افغان تحریک مزاحمت کا مکمل تناظر

پاکستان کے قومی منظرنامے میں 1980ء کے عشرے کے دوران سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد یا تحریک مزاحمت کی حمایت کے فیصلے کی بہت زیادہ اہمیت رہی ہے۔ اس حمایت اور اس کے مضمرات پر بات کرنا ایک مستقل موضوع ہے ہی، مگر سوویت یونین کے زوال نے عالمی دنیا کا توازن جس طرح بگاڑ دیا، امریکہ اکیلی سپر پاور بن کر جس سفاکانہ انداز سے دنیا پر چھا گیا، وہ بذات خود ایک قابل بحث موضوع ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں لیفٹ کا رویہ متضاد رہا۔ پہلے تو لیفٹ کے دانشوروں نے اس دعوے کو باطل قرار دیا اور شدید تنقید کا نشانہ بنایا کہ افغانستان کی وجہ سے سوویت یونین کا زوال ہوا۔ کئی مقالے لکھے گئے کہ سوویت یونین ٹوٹنے کی اپنی وجوہ تھیں، پاکستانی رائٹسٹ یا اسلامسٹ اس کا کریڈٹ نہ لیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب لیفٹ ونگ روس کے ٹوٹنے کے صدمے سے باہر آ گیا، تب رفتہ رفتہ اسے رائٹ ونگ کے خلاف ایک طعنے کے طور پر استعمال کیا جانا لگا کہ دیکھو ان لوگوں نے بغیر سوچے سمجھے، امریکہ کا ساتھ دے کر روس توڑا اور آج دنیا کی کیسی بھدی شکل ہو چکی، وغیرہ وغیرہ۔ 
آج کل یہ بحث دوبارہ سے شروع ہوئی ہے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ مذہبی شدت پسندی اور عسکریت پسندی کی جڑیں 1980ء کے عشرے میں لڑی گئی افغان تحریک مزاحمت میں پیوست ہیں۔ اس رائے میں وزن بہرحال موجود ہے، نقص البتہ یہ ہے کہ اس حوالے سے مکمل بات نہیں کہی جاتی۔ قوموں کی تاریخ میں بعض فیصلے ایسے ہوتے ہیں، جنہیں سوئپنگ سٹیٹمنٹ کے ذریعے نہیں نمٹایا جا سکتا۔ ان پر بڑے تناظر میں مکمل بات ہونی چاہیے۔ بڑے ایشوز کی مختلف سطحیں اور پرتیں ہوتی ہیں، بسا اوقات وہ بلیک اینڈ وائٹ میں نہیں دیکھے جا سکتے، گرے ایریاز بھی ان کا حصہ ہیں، اگر مگر (ifs and buts) بھی تاریخ کے بڑے عمل کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔ کوئی فیصلہ اپنی جگہ درست ہو، مگر درست طریقے سے اس پر عمل درآمد نہ کیا جائے، تب نتائج مختلف نکلیں گے، ایسا بھی ہوا کہ کسی ایشو کو ایک خاص طریقے سے نمٹانے کی کوشش کی گئی مگر اس کی فنشنگ (اختتام اور بعد از اختتام) درست نہ ہوا تو مضر اثرات برآمد ہوئے۔ روس کے خلاف افغان تحریک مزاحمت بھی اسی نوعیت کا فیصلہ تھا، جس کے کئی حصے اور ٹکڑے ہیں۔
سٹریٹجک ڈیپتھ (تزویراتی گہرائی) ہمارے ہاں ایک مذاق کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ اس اصطلاح پر سنجیدگی سے بات کرنے کی ضرورت ہے، مگر یہ بحث الگ کالم کی متقاضی ہے، اسے کسی اور دن پر اٹھا رکھتے ہیں۔ افغانستان میں جو کچھ ہوا، جنرل ضیا حکومت نے جو پالیسی اپنائی، اس پر تنقید کی گنجائش موجود ہے، اس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، ہر قسم کے فیصلے پر ایک سے زیادہ آرا آ سکتی ہیں۔ جنرل ضیا پاکستانی سیاست میں ایک متنازع کردار بھی ہیں کہ انہوں نے بھٹو صاحب کی حکومت کا تختہ الٹا، جسے پیپلز پارٹی یا بھٹو صاحب سے محبت کرنے والے کبھی معاف نہیں کر سکتے۔ جنرل ضیاء نے اسلامائزیشن کے نام پر جو چند سطحی قسم کے اقدامات کئے، ان سے اسلامسٹ خوش ہوئے یا نہیں، ہمارے ترقی پسند اور لبرل عناصر ضرور برہم ہوئے۔ اپنی مخالف سیاسی قوتوں کو کمزور کرنے کے لئے ڈکٹیٹر نے جس طرح لسانی سیاست اور برادری ازم کو فروغ دیا، نان پارٹی الیکشن کا ڈرامہ کیا، افغانستان کے حوالے سے امریکہ اور مغرب کی سپورٹ کو اپنے اقتدار کی طوالت کے لئے استعمال کیا، وہ سب آخری تجزیے میں جنرل ضیا کے خلاف ہی گیا۔ معتدل تجزیہ کاروں کے لئے بھی اس دور کی کسی پالیسی کا دفاع کرنا آسان نہیں رہا۔ یہ مگر حقیقت ہے کہ افغان تحریک مزاحمت کی بھرپور سپورٹ کا جو فیصلہ اس دور میں کیا گیا، اس کے پیچھے کئی ٹھوس عوامل تھے، جنہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ 
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ افغانستان پر روس کا حملہ قطعی طور پر غلط اور ظلم کے مترادف تھا۔ روسی فوجوں کا وہاں قبضہ غاصبانہ تھا، جس کے خلاف مزاحمت کا افغان عوام کو پورا حق حاصل تھا۔ اخلاقی اعتبار سے افغانوں کی مدد کرنا درست تھا۔ جنرل کے ایم عارف نے اپنی کتاب ورکنگ ود ضیا میں روسی سفیر عبدالرحمن وزیروف سے ملاقات کا تذکرہ کیا۔ روسی فوجوں کے افغانستان داخلے پر جب پاکستان میں روسی سفیر کو احتجاجاً بلا کر پوچھا گیا تو اس نے جواب دیا کہ ببرک کارمل نے روسی فوج کو بلایا تھا۔ جب روسی سفیر کو بتایا گیا کہ ببرک کارمل تو خود اس وقت افغانستان میں نہیں تھا، وہ کسی اور ملک میں افغان سفیر تھا، اس پر روسی سفیر کے پاس دائیں بائیں جھانکنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ افغان عوام، خاص طور پر اسلامی ذہن رکھنے والے نوجوانوں اور یونیورسٹی کے اساتذہ اور علما و مشائخ میں روس کی مزاحمت کے حوالے سے لہر پیدا ہوئی۔ افغانستان کی تاریخ جاننے والا ہر کوئی یہ جانتا ہے کہ افغان غیرملکی قبضے کی ہمیشہ مزاحمت کرتے رہے ہیں۔ روس سے ایک صدی قبل انگریز فوجیں وہاں داخل ہوئیں اور انہوں نے ببرک کارمل کی طرح کا ایک کٹھ پتلی حکمران بنایا تو افغانوں نے اسے بھی ماننے سے انکار کر دیا اور ایک بڑی گوریلا جنگ لڑی گئی، جس کا اختتام برطانیہ عظمیٰ کی رسوا کن پسپائی کی صورت میں نکلا۔ اس وقت تو کوئی امریکہ افغانوں کی پشت پر تھا اور نہ ہی سرحد کے اس پار پاک و ہند کے علاقے میں کوئی جنرل ضیا برسر اقتدار تھا۔ افغانوں نے مزاحمت کرنی ہی تھی، امریکی امداد تو دو سال کے بعد شروع ہوئی، شروع میں تو عام رائفلوں سے گوریلا جنگ لڑی گئی۔ 
ریاست پاکستان کی افغانستان کے حوالے سے حساسیت فطری اور منطقی تھی۔ صرف آٹھ سال پہلے ملک دو ٹکڑے ہو چکا تھا، اس میں اپنوں کی غلطیاں تو تھیں ہی، مگر فیصلہ کن فیکٹر بھارتی فوج کشی اور سوویت یونین کی اسلحہ کے ذریعے بھرپور مدد کا رہا۔ افغانستان میں روس کی موجودگی ہمارے عسکری منصوبہ سازوں کے لئے اس لحاظ سے نہایت پریشان کن تھی کہ مشرقی سرحد پر اپنے سے تین گنا بڑی بھارتی فوج کے ہوتے ہوئے اگر مغربی سرحد سے کبھی روسی افواج براہ راست چڑھ دوڑیں تو پاکستان کا کیا بنے گا؟ روس کو وہاں الجھانا سٹریٹجی کے اعتبارسے غلط فیصلہ نہیں تھا، خاص طور پر جب پاکستان کے تمام دوست مسلم ممالک، چین اور پوری مغربی دنیا ساتھ کھڑی ہو۔ اس حوالے سے البتہ تین چار بڑی غلطیاں ہوئیں۔
افغانستان میں پاکستان نے پراکسی وار لڑی، یہ ٹیکٹیکل وکٹری تھی، مگر اسے ہمارے اداروں نے سٹریٹجک وار بناتے ہوئے یہی تجربہ مقبوضہ کشمیر میں دہرانے کی کوشش کی۔ اس کا بعد میں نقصان ہوا۔ ایک تو مقبوضہ کشمیر کی صورتحال مختلف تھی، دوسرا اس سے دنیا میں یہ منفی پیغام گیا کہ پاکستان ہر جگہ پراکسی وار لڑنا چاہتا ہے۔ دوسری غلطی یہ ہوئی کہ افغان مہاجرین کو ملک میں پھیلنے دیا، کلاشن کوف اور ہیروئن کلچر اس سے پھیلا اور پاکستانی سماج اس سے متاثر ہوا۔ افغانوں نے یہاں گھر اور جائیدادیں بنا لیں۔ جنگ ختم ہونے پر بھی وطن واپسی ان کی ترجیح نہ رہی۔ تیسری غلطی یہ ہوئی کہ افغانستان میں لڑنے والے جنگجوئوں کو دوبارہ سے سوسائٹی کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ اپنی تعلیم ادھوری اور کاروبار تباہ کر کے جانے والے نوجوانوں کو نئی زندگی کا آغاز کرنے کے لئے ریاستی مدد چاہیے تھی، جو نہیں دی گئی۔ چوتھی اور سب سے تباہ کن غلطی یہ رہی کہ جہادی تنظیموں کو طالبان کی افغان حکومت سے براہ راست رابطے استوار کرنے دیے گئے۔ اسامہ بن لادن جیسے عرب کمانڈروںسے وہ متاثر ہوئے اور جب نائن الیون کے بعد پاکستانی ریاست نے القاعدہ کو بے دخل کرنا چاہا تو اساطیری کمانڈروں نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھا لئے۔ ہم آج جس گرداب میں پھنسے ہیں، اس میں ماضی کی غلطیوں کا بھی حصہ ہے، مگر ہمیں پورے تناظر میں بات کرنا ہو گی۔ جو درست تھا، وہ درست ہے، جو غلط تھا، وہ غلط ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں