ یہ بات ابھی نظر نہیں آرہی۔ہماری سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا کو ٹی ٹوئنٹی میچ نہ سمجھیں، بلکہ اسے ٹیسٹ میچ کی طرح لیں، یہ طویل دورانئے کی جنگ ہے، جسے زیادہ ٹھوس انداز میں اور گہرائی کے ساتھ لڑا جانا چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں