نئے تجربے

آٹھ دس دن پہلے روزنامہ ''دنیا‘‘ میں مکتوب شنگھائی شائع ہوا۔ کالم نگار منصور خالد نے بڑے دلچسپ انداز میں چین کی بعض ڈشز کا ذکر کیا اور ساتھ ہی انکشاف کیا کہ وہ آخر کار تلوں والے چھوٹے نان ، تکہ کباب تلاش کرنے میں کامیاب رہے۔ تکہ کباب، پلائو اور قہوہ تو ہمارے ہاں عام ہے،بعض ایسی چینی ڈشزکا ذکر انہوں نے کیا جو کھانے پینے کی اشیاء کے دلدادہ اس اخبار نویس کے لئے دلچسپی کی حامل تھیں‘ ان میں بیجنگ کی مشہور ڈش پیکنگ ڈک (روسٹ کئی ہوئی بطخ)اور ڈمپلنگس (سبزی یا گوشت سے بھرے سموسہ نما)شامل تھیں۔اصل چینی کھانے کا مجھے اتفاق نہیںہوا، جن دوستوں نے وہاں کی یاترا کی ہے، وہ اس حوالے سے کچھ زیادہ خوش یا مطمئن نہیں لوٹے۔ ہمارے ہاں جو چینی کھانے ملتے ہیں، ان میں پاکستانی ذائقوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مسالہ جات شامل کر لئے جاتے ہیں، اس لئے ہم لوگ انہیں قبول کر لیتے ہیں۔ ویسے ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جنہوں نے یہاں کے چینی کھانے چکھنے کی بھی کبھی زحمت نہیں کی۔ نام سن کر بھی وہ کانوں کا ہاتھ لگا لیتے ہیں۔ اسی طرح بعض لوگ نہاری اور ہریسہ جیسی ڈشوں میں بھی زیادہ رغبت نہیں رکھتے۔ان کے لئے کھانے سے مراد صرف کڑھائی گوشت یا پھر روایتی تکے کباب ہی ہیں۔ دراصل ہمیں زندگی میں بہت سے ذائقے ڈویلپ کرنے پڑتے ہیں۔ ویسے تو یہ معاملہ صرف کھانوں تک محدود نہیں، مطالعہ، موسیقی، فلم، ڈرامہ،پینٹنگ وغیرہ میں بھی نئے ذائقے ، نئے شوق پیدا کرنا، انہیں سنوارنا پڑتا ہے۔ابتدائی زندگی میںہمارا واسطہ چند ایک ذائقوں ہی سے پڑتا ہے۔ جیسے جیسے زندگی اپنے آپ کو منکشف کرتی، اپنی پرتیں کھولتی اور نئے رنگ دکھاتی ہے، ہمیں بھی اپنی صلاحیتوں کے ساتھ اپنے ذائقوں کی تربیت کرنی پڑتی ہے۔ جو ایسا کر گیا، وہ اپنے دامن میں متنوع تجربات سمیٹ لیتا ہے،باقیوں کی مٹھی میں چند سیپ ہی رہ جاتے ہیں۔
تین چار سال مجھے نائیجیریا جانے کا موقعہ ملا۔ فیڈریشن آف اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن(فینا)کی ذیلی شاخ فینا کئیر ویژن کے تعاون سے ہرسال کئی افریقی ممالک کے لئے فری آئی کیمپ منعقد کئے جاتے ہیں۔ پاکستان میں معروف فلاحی تنظیم پی او بی کے پلیٹ فارم سے ہر سال کئی پاکستانی ڈاکٹرزوہاں مفت آپریشن کے لئے جاتے ہیں۔سوڈان، صومالیہ، نائیجیریا، مالی، چاڈ، الجزائر، کیمرون ، برکینا فاسو وغیرہ میں ایسے متعدد کیمپس ہوچکے ہیں، جہاں چند دنوں میں کئی ہزارموتیے کے آپریشن کئے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر انتظار حسین بٹ آج کل فینا کے کوارڈی نیٹر ہیں۔فیناہی کی دعوت پرمجھے نائیجیریا جانے کا اتفاق ہوا۔ ہم نے پاکستانی ڈاکٹروں کو کبھی زیادہ لفٹ نہیں کرائی۔ باہر جا کر اندازہ ہوا کہ پوری اسلامی دنیا میں پاکستانی ڈاکٹر سب سے بہتر سمجھے جاتے ہیں، ان کے بعد ترکی اور پھر خاصا نیچے جا کر مصر کا نام آتا ہے۔ افریقی ممالک میں تو یہ حال ہے کہ وہاں دس دس لاکھ افراد کے لئے ایک آدھ سرجن ہی ہے۔ ایک لاکھ مریض ہیں تو وہ ڈاکٹر سال بھر میں بمشکل ایک ہزار بھگتا پاتا ہے، باقی سفید موتیا جیسی بیماری کے باعث اپنی آدھی عمر نابینا کے طور پر گزار دیتے ہیں۔ نائیجیریا میں چند دنوں کے دوران کئی حوالوں سے بہت کچھ سیکھا اور اپنے ملک کی قدر بھی ہوئی۔
نائیجیریا افریقہ کا اہم ملک ہے، ملک میں تیل کی کثرت ہے، مگر بدانتظامی اور بدعنوانی کے باعث اس کے ثمرات عام لوگوں تک نہیں پہنچ پاتے۔ حال یہ ہے کہ تیل ایکسپورٹ کرنے والے دنیا کے پہلے چند ممالک میں سے ایک ہے، مگر ملک میں ایک بھی ریفائنری نہیں، اپنا ہی تیل باہر بھیج کر صاف کراکر پھر منگوانا پڑتا ہے۔ پٹرول پمپوں پر ویسی لمبی قطاریں دیکھیں، جیسی چند دن پہلے لاہور اورپنجاب کے دیگر شہروں میں نظر آتی تھیں۔ مجھے حیرت ہوئی کہ پٹرول کے نرخ ہر پٹرول پمپ پر مختلف تھے، بلکہ ان میں ڈرامائی فرق تھا۔ نیرا(Naira) وہاں کی کرنسی ہے۔ کسی پمپ پر پٹرول65نیرا فی لٹر تھا تو کہیں پر 165 نیرا فی لٹر۔ جہاں پر پینسٹھ نیرا تھا ،وہاں کئی کئی میل لمبی قطار لگی تھی، جس کی جیب گرم ہو،وہ ایک سو پینسٹھ نیرا والے پمپ سے چند منٹ میں پٹرول ڈلوا کر چلتا بنے۔ سڑک پر جگہ جگہ پٹرول سے بھرے کین رکھ کر لڑکے بالے کھڑے رہتے، یعنی پاکستان کی طرح وہاں بھی بلیک کا دھندا عروج پر تھا۔ ایک اور دلچسپ بات دیکھی کہ مرکزی شاہراہوں پر جگہ جگہ اوور ہیڈ برج بنے تھے۔ حیرت ہوئی کہ سڑک سنسان ہے، ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہے ، مگر سڑک عبور کرنے والوں کے لئے اوور ہیڈ برج بنائے گئے ہیں۔ معلوم ہوا کہ چونکہ میگا سٹرکچرز میں کک بیکس اور کمیشن لینا آسان ہے، اس لئے اس قسم کے پراجیکٹس ہر جگہ چل رہے ہیں۔ ضرور ت ہو یا نہ ہو، سڑکوں پر پل ، انڈر پاس بنا دئیے، بڑے بڑے پل بن گئے، کہیں پر اچھے بھلے چوک کو مزید خوبصورت بنانے پر کئی ملین ڈالر خرچ کر دئیے گئے۔ بے ساختہ لاہور شہر یاد آیا، جہاں یار لوگوں نے ایسے ہی انڈر پاسز کی قطار لگا دی، ایسے پراجیکٹس جن کی کوئی ضرورت نہیں، مگر وہ ترنت بنا دئیے گئے۔ اس وقت تو خیر لاہور کسی حد تک اپنی اصلی صورت میں تھا، پھر بعد میں تو یہاں لوہے کا جنگل بلکہ آہنی جنگلوں کا جنگل ہی اگ آیا۔
بات نائیجیریا کی ہو رہی تھی، وہاں کھانے پینے کے دلچسپ تجربے ہوئے۔ ناشتے میں بیچارے میزبانوں نے اپنی طرف سے تو اہتمام کیا۔ وہاں ہماری طرز کی روٹی تو ظاہر ہے نہیں ملتی، ڈبل روٹی بھی مفقود تھی۔ ویسے تو بہت کچھ تھا، چرغہ کی طرز کی روسٹ کی ہوئی مرغی، سموسوں کی طرح کی ڈمپلنگز ، سینڈوچز وغیرہ۔لمبے لمبے موٹے آلوجو ویسے تو فنگر چپس کی طرح تلے ہوئے تھے، مگر وہ فنگر کسی جن یا دیو کی انگلیوں جیسی موٹی تھیں۔مجھے ایک چیز بڑے مزے کی لگی۔ فرائیڈ کیلا، جو کسی خاص قسم کے میٹھے سیرپ میں تلا گیا تھا۔ایک بات پر حیرت ہوئی کہ وہاں کے فائیو سٹار ہوٹلوں میں بھی بوتل کھولنے والی چابی یااوپنر نہیں تھا۔ویٹر سے کہا تواس نے کھٹاک سے اپنے دانتوں سے بوتل کھولی اور پیش کر دی ، ہم اس کا منہ تکتے رہ گئے۔ ہر جگہ ایسا ہی ہوا، ایک میزبان سے اس کی وجہ پوچھی، پہلے تو وہ حیران ہوئے 
کہ بوتل کھولنے کے لئے اوپنر کیوں چاہیے؟ پھر مسکرا کراپنے بڑے بڑے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے بولے، ہم افریقیوں کے دانت مضبوط ہوتے ہیں،ا س لئے ہم تو اسی سے کام چلا لیتے ہیں۔ نئی ڈشز ہم نے تو خوب اڑائیں، البتہ گوجرانوالہ کے ایک ساتھی ڈاکٹر ناخوش پائے گئے۔ انہوںنے شکایت کی کہ یہاں پراٹھے تو چلو نہیں مل سکتے ،مگر ڈبل روٹی اور آملیٹ تو ہونا چاہیے۔ اگلی صبح بھی یہی ماجرا ہوا۔ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ اتنے برسوں سے سلائس آملیٹ کھا رہے ہیں، چند دنوں کے لئے اسے بھول جائیں، مقامی ڈشز ہیں، ان کا اپنا ذائقہ اور مزا ہے، اسے ٹرائی کریں۔ وہ اپنے ''اصولی ‘‘موقف پر قائم رہے۔ آخر کار میزبانوں نے کہیں سے ڈبل روٹی ڈھونڈ نکالی، انہوں نے باورچی کو خود بلا کر آملیٹ بنانے کی ترکیب بتلائی اور پھر ڈبل روٹی کے سلائس کا ایک انبار کئی انڈوں کے آملیٹ کے ساتھ کھاتے پائے گئے۔صفایا کرنے کے بعد موصوف کے چہرے پر پہلی بار رونق آئی، زور دار ڈکار مارنے کے بعد کھلی کھلی باچھوں سے فرمایا، آج مزا آیا ہے۔ویسے ہماری نئے ذائقے اور نئی ڈشز تجربے کرنے کی عادت ہر جگہ کام نہ آئی۔ قدونہ وہاں کا مشہور شہر ہے، وہاں کیمپ کے دوران مقامی گورنر نے عشائیہ دیا۔مہمانوںکے اعزاز میںمسلم بکرا روسٹ کیا گیا۔ ہم خوشی خوشی اس کی جانب لپکے ، پاس رکھی چھری اٹھا کرایک ٹکڑا کاٹنے کی کوشش کی تو ناکام رہے۔ کانٹا اٹھا کر گھونپنا چاہا تو معلوم ہوا کہ تیز نوک والا کانٹا داخل بھی نہیں ہو پا رہا۔ مشکل سے چھوٹا سا ٹکڑا کاٹا تو وہ چبایا نہ جائے، اندازہ ہوا کہ یہ لوگ شاید گوشت کو سخت رکھتے ہیں۔مقامی افریقی مزے لے لے کر وہی گوشت کھا رہے تھے۔ ہمیں مجبوراً چاولوں اور شوربے کی دوسری ڈشز پر گزارا کرنا پڑا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں