ادھوری ذمہ داری

پچھلے دو تین دن بیماری میں گزرے۔ پچھلے چار پانچ برسوں سے یہی ہو رہا ہے کہ موسم سرما کی آمد اور پھر جب بظاہر اس کی شدت کم ہوجائے ،یعنی فروری کے اوائل میں بیماری دبوچ لیتی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ گھر میں اور باہر دوستوں کو ہر وقت یہی مشورہ دیتے رہتے ہیں کہ جب بظاہر موسم زیادہ شدید نہ رہے، اس وقت وہ زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے کہ آدمی بے پروائی کا شکار ہو کر مناسب گرم کپڑے نہیں پہنتا، یوں ٹھنڈ کا شکار ہوجاتا ہے۔دوسروں کو نصیحت کرتے کرتے ہم خود وہی غلطی کر بیٹھتے ہیں۔ویسے اس سال کے شروع میں جو چند ایک عہد (نیو ائیر ریزولیشن)کئے تھے،ا ن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ حفظان صحت کے لئے نیچرو پیتھی سے استفادہ کرنا ہے۔ وہ چیزیں جو صدیوں سے ہماری گھریلو دانش کا حصہ رہی ہیں، تجربات نے جن کی افادیت ثابت کردی ، انہیں استعمال کرنا ہے۔ ہر گھر میں بڑے بوڑھے معمول کے موسمی مسائل کے لئے ان گھریلو ٹوٹکوں کو تجویز کرتے رہتے ہیں۔جدید سائنسی ریسرچ بھی اب ان نتائج پر مہر تصدیق لگا رہی ہے۔ باتیں بظاہر معمولی سی ہیں۔ دودھ ابالتے ہوئے دارچینی کا چھوٹا سا ٹکڑا ڈال لیا جائے تو سردی کے اثرات کے لئے معاون ثابت ہوتا ہے،اعصاب کو بھی طاقت ملتی ہے۔ شدید کھانسی میں جب سانس لینا دوبھر ہوجائے، بڑی الائچی کا قہوہ پینے سے سانس کی نالی کھل جاتی اور سانس آسانی سے آتا ہے۔، اسی طرح ملٹھی کا قہوہ پینا کھانسی کے لئے بے حد مفید ہے، اگر پنسار سے ملٹھی کا ست یعنی جوہر مل جائے تو اسے چاٹ لینا زیادہ اور فوری فائدہ پہنچاتا ہے۔ بازار میں مختلف کمپنیوں کا سیاہ توت کا شربت عام ملتا ہے، لاہور میں تو ریڑھی والے سیاہ توت خشک حالت میں لئے پھرتے ہیں، وہ استعمال کرنا بہتر ہے، اگر شہتوت کے پتوں کا قہوہ بنا کر پیا جائے تو بازاری شربت سے زیادہ فائدہ پہنچے گا۔پچھلے سال مجھے اتنی شدید قسم کی وائرل کھانسی ہوئی کہ دومہینے تک شدیدتکلیف میں رہا۔ پھر ایک ڈاکٹر دوست نے کہا دوائیاں اپنی جگہ، مگر ایک مشورہ حکیموں والا بھی مان لو، دیسی مرغی کی یخنی بنوا کر دو چار دن استعمال کرو، اگر زیادہ موثر کرنا ہے تو لاہور کی ٹولنٹن مارکیٹ یا کسی اور جگہ سے جنگلی بٹیر لو، اس کی یخنی قوت مدافعت میں غیرمعمولی اضافہ کرے گی۔ جنگلی بٹیر کی نوبت ہی نہیں آئی ، دیسی مرغی کی یخنی نے وہ کام کر دیا،جو ہزاروں کی دوائیاں نہیں کر رہی تھیں۔
بیماری کا ذکر طویل ہوگیا، اصل بات جس کے لئے یہ سب ماجرا سنانا پڑا، کچھ اور تھی۔ تین دن گھر پر رہا تو وقت گزارنے کے لئے دو ہی آپشنز تھیں۔ کتاب پڑھی جائے یا پھر ٹی وی ، فلم کا سہارا لیا جائے۔ اس بار کتاب پڑھنا دوبھر ہو رہا تھا، اس لئے سارا زور فلموں پر رہا، بعض بھارتی ٹی وی چینلز کے پروگرام بھی دانستہ طور پر دیکھے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ پرمفروضہ حملوں کے حوالے سے کئی فلمیں بنی ہیں، ایک فلم میں شمالی کوریا کے دہشت گردوں نے وائٹ ہائوس پر قبضہ کر کے امریکی صدر کو بنکر میں محبوس کر لیا۔ وہ ایک دلچسپ تھرلنگ فلم تھی، جس کا اختتام روایتی انداز میں یعنی امریکی سپیشل فورسزکی فتح یابی کی صورت میں نکلا۔ اس سے ملتے جلتے موضوعات پر دو چار اور فلمیں بھی دیکھیں۔ 
دو تین باتیں خاص طور پر نوٹ کیں۔ ایک تو ان کے موضوعات کی وسعت ہے، اتنے زیادہ تجربات کا ہمارے ہاں تو تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بھی دلچسپ لگا کہ وہ اپنے اداروں کی خامیاں اور غلطیوں کی نشاندہی کرتے بلکہ بڑے بے رحمانہ انداز میں انہیں بے نقاب کرتے ہیں ،مگر آخری تجزیے میں اس ادارے کے لئے ہمدردی اور محبت پیدا کر دیتے ہیں۔ فلم دیکھنے والے کے دل میں امریکی قوم کی دلیری، فائیٹ کرنے کی صلاحیت اور اپنی کمزوریوں پر قابو پا کر دوبارہ کھڑے ہونے اور پھر کامیاب ہوجانے کا جذبہ راسخ ہوجاتا ہے۔ یہ سب کچھ اس قدر متاثر کن انداز میں کیاگیا کہ میرے جیسا شخص جسے امریکی حکومت یا اداروں سے کوئی خاص ہمدردی نہیں ، وہ امریکی پالیسیوں کا نقاد ہے، فلم دیکھتے ہوئے اس پر بھی خاص کیفیت طاری ہوگئی۔ یہ ہے میڈیا کی قوت ،جس کا بھرپور استعمال کیا جارہا ہے۔مجھے یوں لگا کہ وہاں کے میڈیا اور انٹرٹینمنٹ ورلڈ میں ایک خاص قسم کا نیشنل ازم، قومی تفاخر اوراحساس ذمہ داری پایا جاتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ کس حد تک تنقید کرنی ،مگر پھر کس طرح بطور امریکہ اسے گلوریفائی کرنا ہے۔ 
بھارتی میڈیا میں یہ بات زیادہ نمایاں نظرآتی ہے۔ بھارتی پرنٹ میڈیا ہو یا پھر وہاں کے چینلز ، سنسنی خیزی اور شورشرابا مچانے میں وہ پاکستان سے کم نہیں بلکہ آگے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر پاکستانی چینلز بھارت کے بعض نیوز چینلز کی کاپی کرتے اور انہی ہتھکنڈوں کو اپنے ہاں استعمال کرتے ہیں۔بھارتی چینل اور اخبارات ہر شعبے کا پوسٹ مارٹم کرتے اور دھجیاں اڑا دیتے ہیں، مگر مجموعی طور پر وہ بھارت کی عظمت کا پیکر تراشتے، لوگوں میں قومی تفاخر پیدا کرتے اور امید کی کرن ضرور جگاتے ہیں۔ یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ خامیاں ہزار ہیں، مگر بھارت مہان(عظیم)ملک ہے، جسے عظمت کی راہ پر چلنا ہے، ہر ایک اس حوالے سے اپنا حصہ ڈالے ۔بھارتی معیشت پچھلے دو تین برسوں میں بری طرح متاثر ہوئی، مڈل کلاس کی کمر ٹوٹ گئی، بھارتی میڈیا ،مگر اسی مڈل کلاس کا جذبہ بڑھا اور اس میں امید جگا رہا ہے۔ 
پاکستانی میڈیا اس کے برعکس مجموعی طور پر مایوسی پھیلاتا اورآخری تجزیے میں قارئین یا ناظرین کو ملک سے متنفر ہی کرتا ہے۔ کرپشن سکینڈل، حکمرانوں کی نااہلی ، خودغرضی کے عجب عجب واقعات... یوں لگتا ہے کہ معلوم نہیں پاکستان چل کیسے رہا ہے، اسے تو کب کا ختم ہوجانا چاہیے ... ان تجزیوں اور رپورٹوں میں سیاپا، ماتم اورہر ایک پر لعن طعن تو ملے گی، مگر کبھی حل نظر نہیں آئے گا۔ ان بزرجمہروں سے کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ آپ نے ہر چیز کو ناکارہ اور کنڈم قرار دے دیا، اب اصلاح احوال کے لئے کوئی تجویز بھی دے دیں۔ تعلیمی نظام ، صحت، لا اینڈ آرڈر، احتساب، عدلیہ، سیاستدان، فوج، بیوروکریسی، سٹریٹجک پالیسیاں، علم وادب، ٹی وی، فلم، موسیقی، شاعری... غرض ہر چیز ختم ہوچکی ہے تو اسے زندہ کس طرح کرنا ہے۔ یہ ملک تو موجود ہے، انشااللہ تا دیر رہے گا، حالات جتنے بھی خراب ہو چکے ہیں، کہیں نہ کہیں سے بہتری کا کام بھی شروع کرنا ہے۔ پہلا قدم تو اٹھانا ہے۔ وہ کیا اٹھایا جائے؟ میرا خیال ہے کہ ہر ایک چیز پر تاریکیوں کا برادہ چھڑکنے والوں سے ایک سوال ضرور کرنا چاہیے کہ جب تک آپ حل تجویز نہیں کر دیتے، اصلاح احوال کا خاکہ پیش نہیں کرتے، اس وقت تک آپ کی ذمہ داری پوری نہیں ہوتی۔ خامیوں کی نشاندہی کرنا ادھوری ذمہ داری ہے، یہ تب مکمل ہوگی، جب اسے ٹھیک کرنے ، کوئی نیا پلان دینے کا چیلنج بھی قبول کیا جائے۔ تصویر میں نقص نکالنے کو تو ہر ایک تیار ہوجاتا ہے،فن کار مگر وہی ہے ،جو نقص کو درست کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم تاریکیوں کے ان پیام بروں سے کہیں کہ مایوسیاں پھیلانے سے ہٹ کر کچھ تعمیر کا کام بھی کیاجائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں