براہ کرم کنفیوژن نہ پھیلائیں

سوال بڑا سادہ سا ہے، تمام بحث اس کے گرد گھومتی ہے اور کنفیوژن کا جو پہاڑ بنانے کی کوشش ہو رہی ہے ، وہ چند ہی لمحوں میں پانی میں گرے نمک کے ڈلے کی طرح تحلیل ہوجائے گا، اگر اس بنیادی نقطے کو سمجھ لیا جائے۔ 
بات وہی ہے کہ کیا فوجی عدالتیں مذہبی حلقوں اور مدارس کے خلاف کسی قسم کے کریک ڈائون یا خفیہ ایجنڈے کا حصہ ہیں؟ ا ٓخر فوجی عدالتوں کے حوالے سے ترمیم کرتے ہوئے یہ شق کیوں شامل کرنی پڑی کہ'' مذہب اور فرقے کے نام پر دہشت گردی کرنے والے‘‘۔ مذہب اور فرقے کے حوالے سے یہ شق شامل کرنا کیا مذہبی سیاسی جماعتوں، مدارس اور روایتی دینی فکر رکھنے والے حلقوں کو نشانہ بنانے کے مترادف ہے؟‘‘
اکیسویںآئینی ترمیم، فوجی عدالتوں اور اس سب بکھیڑے کا سمجھنے کا انتہائی سادہ نسخہ ہے۔ اپنے ذہن میں پندرہ دسمبر 2014ء کی شام لے آئیے۔ صرف پچیس چھبیس دن پہلے کی بات ہے، تصور کرنے میں دقت نہیں ہوگی۔ اگلے دن یعنی سولہ دسمبر کو سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے دوچار رسمی تقریبات کی تیاری ہو رہی تھی۔پچھلے کئی دنوں سے ہر چیز روٹین کے مطابق چل رہی تھی۔ کراچی میں جو آپریشن کئی مہینوں بلکہ سال ڈیڑھ سال سے چل رہا تھا، اس کی وہی معمول کی خبریں۔ کہیں پر پولیس وین پر حملہ تو کہیں پر پولیس کے ہاتھوں لیاری گینگ وار یا کالعدم تنظیموں کے کمانڈر مارے جانے کی خبر ۔ اسلام آباد میں عمران خان کا دھرنا جاری تھا۔ بلوچستان میں شدت پسند گروہوں کے حوالے سے کوئی گرما گرم خبر نہیں تھی، ملا جلا رجحان دیکھنے میں آ رہا تھا۔ کچھ عرصہ قبل نواب خیر بخش مری مرحوم کے دونوں بیٹوں حیربیار اور مہران کے مابین کشمکش اور ان کے جنگجوئوں کے درمیان تصادم کی خبریں آئی تھیں۔ ایک خبر یہ بھی چھپی کہ یورپ میں موجود ناراض خان آف قلات وطن واپسی کے لئے تیار ہوگئے۔ شدت پسند جنگجوگروپوں کے ساتھ مذاکرات کی خبریں حسب روایت چل رہی تھیں۔ 
اگر پندرہ دسمبر کی شام کو کسی ٹاک شو میں یہ سوال اٹھایا جاتا کہ کراچی میں جاری ٹارگٹ کلنگ، لسانی تنظیموں کی کارروائیوں، بھتہ، لیاری گینگ واراور بلوچستان میں پکڑے جانے والے شدت پسند جنگجوئوں کے حوالے سے فوجی عدالتیں بنائی جائیں، جن کے سربراہ فوجی افسر ہوں اور ان عدالتوں کے فیصلوں کو کہیں پر چیلنج نہ کیا جا سکے، مقدمات کا ٹائم فریم ہو، صرف تین چار ہفتوں میں کیس کا فیصلہ اور مجرم کو کیفر کردار تک پہنچا دیا جائے۔ ایسی تجویز پیش ہوجانے پر ہنگامہ ہوجانا فطری تھا۔ کراچی کی سیاسی جماعتیں یقیناً یہی مطلب لیتیں کہ ہمارے کارکنوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، فوج ہمیں ختم کرنا چاہتی ہے ،و غیرہ وغیرہ۔بلوچستان کے حوالے سے ہنگامہ زیادہ ہونا تھا کہ اس میں بلوچستان کے تمام بلوچ اور پشتون قوم پرست سیاستدان ، خیبر پختون خوا کے قوم پرست، سندھ کی حکمران جماعت پیپلزپارٹی، ملک بھر کی وکلا تنظیمیں، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور سول سوسائٹی ایکٹوسٹس سمیت ملک بھر کی اینٹی اسٹیبلشمنٹ لابیاں متحرک ہوجاتیں، گمان غالب ہے کہ مذہبی جماعتیں بھی ان کے ساتھ احتجاج میں شامل ہوتیں، تحریک انصاف بھی ممکن ہے اس احتجاجی گروہ کی حامی بنتی جو فوجی عدالتوں کے خلاف پرزور انداز میںآواز اٹھاتا۔ 
سولہ دسمبر کی لہور نگ صبح پشاور میں ایسا ہولنا ک سانحہ ہوا، جو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا۔ لوگ تحریک طالبان پاکستان کی سفاکی کے بارے میں جانتے تھے، مگر یہ کسی نے نہیں سوچا ہوگا کہ درندگی اور وحشت اس حد تک بڑھ جائے گی کہ سکول کے ہنستے مسکراتے پھول سے بچوں کو قطار میں کھڑا کر کے چھلنی کر دیا جائے گا، جو نہتی ، بے گناہ خواتین ٹیچرز بچوں کو بچانے کی کوشش کریں گی، انہیں بچوں کے سامنے ہی جلا دیا جائے گا، لاشوں کے ڈھیر میں جھک جھک کر ،ڈھونڈ ڈھونڈ کر بچ جانے والے معصوم پھولوں کو مارا جائے گا۔ اس ہولناک سانحے نے پورے ملک کو ہلا کر بھی رکھ دیا اور تمام سیاسی ،لسانی، گروہی ، فرقہ ورانہ اختلافات بھلا کر پوری قوم متحد ہوگئی۔ ایک ہی فقرہ سب کی زبان پر تھا کہ ان ظالموں کا ہر قیمت پر خاتمہ کیا جائے۔ وزیراعظم نے آل پارٹیز کانفرنس بلائی، سب لوگ اکٹھے ہوئے ، تحریک انصاف بھی اپناد ھرنا ختم کر کے شامل ہوئی،سکیورٹی ماہرین بھی شریک تھے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مختلف تجاویز پر غور ہوا، کئی فیصلے کئے گئے ۔جیلوں میں بند سزائے موت یافتہ دہشت گردوں کو فوری پھانسی لٹکانے کا 
فیصلہ ہوا۔ ماہرین نے یہ بھی تجویز کیا کہ ان دہشت گردوں کو عام عدالتوں سے سزا نہیں مل سکتی۔ ہمارے روایتی قانون شہادت، گواہان اور سکیورٹی کے خطرات سے دوچار جج صاحبان کے مسائل کے پیش نظر فوجی عدالتیں بنائی جائیں۔ اس پر بحث ہوئی۔ سیاستدانوں کو خطرات تھے کہ اس سے فوجی آمریت کی راہ نہ ہموار ہوجائے۔شبہ دور کرنے کے لئے اس کی مدت صرف دو سال رکھی گئی تاکہ واضح ہو کہ یہ ہنگامی نوعیت کا اقدام ہے، مستقل ارادہ نہیں۔ یہ نقطہ سامنے آیا کہ فوجی عدالتوں کے دائرہ کار میں مختلف اقسام کے مجرم آتے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان،اس کے متعدد ذیلی گروپوں، کالعدم فرقہ ورانہ تنظیموںکے دہشت گردوں کو واضح طور پر عدالتی حدود میں لانے کے لئے ''مذہب اور فرقے کے نام پر دہشت گردی‘‘ کے الفاظ لکھنے پڑیں گے تاکہ کوئی ابہام نہ رہے۔ ادھر سیاسی جماعتیں اس قدر ڈری ہوئی تھیں کہ پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ نے لفظ فرقہ یعنی سیکٹ (Sect)پر بھی اعتراض کر دیا، مجبوراً ایک وضاحت بھی شامل کرنی پڑی کہ اس لفظ سے مراد کوئی رجسٹرڈ سیاسی جماعت نہیں ہے۔حکومت کا یہ فیصلہ مجبوری بن گیا تھا کیونکہ اس کے بغیر بل منظور بھی نہ ہوتا اورقومی اتفاق رائے بھی پاش پاش ہوجاتا۔ ویسے بھی فوجی عدالتوں کے دائرہ کار کی جو دوسری شقیں ہیں،یعنی فوج، سرکاری اداروں، سرکاری تنصیبات پر حملے، اغوا برائے تاوان، دہشت پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کی بات ہے... اس میں کراچی ، 
بلوچستان والے سب ہی آ جاتے ہیں۔اس وقت تمام تر فوکس پاکستانی طالبان اور ان کے ساتھیوں کے خلاف ہونا فطری ہے۔ انہوں نے کام ہی ایسا بھیانک کیا کہ پوری قوم یکسو ہوگئی، فوجی عدالتوں میں مگر دوسرے دہشت گردوں کو پیش کرنے کی پابندی نہیں ہے۔ بھائی لوگو!ان عدالتوں کو کام شروع تو کرنے دیں، نتائج اچھے آئے توہر سطح کا دہشت گرد اس کے شکنجے میں آئے گا۔
میری سمجھ سے باہر ہے کہ اس وقت یہ ہنگامہ کیوں برپا ہے؟ کیا جمعیت علما ء اسلام ، جماعت اسلامی اور دوسری دینی جماعتیں ''مذہب اور فرقے کے نام پر دہشت گردی ‘‘کرنے والوں کے حق میں ہیں؟ کیا مذہب اور فرقے کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں ہی نے پورے ملک کو ہلا کر نہیں رکھ دیا ؟ پچھلے پچیس چھبیس دنوں سے سکول اور ملک کے دیگر تمام تعلیمی ادارے انہی دہشت گردوں کے باعث بند نہیں ؟ سولہ دسمبر والے سانحے ہی نے اس بدقسمت ملک کے منقسم عوام کومتحد کر دیا، دہشت گردوں کے خلاف وہ یکسو ہوگئے۔ ہماری مذہبی جماعتیں صرف اپنی سپورٹ بیس بچانے کے لئے دوبارہ سے کیوں قوم کو تقسیم کرنا چاہتی ہیں؟ پاکستان کا کوئی گروہ ، جماعت، تنظیم یا شخص اگر یہ سمجھتا ہے کہ مذہب اور فرقے کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کونہیں پکڑنا چاہیے، جو درندے سکول کے بچوںکو نشانہ بنا چکے، تعلیمی اداروں کو مزید نشانہ بنانا چاہتے ہیں، انہیں پکڑ کر فوجی عدالتوں کے ذریعے سزا نہیں ملنی چاہیے تو وہ دو ٹوک بات کرے۔ کسی نے ٹی ٹی پی اور ان کے اتحادی دہشت گردوں کی حمایت کرنا، انہیں نظریاتی ، فکری سپورٹ پہنچانی ہے تو کھل کر سامنے آئے۔ حیلوں بہانوں سے کنفیوژن کیوں پھیلا رہا ہے؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں