’’دیوتاؤں‘‘ سے گستاخی

بھارتی اداکار نصیرالدین شاہ کے ایک متنازع بیان کے حوالے سے بات کریں گے، مگر پہلے ہالی وڈ کی شہرہ آفاق فلم گاڈ فادر کا ذکرضروری ہے۔ گاڈ فادر فلم اطالوی ادیب ماریو پوزو ( Mario Puzo )کے بہت مقبول اور مشہور ناول گاڈ فادر پر بنائی گئی ۔اس ناول کو برسوں پہلے ، کوئی دو اڑھائی عشرے قبل پڑھنے کا موقعہ ملا۔ ناقص کاغذ پر سستا پیپر بیک ایڈیشن فٹ پاتھ سے خریدا، مگر سچی بات ہے جو لطف اسے پڑھنے میں ملا، اسے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ جس طرح نوجوانی کے عشق نہیں بھلائے جاتے، اسی طرح اس عمر میں پڑھی کتابیں اور دیکھی فلموں کا نشہ بھی جلد نہیں جاتا۔ کیف ونشاط کے یہ لمحے بسااوقات عشروں تک ساتھ نبھاتے اور ذہن کے نہاں خانوں میں محفوظ رہتے ہیں۔ گاڈ فادر ناول مقبول بھی بہت ہوا، کئی زبانوں میں اس کے تراجم ہوئے۔ ایک زمانے میں برادرم رئوف کلاسرانے بھی اس کا ترجمہ کیا تھا۔ اس وقت وہ صحافت میںغالباً داخل ہی ہوئے تھے، سنا ہے کہ وہ آج کل ا س ترجمے پر نظر ثانی کر رہے ہیں۔ گاڈ فادر کا موضوع مافیا تھا، سسلی سے آئے ہوئے پانچ خاندان جو نیویارک کی انڈرورلڈ پر چھائے ہوئے ہیں، ان میں سب سے معروف کارلیون خاندان کا سربراہ ویٹو کارلیون ہے‘ جسے اس کے ساتھی ڈان کہہ کر پکارتے ہیں۔ ویٹو اور اس کے اہل خانہ کے گرد کہانی گھومتی ہے۔ جونی فائونٹین نامی ایک ہالی وڈ سٹار بھی پہلے باب میں داخل ہوتا ہے، بتایا جاتا ہے کہ ڈان جونی کا گاڈ فادر ہے۔ جونی فائونٹین کا کردار مشہور ہالی وڈ اداکار فرینک سناترا کو ذہن میں رکھ کر لکھا گیا۔ ہالی وڈ گاڈ فادر میں ویٹو کارلیون کا کردار ہالی وڈ کے لیجنڈری اداکار مارلن برانڈو نے ادا کیا۔ یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ مارلن برانڈو نے ڈان ویٹو کے کردار کو گویا زندہ کر دیا۔ عام طور پر ناولوں پر بنی فلمیں ہٹ ہو بھی جائیں ،مگر ناول کے قارئین کی توقعات پر پورا نہیں اترپاتیں۔ گاڈ فادر مستثنیات میں سے ایک ہے۔یہ ناول پہلے پڑھا، فلم بہت بعد میں دیکھی، مگر پچھتاوا نہیں ہوا۔ مارلن برانڈو کو اس فلم پر بہترین اداکار کا آسکر ایوارڈ بھی ملا۔ مارلن برانڈو کی اداکاری کو شائقین کے ساتھ نقادوں کی جانب سے بہت زیادہ سراہا گیا، اس پر بے شمار آرٹیکلز لکھے گئے۔ ایک فلم نقاد نے البتہ برانڈوکی اداکاری کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے اوور ریٹیڈ (ضرورت سے زیادہ سراہا جانے والا)اداکار قرار دیا۔ اس پر امریکی اخبارات میں خاصا شور مچا، فلمی صفحات اور جرائد نے مارلن برانڈو کا دفاع کیا۔ مارلن برانڈو میڈیا سے دور رہتا تھا، اخبارات یا چینلز کو انٹرویو دینا اسے سخت ناپسند تھا۔ اس اخباری بحث میں اگرچہ اس نے دلچسپی لی اور ایک فلمی جریدے کو خط لکھا۔ اس لیجنڈری اداکار نے ،جسے فلمی پنڈت اور نقاد ہالی وڈ پر سب سے گہرے اثرات ڈالنے اور فلم بینوں کی دو نسلوں کو انسپائر کرنے والا شخص قرار دیتے ہیں، اپنے مخصوص تیکھے کٹیلے انداز میں کہا ''ہر ایک کا حق ہے کہ وہ اپنی پسند ناپسند کے مطابق رائے ظاہر کرے، مجھے بہت سی مشہور اور بلاک بسٹر فلمیں پسند نہیں آئیں، اسی طرح میری فلمیں بھی ، خواہ وہ کس قدر مشہور ہوجائیں، ضروری نہیں کہ ہر ایک کو پسند آئیں۔ ویسے بھی میں دیوتا نہیں ہوں، جس کے حضور گستاخی نہیں ہوسکتی۔ اگر دیوتا ہوتا بھی تو فلم اور سپورٹس دو ایسے شعبے ہیں، جہاں کے دیوتائوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ چلتی رہنی چاہیے، یہاں مقدس شخصیات کا گزر ممکن نہیں،تنقید سے بالاتر بھی کوئی نہیں۔ ‘‘
مارلن برانڈو جیسے لیجنڈری اداکار کا یہ حقیقت پسندانہ رویہ پچھلے دنوں ہمارے اردو پریس میں جاری ایک بحث پڑھ کر یاد آیا۔ چند دن پہلے معروف بھارتی اداکار نصیر الدین شاہ پاکستان آئے، کراچی لٹریری فیسٹول میں ان کی کتاب کی تقریب رونمائی تھی، وہ حسب عادت کھل کر بولے۔ ان کی دھواں دھار گفتگو نے انگریزی پریس کو تو زیادہ متاثر نہیں کیا، ہمارے اردو اخبارات میں مگر خاصی ہلچل مچی۔ نصیرالدین شاہ اداکاری میں تین چار عشرے گزار چکے ہیں، وہ بھارت کے لیجنڈری اداکاروں میں سے ایک ہیں۔ شاہ کا ایک وصف ان کی منہ پھٹ ہونے کی حد تک پہنچی صاف گوئی اور'' دیوتائوں‘‘ سے چھیڑ چھاڑ کی عادت ہے۔۔ کھلے لفظوں میں وہ بالی وڈ کو ناکام قرار دیتے ہیں، ان کے خیال میں یہاں بننے والی سینکڑوں ،ہزاروں فلموں میں سے چند ایک ہی ایسی ہوں گی جو 
عالمی معیار پر پورا اتر سکیں۔پچھلے سال ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ دلیپ کمار نے چند فلموں میں غیرمعمولی اداکاری کی، دو تین فلمیں امیتابھ بچن کی ایسی نکل آئیں گی، باقی سب کمرشل، پیسہ وصول فلمیں ہیں۔ یہ وہ بات ہے، جسے بیان کرنے کی جرأت کوئی اور بالی وڈ اداکار نہیں کر سکا۔ کراچی میں کی جانیوالی اس تقریب میں انہوں نے چند ایک ایسی باتیں کہہ دیں ،جو ہمارے بعض دوست قلمکاروں کو ناگوار گزریں۔ نصیرالدین شاہ نے کہا کہ بالی وڈ کی مشہور فلم شعلے ہالی وڈ کی پچیس فلموں کو جوڑ کر بنائی گئی، اس لئے میں اسے بہترین فلم نہیں مانتا۔راجیش کھنہ پر وہ تنقید کرتے رہے ہیں ،ایک مضبوط دلیل وہ دیتے ہیں کہ ایک زمانے کے اس مقبول ترین اداکار کو آج کوئی یاد نہیں کرتا کہ ان کے کریڈٹ پر یاد رہ جانے والا کام نہیں۔ مغل اعظم کوا نہوں نے اپنی پسندیدہ فلم قرار دیا، مگرلیجنڈری اداکار دلیپ کمار کی انہوں نے کھل کر تعریف نہیں کی ، مزید ستم یہ ڈھایا کہ اپنے پسندیدہ اداکاروں میں شمی کپور اور دارا سنگھ کا نام لے لیا۔ میرا خیا ل ہے کہ ان کی اس بات کا پورا تناظر سامنے نہیں آسکا۔ دراصل نصیر الدین شاہ کی تنقید کا ایک تسلسل ہے ، پچھلے کئی برسوں سے مختلف حوالوں سے بالی وڈ کے کمرشل ازم اور روایتی لگے بندھے بیانیے کو وہ ناپسنداور رد کرتے آئے ہیں۔ بالی وڈ میں فیشن کے طور پر بھی بعض سپرسٹارز کی تعریف کی جاتی اور ان کے گرد تقدس کا ہالہ تراشا جاتا ہے۔ 
نصیر الدین شاہ جیسے لوگ اس تقدس کے ہالے کو توڑنا اور کلیشوں کو ضرب لگانے والوں میں سے ہیں۔ دلیپ کمار کی لازوال اداکاری کا ایک پرجوش مداح ہونے کے باوجود یہ اخبارنویس نصیرالدین شاہ کے اس حق کا دفاع کرتا ہے۔
فلمی دنیا میں کوئی دیوتا نہیں، بڑے اور عظیم اداکار البتہ ہوتے ہیں، مگر انہیں بڑا یا عظیم نہ ماننے والوں کو بھی اپنی رائے رکھنے کا حق ملنا چاہیے۔ چند سال پہلے ایک معروف گلوکارہ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ ایک انٹرویو میں وہ کہہ بیٹھیں کہ میرے پسندیدہ گائیک نصرت فتح علی خان ہیں ۔ انٹرویو لینے والے نے ملکہ ترنم نورجہاں کے حوالے سے پوچھا تو انہوں نے یہ کہنے کی گستاخی کی کہ مجھے میڈم سے نصرت فتح علی خان زیادہ پسند ہیں۔ اس پر ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ میڈم اپنے پورے ''جاہ وجلال ‘‘کے ساتھ ابھی زندہ تھیں۔ انہوں نے خود تو کچھ نہ کہا، مگر ان کے خوشہ چینوں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا، اس گلوکارہ پر تنقیدی بیانات کی اس قدر برسات ہوئی کہ وہ چکرا گئیں۔انہوں نے میڈم کی شان میں ایک دو بیانات جاری بھی کئے ،مگر تاخیر ہوچکی تھی۔ بڑی مشکل سے ان کی جان چھوٹی، سنا ہے اس کے بعد انہوںنے صحافیوں سے بات کرنے سے بھی توبہ کر لی۔ یہ حقیقت ہے کہ موسیقی کے حوالے سے بڑے بڑے استادان فن میڈم کے فن کے مداح رہے ہیں، مگر بات پھر وہی کہ فن کے میدان میں تنقید اور تبصروں کی گنجائش باقی رکھنی چاہیے ، ورنہ یہ بہتا چشمہ گدلا جوہڑ بن جائے گا۔ دلیپ کمار کو ہم سب عظیم مانتے ہیں، امیتابھ بچن کے خلاف بولنے کا بھی کسی کو یارا نہیں، ایک آدھ نصیرالدین شاہ جیسے باغی کومگر جینے کا حق تو ملنا چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں