فیصلہ کن وار

غیاث الدین بلبن ہندوستان کے نامور بادشاہوں میں سے ایک تھے۔ بلبن کی بادشاہت اور طرز حکمرانی کا مشاہدہ کیا جائے تو بڑے دلچسپ نتائج سامنے آتے ہیں۔ ضیاالدین برنی نے تاریخ فیروز شاہی میں بلبن کی وصیت اور اس کے مختلف امرا کو مشورے کا تفصیل سے ذکر کیا۔ پڑھ کر بلبن کے ویژن اور فراست پر رشک آتا ہے۔ شہزادہ محمد‘ بلبن کا چہیتا بیٹا اور اس کا جانشین تھا۔ منگول حملہ آوروں سے لڑتے ہوئے ایک جنگ میں شہزادہ محمد شہید ہو گیا۔ بلبن کو جب یہ اطلاع ملی تو وہ دربار میں بیٹھا تھا۔ مورخ کہتے ہیں کہ بلبن نے سپاٹ چہرے کے ساتھ یہ بات سنی، برداشت کا یہ عالم تھا کہ اس کے چہرے کا رنگ تک نہ بدلا، اس نے قاصد کی بات سنی اور پھر لاتعلقی سے جنگ کی دوسری جزئیات پوچھنے لگا۔ بعد میں اپنے محل کے اندر جا کر بوڑھا بادشاہ دھاڑیں مار کر رویا۔ ایک تو چہیتے جوان بیٹے کا غم، دوسرا سلطنت کا لائق وارث چھن گیا۔ بعد میں اس کے ایک قریبی مصاحب نے پوچھا کہ آپ نے ایسی کمر توڑ دینے والی خبر پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔ بلبن نے غمزدہ آنکھوں سے اپنے مشیر کی طرف دیکھا اور کہا، ''میرے دشمن اور وحشی منگول یہ چاہتے تھے کہ میں اس خبر پر روئوں، وہ میری کمزوری، میرے آنسوئوں کا مذاق اڑانے اور اسے اپنی فتح کی نشانی قرار دینے کے لئے بے تاب تھے۔ میں نے اسی لئے اس صدمہ کو برداشت کیا کہ اپنے دشمنوں کی خواہش نہ پوری کی جائے۔ یہ واقعہ رونے، غم زدہ ہونے کے لئے نہیں، بلکہ اس سے میں نے نئی قوت لی ہے اور اسے اپنے دشمنوں کو رلانے، انہیں کیفر کردار تک پہنچانے اور ان کے مکمل خاتمے کے لئے استعمال کروں گا‘‘۔
پچھلے تین دنوں سے اخباری صفحات اور ٹی وی سکرین سے غم و اندوہ کی جو تصویر پیش کی جا رہی ہے، جذباتی حزنیہ اشعار، المیہ گیت، دلوں میں اتر جانے والے فوٹیج، پُراثر تحریروں کو دیکھ کر کون سنگ دل ہے، جس کے اعصاب شکستہ، دل موم نہیں ہوا، آنکھیں برستی نہیں رہیں۔ ہر ایک نے اپنے اپنے انداز سے اس کرب، اس المیے کو محسوس کیا، اسے بیان اور شیئر کیا ہے۔ ایک بات کا مگر شدت سے بار بار احساس ہوا کہ اب بطور قوم ہمیں رونے، غم منانے سے زیادہ اس خون ناحق کا بدلہ لینے کے لئے پوری قوت سے کھڑا ہونا چاہیے۔ اب رونے نہیں بلکہ ان سفاک، وحشی دہشت گردوں اور ان کے حامیوں کو خون کے آنسو رلانے کا وقت ہے۔ جن درندوں نے یہ لہو بہایا، انہیں اس کی بھیانک قیمت ادا کرنی چاہیے۔ غم منانے کو عمر پڑی ہے، یہ مناظر جس کسی نے دیکھے، وہ اسے کبھی نہیں بھلا سکے گا۔ ہماری نسل کی یادداشتوں میں یہ ہولناک، دل ہلا دینے والے منظر اپنی تمام تر بدصورتی اور شدت کے ساتھ محفوظ ہو گئے ہیں۔ باقی زندگی ہمیں دکھوں کا یہ بوجھ اٹھا کر سفر کرنا ہو گا۔ یہ وقت لیکن عمل کا ہے۔
سب سے پہلے ہمیں یہ طے کر لینا چاہیے کہ ان دہشت گردوں کی کسی بھی قسم کی حمایت برداشت نہیں کی جائے گی۔ ان درندوں کی اصل قوت ہمارے سماج میں موجود ان کے فکری، نظریاتی حامی اور طرف دار ہیں۔ یہی لوگ ہیں، جو وقت پڑے پر ان کے سہولت کار (Facilitator) بن جاتے ہیں۔ ان وحشی درندوں کو اپنے گھروں میں ٹھہراتے، کھانے کھلاتے، مالی مدد کرتے، ریکی کرتے، لاجسٹک سپورٹ فراہم کرتے اور یوں دہشت گردی کی واردات کو کامیاب بناتے ہیں۔ اگر دہشت گردی کے عفریت کو قابو کرنا ہے تو دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ ان کے ساتھ زیرو ٹالرنس والا رویہ اپنانا ہو گا۔ اس حوالے سے قوانین موجود ہیں، اگر ضرورت محسوس کی جائے تو انہیں مزید سخت بنایا جائے۔ دہشت گردوں کی مدد کرنے والا ہر شخص دہشت گرد تصور ہو اور اسے سزائے موت ہی کا حقدار ٹھہرایا جائے۔ دہشت گرد تنظیموں کا نیٹ ورک کے پی کے کے علاوہ پنجاب کے بیشتر شہروں اور کراچی میں موجود ہے۔ پنجاب میں کالعدم تنظیموں کے خلاف پوری قوت سے کارروائی نہیں کی جاتی رہی۔ میں اس حوالے سے کسی الزام یا بلیم گیم میں نہیں جانا چاہتا۔ یہ اس کا وقت نہیں، تاہم ماضی میں کمزوری کی وجوہ جو بھی ہوں، اب یہ طرز عمل بدل جانا چاہیے۔ مسلح گروپوں کو کسی صورت برداشت نہیں کرنا چاہیے۔ ان میں سے بعض گروپ ایسے ہیں، جو بظاہر حکومت یا ریاست کے مخالف نہیں، مگر ان گروپس میں سے کچھ لوگ اپنے پرانے تعلقات اور مسلکی یا فکری ہم آہنگی کی بنا پر دہشت گردوں کا ساتھ دیتے اور انہیں لاجسٹک سپورٹ فراہم کرتے ہیں۔ بہت ہو چکا، یہ سب اب ختم ہو جانا چاہیے۔ سانحہ پشاور کے بعد کا پاکستان پہلے سے مختلف ہونا چاہیے۔ یہ فورسز، ایجنسیوں، حکومت ، سیاسی جماعتوں، انٹیلی جنشیا اور میڈیا سمیت ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ 
دہشت گردی کے خاتمے کے لئے نیکٹا نام کا ادارہ بنایا گیا تھا، مگر عملی طور پر اس کے لئے کچھ نہیں کیا گیا۔ اب ہنگامی حالات میں یقیناً اسے فعال بنایا جا رہا ہو گا۔ ایک بات مگر یاد رکھنی چاہیے کہ کائونٹر ٹیررازم فورس ضرور بنے، مگر اصل کام پولیس نے کرنا ہے۔ ہمیں اپنے پولیسنگ سسٹم کو مضبوط اور موثر بنانا ہو گا۔ ان کی نفری میں اضافہ، سیاسی دبائو سے آزاد کرنا، اہل افسروں کی تعینانی اور خاص طور پر پولیس کے روایتی مخبری نظام کو بحال کرنا ہو گا۔ پولیس ہر گلی محلے میں موجود ہے، دہشت گردوں کی کمین گاہیں اسی نظام کے ذریعے ہی کھوجی اور تلاش کی جا سکتی ہیں۔ کس نے کرائے پر گھر لیا ہے، کون کیا کر رہا ہے، یہ سب باتیں پولیس کا مخبری نظام ہی بتا سکتا ہے۔ اس پر انویسٹمنٹ کی جائے۔
دہشت گردی کو سپورٹ کرنے والوں کی ایک قسم وہ ہے جو اگر مگر‘ چونکہ چنانچہ اور مختلف عذر کی بنا پر قاتلوں اور دہشت گردوں کو سپورٹ کرتی ہے۔ اب ان کا بھی پوری قوت اور سختی سے محاسبہ اور محاکمہ کرنا چاہیے۔ اب سرخ لکیر کھینچی جا چکی۔ دہشت گردوں کا کوئی حامی ہے یا مخالف۔ درمیان کی منافقانہ جگہ نہیں رہی۔ جس نے سانحہ پشاور کی مذمت کرنی ہے، غیر مشروط کرے۔ اگر مگر‘ کئے بغیر، الفاظ چبائے بغیر کھل کر مذمت کرے، ورنہ ایسے لوگوںکا مکمل سماجی بائیکاٹ کر دیا جائے۔ میڈیا پر ایسے لوگوں کو قطعی نہ بلایا جائے، جو قاتلوں کے حامی ہیں اور اس قتل عام کی مذمت کے لئے تیار نہیں۔ ایسے بدبخت اور شقی القلب لوگوں کو بلانا، اظہار خیال کا موقع دینا پشاور میں جانیں دینے والے معصوم بچوں کے لہو کی توہین ہے۔ ایسے لوگوں کو تاریخ کے کوڑے دان میں دب جانے دیں۔ سوشل میڈیا پر میں نے کئی لوگوں کو دیکھا، جو ایک سانس میں اس کی منافقانہ انداز میں مذمت کرتے اور پھر کہتے کہ ڈمہ ڈولہ میں بھی ظلم ہوا تھا، فلاں جگہ یہ ہوا تھا۔ او بس کرو، بات اس واقعے کی ہو رہی ہے، اس پر بات کرو، ماضی میں جو ظلم ہوا، اس کی ہر ایک نے مذمت کی ہے۔ اس نوعیت کا ظلم عظیم ویسے بھی کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ میں نے اپنی فیس بک وال پر لکھا کہ ایسا عذر دینے والوں، ان دہشت گردوں کو فکری سپورٹ فراہم کرنے والوں کی میرے صفحے پر کوئی جگہ نہیں۔ میرا خیال ہے کہ سوشل میڈیا پر تحریک طالبان پاکستان اور ان کے حامیوں کو الگ اور کارنر کرنا چاہیے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ کوئی مکالمہ نہیں ہو سکتا۔ انہیں فوری طور پر بلاک کر دینا چاہیے۔ جو لوگ اس وقت ان درندوں سے مذاکرات کی بات کرتے ہیں، خواہ وہ نام نہاد دانشور ہوں یا لکھنے والے اور تجزیہ کار... ان سب کو دہشت گردوں کا حامی تصور کرنا چاہیے۔ یہ ایکشن کا وقت ہے، تیز، بھرپور اور موثر ضرب لگانے کا وقت۔ درندوں سے مذاکرات نہیں کئے جا سکتے، ان کی گردنیں مارنی چاہئیں، شرعی قوانین بھی ہمیں یہی بتاتے ہیں۔ اس حوالے سے کسی بھی قسم کی سستی اور کوتاہی نہیں ہونی چاہیے۔ سانحہ بہت بڑا اور شدید ہے، ہر دل دکھی اور ہر روح زخمی ہے۔ یہ وقت مگر غم منانے، آنسو بہانے کا نہیں، بدلہ لینے، قاتلوں کا صفایا کرنے کا ہے۔ فیصلہ کن ضرب لگانے کا وقت آن پہنچا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں