تھوڑا انتظار تو کرلیں!

دہشت گردوں کی ملنے والی پھانسیوں اور سوشل میڈیا پر چلنے والی ایک مہم کے حوالے سے بات کرتے ہیں، مگر پہلے ایک بھولی بسری سچی کہانی کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ یہ کہانی80ء کے عشرے کے ایک قاتل ارشد بِڈے کے گرد گھومتی ہے۔
ارشد بِڈا کیس ہمارے شہر احمد پورشرقیہ کی تاریخ کا ایک مشہور کیس تھا۔ ارشد جسے قدرے چھوٹے قد کی بنا پر بِڈایعنی چھوٹا یا پست قامت کہا جاتا تھا، ایک عام سا نوجوان تھا۔ایک بار اس کی اپنے محلے کے ایک نوجوان سے تلخ کلامی ہوئی۔مذاق مذاق میں بات بڑھ گئی ۔لوگوں نے لڑائی ختم کرا دی۔ وہ نوجوان اپنے گھر چلا گیا۔ رمضان کے دن تھے، افطار کا وقت قریب تھا۔ادھر ارشد بِڈا شدید اشتعال میں کھولتا ہوا گھر گیا اور وہاں سے ایک تیز دھار چھری لے کر اس نوجوان کے گھر پہنچ گیا۔ دستک دی، وہی لڑکا باہر نکلا، ارشد نے فوراً ہی اس پر حملہ کرتے ہوئے چھری اس کے پیٹ میں گھونپ دی۔ اس کی چیخ پکار سن کر بڑا بھائی جو افطار کے لئے شربت بنا رہا تھا، وہ باہر نکلا تو ارشد نے اسے بھی نشانہ بنا ڈالا۔ دونوں بھائی شدید زخمی حالت میں ہسپتال پہنچائے گئے ،مگر خون زیادہ بہہ جانے کے باعث جانبر نہ ہوسکے۔ مقتولین کا گھربازار کے ساتھ ہی تھا، لوگ جمع ہوگئے اور قاتل کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔ یہ واقعہ شہر میں دھماکے کی طرح گونجا۔ یہ احمدپور شرقیہ کی تاریخ کا عجب واقعہ تھا۔ ہر جگہ ارشد بِڈے اور مقتولین کی باتیں ہوتی رہیں۔ہم اس وقت بچے تھے، بڑوں کی باتیں سنتے اور تصور میں ارشد کو کسی خون آشام بھیڑیے یا ڈریکولا کی شکل میں دیکھتے ،جس نے رمضان جیسے مقدس مہینے میں ، عین افطار سے پہلے دو روزے دار نوجوان قتل کر ڈالے۔ 
یہ کیس کئی سال چلتا رہا۔ مقتولین کے والد نے کیس کی ڈٹ کر پیروی کی، اس کے دو بیٹے تھے،شقی القلب قاتل نے دونوں چھین لئے۔بوڑھے باپ نے قسم کھائی کہ میں نے کسی بھی قیمت پر سمجھوتہ نہیں کرنا اور قاتل کو کیفرکردار تک پہنچانا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں سے ارشد کو سزائے موت کی سزا سنائی گئی۔ ارشد کے ماں باپ نے صلح کی بڑی کوشش کی، دیت کی رقم کی پیش کش کی، اس کی ماں روتی ہوئی معافی کی درخواست لے کر گئی، مگر مقتولین کے ورثانے صاف انکار کر دیا۔جنرل ضیاء ملک کے صدر تھے، ان کے نام سزائے موت کی منسوخی اور اسے عمر قید میں بدلنے کی درخواست بھیجی گئی۔ جنرل ضیاء نے اسے مقتولین کے ورثا کی رضامندی سے منسلک کر دیا۔ یوں یہ بیل بھی منڈھے نہ چڑھ پائی۔ یہ سب خبریں شہر میں گونجتی رہیں۔ آخر ارشد بِڈے کو پھانسی دے دی گئی۔ ارشد کا جنازہ شہر کی تاریخ کے چند سب سے بڑے جنازوںمیں سے ایک تھا۔ ہزاروں لوگ امنڈ آئے۔ اس کا منہ دیکھنے کے لئے بہت زیادہ رش لگ گیا، حتیٰ کہ بھیڑ میں کئی لوگ کچلے بھی گئے، مشکل سے قابو پایا گیا۔ ایسا ہرگز نہیں تھا کہ ارشد بِڈا اچانک ہی بہت زیادہ مقبول ہو گیا۔ جنازے کے شرکا میں سے شائد ہی کسی کو اس قاتل سے ہمدردی ہو، جس نے ایک پورا خاندان اجاڑ کر رکھ دیا، جس نے دو ننھے بچوں کے باپ کو روزے کے ساتھ بے گناہ قتل کر دیا۔جوتھوڑی بہت تلخ کلامی ہوئی ، وہ چھوٹے بھائی کے ساتھ تھی، بڑے بھائی بے چارے کو تو لڑائی کا علم بھی نہیں تھا۔بہت سے لوگ تجسس کے تحت آئے، ان کے لئے پھانسی والی میت دیکھنا ایک نیا تجربہ تھا۔ کچھ لوگ ارشد کے خاندان والوں کے ساتھ تعلقات اور محلے داری کی وجہ سے شریک ہوئے۔ بعض لوگ یہ کہتے رہے کہ اس نے ظلم کیا تھا، جس کی سزا بھگت لی، اب اس کا جنازہ تو پڑھ لینا چاہیے تھا۔ 
چند دن پہلے جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والے ڈاکٹر عثمان اور جنرل پرویز مشرف پر حملہ کے مجرم ارشد مہربان کو پھانسی دی گئی۔ ارشد کے جنازے کی تصویر آج کل سوشل میڈیا پر بہت ڈسکس ہو ر ہی ہے۔ اس جنازے میں معمول سے زیادہ لوگ شامل ہوئے۔ ارشد مہربان کے جنازے کی تصویر دیکھ کر مجھے ارشد بِڈے کا جنازہ یاد آگیا۔ اگر اس کی کوئی تصویر بنی ہوتی تو اسے اپ لوڈ کر دیتا،اس جنازے سے کم وبیش دوگنے لوگ شریک تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فیس بک پر جاری مہم میں اسے پھانسی لگنے والے مجرموں کی مقبولیت قرار دیا جا رہا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کے فکری حامی جو پشاور سانحے کے بعد گنگ ہو کر رہ گئے ، اب رفتہ رفتہ زبان کھول رہے اور نئی حکمت عملی وضع کر رہے ہیں۔ میں نے بعض پیجز میں ڈاکٹر عثمان کو ہیرو قرار دیتے پایا، ان فیس بک صفحات پرلال مسجد والے مولوی عبدالعزیز کے قصیدے بھی پڑھے جا رہے ہیں۔ارشد مہربان کے جنازے کی تصویر کو ایک دلیل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے ۔ بعض لوگ جو تحریک طالبان پاکستان کو پسند نہیں کرتے، مگر وہ جنرل مشرف کے مخالف ہیں، انہوں نے یہ بات جنرل مشرف کی عدم مقبولیت کے تناظرمیں بیان کی کہ دیکھئے عوام جنرل مشرف پر حملہ کرنے والوں کو مجرم نہیں تسلیم کر رہے۔ 
سچ تو یہ ہے کہ دونوں باتیں خلاف واقعہ اور درست نہیں ہیں۔ ہمارے سماج کا اپنا ایک مخصوص رویہ اور رکھ رکھائو ہے۔ چھوٹے شہروں، قصبات اور دیہات میںایسے جنازوں میں خاصے لوگ جمع ہوجاتے ہیں۔لاہور جیسے شہروں میں تو ڈیرے داربدمعاشوں کے جنازوں میں ہزاروں لوگ شامل ہوجاتے ہیں، وہ ان پہلوانوں سے متاثر نہیں ہوتے اور نہ ہی خود یا اپنی اولاد کو ویسا بنانا چاہتے ہیں۔ دراصل عام آدمی ورثا کے ساتھ اپنے تعلقات، برادری، محلے داری اوروضع داری کے تحت جنازے میں شامل ہوتے ہیں۔یہ مرنے والے کی مقبولیت کی دلیل ہرگز نہیں۔
ویسے مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آئی کہ جنرل پرویزمشرف پر حملے کا مجرم اچھا کیسے ہوگیا؟ جنرل مشرف سے مجھے کوئی ہمدردی نہیں، میں انہیں پاکستانی تاریخ کے بدترین ڈکٹیٹروں میں سے ایک سمجھتا ہوں، جس نے اپنی تباہ کن غلطیوں سے بلوچستان اور فاٹا، کے پی کے میں آگ لگوا دی،وہاں کی عسکریت پسندی کی ذمہ داری ایک حد تک جنرل مشرف ہی پر عائد ہوتی ہے۔عدلیہ کی بحالی کی مہم میں اس خاکسار نے ڈکٹیٹر کے خلاف اتنے کالم لکھے کہ ایک اوسط سائز کی کتاب مرتب ہوسکتی ہے۔ یہ بات مگر ضرور کہوں گا کہ جنرل مشرف پر حملہ کے ملزمان کے دہشت گرد ہونے میں کوئی شک نہیں۔ ان حملوں میں متعدد افرادجاں بحق ہوئے ، جن میں سے کئی بے گناہ راہ گیر بھی تھے۔ پھر وہ حملے جنرل مشرف پر نہیں ریاست پاکستان کے سربراہ اور آرمی چیف پر ہوئے۔ درحقیقت وہ حملے کسی خاص چہرے یا شخص کے خلاف نہیں بلکہ اس اعلیٰ ترین سیٹ کو نشانہ بنایا گیا۔ جو بھی شخص اس منصب پر فائز ہوتا، جو بھی حکمران پاکستان کا مفاد سامنے رکھتے ہوئے اپنی پالیسی میں تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کرتا، القاعدہ اور اس کے حامی گروپوں کا نشانہ اسی نے بن جانا تھا۔ یہ حملے جمہوریت کے غم میں یا پاکستان کی محبت میں نہیں ہوئے بلکہ پاکستان کی سکیورٹی پالیسی تبدیل ہونے، القاعدہ کے گلوبل ٹیررازم کے ایجنڈے سے اختلاف اور ملک میں موجود غیر ملکی جنگجوئوں کو باہر نکالنے کی کوششوں پر کئے گئے۔ ان دہشت گرد واقعات کا مقصد ریاست کے بنیادی ڈھانچے کو ضرب لگانا اور ریاست کی رٹ مفلوج کرنا تھا۔ پھانسیوں کا سلسلہ جاری ہے، شروع میں فوجی تنصیبات یا فوج کا ڈسپلن توڑ کر دہشت گردی کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہوئی، مگر اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ان کا کیس کلوز ہوچکا تھا، سویلین اداروں یا شہریوں کو نشانہ بنانے والے بعض دہشت گردوں کے مقدمات اپیل کے لئے اعلیٰ عدالتوں میں موجود ہیں۔ ویسے خاطر جمع رکھنا چاہیے، یہ سلسلہ ابھی شروع ہوا ہے، کئی سولوگوں کو پھانسی دی جانی ہے۔ فوج کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والوں کا تو معاملہ الگ ہے، یہ ریاستی ادارہ ان کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے، دوسرے لوگوں کو اس زہریلی مہم کا حصہ بننے کے بجائے چند دن انتظار کر لینا چاہیے۔ تنقید کرنے سے پہلے پورا تناظر سامنے رکھ لینا بہتر ہوتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں