کتابوںکا سال

فیس بک کے سربراہ مارک زکربرگ نے اس سال کے لئے دلچسپ عہد کیا ہے، پچھلے چند ہفتوں سے مارک کاوہ عہد سوشل میڈیا پر زیربحث رہا ہے۔ فیس بک کا یہ بانی نوجوان ہر سال ایک اعلان کرتا ہے کہ اس سال میں نے فلاں نیا کام کرنا ہے، پھر وہ کوشش کرتا ہے کہ اپنی اس کمٹمنٹ کو نبھا سکے۔ مارک زکربرگ کے پچھلے برسوں کے عہد دلچسپ رہے تھے۔ ایک سال مارک نے اعلان کیا کہ میں چینی زبان بولنا سیکھوں گا، اگلے سال ایک دوست کے مشورے پر کمٹمنٹ کی کہ روزانہ ایک ایسے آدمی سے ملاقات کرنی ہے، جو فیس بک کا ملازم نہ ہو۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ایک خاص دائرے سے باہر نکل کر دوسرے شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں سے بھی رابطہ رہے ۔ ایک سال مارک کو خیال آیا کہ ہم اپنی زندگی میں خاصے ناشکرے ہوچکے ہیں، ہمارے لئے کسی نے خواہ کتنا کچھ کر ڈالا ہو، ہم اس کا شکریہ ادا کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔ اس نے فَٹ سے عہد کر ڈالا کہ اگلا پورا سال روزانہ کم از کم ایک تھینک یو نوٹ لکھنا ہے، ان تمام لوگوں کا باقاعدہ شکریہ ادا کرنا ہے، جن کا ہماری زندگیوں میں حصہ رہا ہے ، مگر ہم انہیں اپنے جوابی خلوص کے بارے میں بتا نہیں پاتے یا اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ ایک بار اس نے سبزی خور (ویجی ٹیرین) بننے کا عہد کر ڈالا، ایک گنجائش یہ رکھی کہ جو پرندے یا جانور خود شکار کرے، انہیں کھاسکے گا۔ 2014ء جب ختم ہو رہا تھا ، تب لوگوں نے مارک زکر برگ سے پوچھا کہ نئے سال (2015ء) کے لئے اس کا کیا پلان ہے؟ مارک نے جواباً لوگوں سے تجاویز مانگیں۔ ہزاروں لوگوں نے اسے تجاویز دیں، بہت سوں نے مشورہ دیا کہ وہ اپنی دولت سے چیریٹی کے لئے رقم نکالے۔ مارک پہلے ہی اس حوالے سے خاصا کچھ کر رہا ہے۔وہ اپنی نصف سے زیادہ جائیداد خیراتی کاموں کے لئے وقف کرنے کا عہد کر چکا ہے۔ یہ عہد (The Giving Pledge)نامور کاروباری شخصیت وارن بفٹ کا منصوبہ ہے، اس نے بل گیٹس سمیت بہت سے ارب پتیوں کو اس کے لئے راغب کیا۔ 

بات مارک زکربرگ کے اس سال کے عہد کی ہو رہی تھی۔ اسے ایک مشورہ یہ ملا کہ وہ ہر مہینے ایک نئی کتاب پڑھے، جو کسی دوسرے نے تجویز کی ہو۔ مارک کو یہ آئیڈیا بھا گیا، اس نے اعلان کیا کہ میں ہر دوسرے ہفتے ایک نئی کتاب پڑھوں گا اور پھر اس کتاب پرگفتگو بھی کروں گا۔ یہ کتابیںمتنوع کلچر، نظریات او ر تاریخ کے مختلف ادوار پر ہوں گی۔ مارک نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ میں اپنے کتابیں پڑھنے کے چیلنج کو لے کر بڑا پرجوش ہوچکا ہوں۔ کتابیں اپنے موضوع کے بارے میں تفصیلی اور گہرائی سے معلومات فراہم کرتیں، فکری تسکین پہنچاتی ہیں، میڈیا عمومی طور پر ایسا نہیں کر پاتا۔ مارک زکر برگ نے اس حوالے سے ایک فیس بک صفحہ (A Year of Books) بھی قائم کیا ہے، جس میں وہ ہر دوسرے ہفتے ایک نئی کتاب کے نام کااعلان کرتا ہے، جس پر بعد میں گفتگو کی جاتی ہے، کوئی بھی شخص اپنا کمنٹ کر سکتا ہے، اگر اس نے وہ کتاب پڑھ رکھی ہے۔مارک نے اپنے ابتدائی نوٹ میں لکھا کہ پہلی کتاب دی اینڈ آف پاور(The End Of Power)ہوگی،جس کے مصنف موئزز نائیم ہیں۔ اس کتاب میں مصنف نے بتایا کہ کس طرح جدید عہد میں طاقت فوج، حکومتوں اوربڑے بڑے اداروں کے ہاتھ سے نکل کر افراد کے ہاتھ میں آگئی ہے۔ یہ شفٹ بہت اہم ہے اور ایک لحاظ سے یہ طاقت کا اختتام ہے۔ مارک کے اعلان کے بعد وہ کتاب اچانک ہی بیسٹ سیلر ہوگئی، ایمزون کے پاس اس کے پیپر بیک ایڈیشن کا تمام سٹاک فوراً نکل گیا، وہ فروخت کے اعتبار سے ایمزون کی ٹاپ ٹوئنٹی بکس میں آگئی۔اب تک مارک تین کتابیں پڑھ کر ڈسکشن کے لئے پیش کر چکا ہے، ان میں دوسری The Better Angels of Our Natureتھی، تازہ ترین کتاب Gang Leader for a Dayہے، اس پرکمنٹس اور گفتگو کا آغازہوچکا ہے۔ 

ہفتے کی سہ پہراپنے بچوں کے ساتھ ایکسپوسنٹر،لاہور میں کتابوں کی سالانہ نمائش میں گھومتے ہوئے مجھے بے ساختہ مارک زکربرگ کا یہ عہدیاد آیا۔ ویسے کتابوں کی دکانوں میں وقت گزارنے، کسی بڑی کتابوں کی نمائش میں گھومنے سے بڑھ کر شاندار شے کوئی نہیں۔ ہر طرف سجی کتابیں، جوق در جوق ان کی خریداری کے لئے آئے لوگ، مختلف سٹالز پر رش، اپنی کسی پسندیدہ کتاب کو دیکھ کر آنکھوں میں نمودار ہونے والی چمک... یہ سب دیدنی ہوتا ہے۔ پچھلے سال میںاپنی مصروفیات 

کے باعث آخری دن بلکہ آخری گھنٹوں میں پہنچا۔ اس بار پہلے سے سوچ رکھا تھا کہ دو تین دنوں میں جائوں گا، ایک دن خاص طور پر بچوں کو لے کر جائوں گا، انہیں کتابیں بھی خرید کر دوں گا اور ساتھ ہی اس ذائقے، سرشاری اور لذت سے بھی روشناس کرانے کی کوشش کروں گا، جو ہم جیسوں پر کتاب دیکھ کر طاری ہوجاتی ہے۔قصور میرا بھی نہیں، احمدپورشرقیہ جیسے چھوٹے پسماندہ شہر سے تعلق تھا، کتابوں کی نمائش تو وہاں کیا لگنی تھی، بہت سی اچھی کتابیں وہاں تک پہنچ ہی نہ پاتی تھیں۔ کتابیں خریدنے کے لئے لاہور یا کراچی چکر لگانے کا انتظار کرنا ہوتا تھا اور اس موقعہ کے لئے پیسے جمع کرنے پڑتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ بیس بائیس سال پہلے بہاولپور ایک نمائش میں گیا، وہاں ڈھیر ساری کتابیں دیکھ کر سرشار ہوگیا، بپسی سدھوا کا ناول دی برائیڈ اور کرو ایٹر وہیں سے خرید ا تھا۔ بعد میں ان دونوں کے تراجم بھی پڑھے، کشور ناہید نے برائیڈ کا ''زیتون‘‘ کے نام سے اور امریکہ میں مقیم پروفیسر عمر میمن نے کروایٹر کا ''جنگل والا صاحب‘‘ کے نام سے ترجمہ کیا۔

مجھے خوشی یہ ہوئی کہ اس سال بھی بک ایکسپو میں پچھلے برسوں کی طرح ہزاروں لوگ موجود تھے، بے شمار لوگ اپنے بچوں ، بچیوں کو ساتھ لے کرآئے تھے۔ کئی فیملیز سے بات ہوئی ، سب کا یہی کہنا تھا کہ ہم سب اپنے بچوں میں کتابوں کا ذوق پیدا کرنا چاہتے ہیں، یہ سب سعی اسی لئے ہے۔ مایوسیاں اور تاریکیاں پھیلانے والے دانشوروں اور تجزیہ کاروں‘ جن کے خیال میں اس ملک میں اب کتاب کوئی نہیں پڑھتا، کو لاہور کی اس بک ایکسپو کا ایک چکر ضرور لگانا چاہیے۔حقیقت یہ ہے کہ کتابیں چھپ رہی ہیں،بک رہی ہیں، نوجوانوں کا ایک بڑا حلقہ بے تابی کے ساتھ نئی اور اچھی کتابوں کا پوچھتا اور ان کی تلاش کرتا ہے۔ مجھے تقریباً روزانہ دو چار لوگوں کو کتابوں کے حوالے سے ان کے استفسارکا جواب دینا پڑتا ہے۔ یہ درست ہے کہ کمپیوٹر، ویڈیو گیمز، دلکش کارٹون چینلز کی موجودگی میں بچوں کو کتاب کی طرف لانا ایک چیلنج تو ہے، مگر بے شمار والدین یہ چیلنج قبول کرتے ہوئے کوشاں ہیں۔ کتابوں کی انسانی زندگی میں جو غیرمعمولی اہمیت ہے، وہ کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔ ضرورت البتہ اس امر کی ہے کہ اشرافیہ میں سے کچھ لوگ جو نوجوانوں کے لئے رول ماڈل اور آئی کون کی حیثیت رکھتے ہیں، وہ بھی کتابیں اپنی زندگی میں شامل کریں اور دوسروں کو بھی ترغیب دیں۔بک ایکسپو میں جماعت اسلامی کے چند لیڈر نظر آئے، بعض ترقی پسند سیاستدان بھی اپنی پسند کے سٹالز پرچکر لگا گئے، کاش حکمران خاندان کو کتابوں سے کچھ مس ہوتا، وہاں جسمانی غذا تو اہم ہے، مگر فکری غذا نہیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ اگر عمران خان جیسے لیڈر کتابوں کو پروموٹ کرنے کا بیڑا اٹھائیں‘ ہر ماہ ایک نئی کتاب ہی پڑھیں، اپنے فیس بک صفحے پر اس حوالے سے نوٹ لکھیں، مداحین کے سوالات کے جواب دیں اور اپنے انصافین نوجوانوں کو کتابیں پڑھنے کی تلقین کریں، ایک فہرست ہی تجویزکردیں تو اس کاکس قد روسیع پیمانے پُراثر ہوگا۔ کپتان کو مگر اس کی اہمیت کا احساس کون دلائے، ان کے دائیں بائیں کی جگہ تو روایتی سیاستدانوں نے پُر کر رکھی ہے، جن کے ڈرائنگ روموں میں کتاب تو کیا، ٹیلی فون ڈائریکٹری بھی اب شائد نہ ملے


 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں