شکست سے کچھ سیکھا جا ئے گا؟

پاکستان اور بھارت کے کوارٹر فائنل سے ایک دن پہلے بیرون ملک مقیم ایک دوست کا میسج آیا ،'' اگر آپ لوگ برانہ مانیں توایک تلخ حقیقت تسلیم کر لیں کہ ہماری ٹیم اگلے لیول پر کھیلنے کے قابل نہیں۔ جو چاہتا ہے کہ بھارت فائنل میں نہ پہنچے تواسے پاکستان کے خلاف دعا کرنی چاہیے، پاکستان کوارٹر فائنل میں ہارے گاتو آسٹریلیا سیمی فائنل پہنچ جائے گی ، وہ بھارت کو ہرا سکتی ہے۔ ‘‘اس وقت تو اس ''شاندار‘‘ اور نادر خیال پر بڑا غصہ آیا، جواب میں دو چار صلواتیں لکھ ڈالیں۔ اس میسج پر بعد میں جب غور کرتا رہا تو یہ بات ماننا پڑی کہ پاکستانی ٹیم کوارٹر فائنل میں اپنے حریف آسٹریلیا سے ہر لحاظ سے کمزور اور کمتر ہے۔ یہی خطرہ تھا کہ ہماری بیٹنگ جواب دے جائے گی۔ ویسا ہی ہوا۔میچ سے ایک دن پہلے کی ڈسکشن کا ایک فائدہ مگر یہ ہوا کہ لاشعوری طور پر آنے والے صدمے کے لئے تیار ہوگیا۔
پاکستان کی ہار پر کس کم بخت کو افسوس نہیں ہوگا، مگر سچ تو یہ ہے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کوارٹر فائنل تک ہی پہنچنے کی مستحق تھی۔ موجودہ ٹیم ورلڈ کپ کھیلنے والی ٹاپ فور ٹیموں میں شمار نہیں ہوسکتی۔ سیمی فائنل میں پہنچنے والی ٹیمیں آسٹریلیا، بھارت ، جنوبی افریقہ، نیوزی لینڈ، یہ سب پاکستانی ٹیم سے مجموعی طور پر بہتر ہیں۔ فیلڈنگ ان چاروں کی پاکستان سے بہتر ہے، بیٹنگ بہت زیادہ بہترجبکہ پاکستانی ٹیم کی بائولنگ ان میں سے بعض سے بہتر ہے، مگر بیٹنگ پچوں اور نئے فیلڈنگ قوانین کی موجودگی میں بائولنگ ایک آدھ ہی میچ جتوا سکتی ہے، میچز بیٹنگ کی بنا پر ہی جیتے جا رہے ہیں۔ پاکستانی بیٹنگ کے حساب سے تو ہمیں کوارٹر فائنل میں نہیں پہنچنا چاہیے تھا۔ اگر کپتان مصباح تسلسل کے ساتھ رنز نہ کرتا اور بائولرز غیر معمولی کارکردگی دکھا کر زمبابوے اور جنوبی افریقہ کے خلاف میچ نہ جتواتے تو ایسا ہی ہونا تھا۔
پاکستانی کرکٹ کو گراس روٹ لیو ل پر ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔دو تین بڑے مسائل ہیں۔ہماری ڈومیسٹک کرکٹ میں مسابقت نہیں ہے۔ آسان وکٹیں، ناقص امپائرنگ، کمزور مخالف کھلاڑی۔ ڈومیسٹک کرکٹ چونکہ ٹف نہیں، یہاں سے نکلنے والے کھلاڑیوں کی بھی وہ کوالٹی نہیں۔ تکنیک بہتر نہیں، ذہنی اعتبار سے وہ مضبوط نہیں۔ رنزوں کے انبار لگانے والے انٹرنیشنل کرکٹ میں جا کر بری طرح ناکام ہوجاتے ہیں۔ ہمیں اپنی علاقائی کرکٹ میں سخت مقابلہ اور مسابقت کی فضا بنانی ہوگی تاکہ کھلاڑی پریشر میں کھیلنا سیکھ سکیں۔دوسری سب سے بڑی خامی میرٹ پر سلیکشن نہ ہونا ہے۔ملک میں ایک ہی کھیل یعنی کرکٹ ہی کھیلا جاتا ہے۔ لاکھوں لڑکے کرکٹ کھیل رہے ہیں، ان میں سے غیرمعمولی کھیل رکھنے والے نوجوانوں کا انتخاب نہیںکیا جارہا۔ اگر میرٹ پر کھلاڑی لئے جائیں تو تمام تر نقائص کے باوجود موجودہ کھیپ میں سے بھی بہت اچھی ٹیم بنائی جا سکتی ہے۔ایسے دیانت دار اور پرکھ رکھنے والے سلیکٹرز کی ضرورت ہے جو دو لیول پر کام کریں۔ مختلف ڈیپارٹمنٹس، ریجن کی ٹیموں سے قومی ٹیم کے لئے باصلاحیت کھلاڑی سو فیصد میرٹ پر منتخب کئے جائیں۔مستقبل کے لئے انڈر نائنٹین کی سطح پر عمدہ کھلاڑی لے کر انہیں نیشنل اکیڈمی میں اچھی کوچنگ دے کر تیار کیا جائے۔ہر قومی کھلاڑی کے بیک اپ میں دو دو تین تین کھلاڑی تیار ہونے چاہئیں، تب ہی ان سے سو فیصد کارکردگی ملے گی۔ احمد شہزاد جیسے سیلفی (تصویریں) لینے
کے شوقین کھلاڑیوں کو اگر معلوم ہو کہ ایک میچ کی کارکردگی پر چھ میچ کھیلنا ممکن نہیں تو وہ اپنی غیر ذمہ دارانہ حرکتوں سے باز رہیں گے۔ یہی بات عمر اکمل اور صہیب مقصود کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔نیشنل اکیڈمی کو فعال بنانا ہوگا۔ آسٹریلیا نے میگڈرموٹ جیسے بائولر کو اکیڈمی میں کوچ بنایا، اس نے درمیانے درجے کے مچل جانسن کو تباہ کن تیز بائولر بنادیا، تازہ اضافہ مچل سٹارک کا ہے، جو اچھے بائولر تھے ،مگر اکیڈمی کی کوچنگ نے انہیں ورلڈکپ کا سب سے خطرناک بائولر بنادیا۔ ہماری اکیڈمی پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے، مگر نتیجہ کیا نکلا؟ وجہ یہ ہے کہ اس اکیڈمی میں غیرمعمولی کوچ چاہیے۔قومی ٹیم کے ساتھ کوچنگ سٹاف پر ہم خرچہ کرتے ہیں،مگر اکیڈمی کو اچھے کوچ نہیں دے پاتے۔ اگراعلیٰ نتائج لینے ہیں تو ہمیں اسی سطح پر سوچنا اور پلان کرنا بھی سیکھنا ہوگا۔
یہ سب تو ہیںطویل مدتی یعنی لانگ ٹرم پلان۔ دو تین سال لگ جائیں گے، ان سے نتائج برآمد کرنے میں، لیکن ایک بار سلسلہ شروع ہوگیا، تب انشااللہ ٹوٹے گا نہیں۔ سردست تو شارٹ ٹرم پلان کی بھی ضرورت ہے۔ مصباح الحق نے ٹیم کو سنبھالا ہوا تھا، اب وہ ون ڈے ٹیم میں نہیں ہوں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستانی بیٹنگ لائن نئے چیلنج کس طرح قبول کرے گی؟ ٹیم جب اچانک ڈھیر ہوجایا کرتی تھی، اس وقت مصباح وکٹ پر ٹھہرتا تھا، اب مڈل آرڈر میں ایسے بلے باز لانے ہوں گے، جو وہی کردار ادا کریں اورزیادہ بہتر انداز میں۔بوم بوم آفریدی بھی ون ڈے میچز کے حساب سے ماضی کا حصہ بن گئے۔ اب پاکستان کو نمبر سات پر اچھے بائولنگ آل رائونڈر کی ضرورت ہے، ایسا سپیشلسٹ بائولر جوا پنے دس اوور اچھے کرانے کے ساتھ اچھی بیٹنگ بھی کر سکے، جیسے بھارت میں رویندر جدیجہ، ویسٹ انڈیز میں سیمی، آسٹریلیا میں فالکنر، نیوزی لینڈ میں کورے اینڈرسن وغیرہ ادا کرتے ہیں۔ وہاب ریاض آل رائونڈر بن سکتے ہیں، مگر سردست ان سے یہ امید رکھنا کچھ زیادہ ہوگا، انہیں بطور بائولر پرفارمنس پر زیادہ توجہ دینا ہوگی۔
اوپنرز کا مسئلہ بدستور برقرار ہے، ہمیں اچھی تکنیک والے اوپنر درکار ہیں، جو وکٹ پر ٹھہر سکیں، پاکستانی بیٹنگ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کسی بھی اچھی کوالٹی بائولنگ کے سامنے پچاس اوور پورے نہیں کھیل پاتی، مصباح کے بعد یہ مزید مشکل ہوجائے گا۔ اوپنر کے لئے سمیع اسلم اور دوسرے نوجوان کھلاڑیوں کو آزمانا چاہیے، اظہر علی کو بھی ایک موقعہ ملنا چاہیے۔مڈل آرڈر میں قابل اعتماد بلے باز کھلانے چاہئیں، عمر اکمل ، صہیب مقصود نے مایوس کیا ہے۔ بابر اعظم کو موقعہ دیا جائے، عمرا مین کو رد کرنے سے پہلے اچھی طرح آزما لیا جائے ۔ فواد عالم کی بھی ٹیم میں جگہ بنتی ہے۔
نئے کپتان کا مسئلہ بہت گمبھیر بن جائے گا۔ مصباح اور آفریدی کے بعد ٹیم میں زیادہ تر ینگ کھلاڑی ہیں اور ان میں تھوڑا بہت ہی فرق ہے، صہیب مقصود، احمد شہزاد، حارث سہیل،ان میں سے کسی کو بھی کپتان بنایا جائے تو مسائل پیدا ہوں گے، بعض نے سرفراز کی طرف اشارہ کیا ہے، وہاں بھی وہی صورتحال پیدا ہوگی، ایک جیسی سینیارٹی کے کھلاڑیوں میں یہ مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ بورڈ کسی نوجوان کو یہ موقعہ دے تو پھر اسے بھرپور سپورٹ بھی دے تاکہ ٹیم میں سیاست نہ آجائے۔
سب سے اچھی پوزیشن بائولنگ کی نظر آئی۔ وہاب ریاض غیرمعمولی رہے ، راحت علی، سہیل خان اچھی آپشن ہیں، جنید خان بھی فٹ ہو گئے ہیں۔ فاسٹ بائولرز کا ایک پول بنانا چاہیے، روٹیشن کے ساتھ مواقع ملیں تاکہ انجریز نہ ہوں، نوے میل فی گھنٹہ کی رفتار سے بائولنگ کرانے والے مزید تیز بائولرز ڈھونڈنے ہوں گے۔لیفٹ آرم بائولرز کو وسیم اکرم سے چند روزہ کوچنگ کرانی چاہیے۔ سہیل تنویر ، انور علی اور محمد سمیع جیسے چلے ہوئے کارتوسوں سے جان چھڑا لینی چاہیے۔ بلاول بھٹی بھی نہیں سیکھ پا رہے۔ سعید اجمل کو واپسی کے بعد خود کومنوانا ہوگا۔ یاسر شاہ کی مستقبل میں جگہ بنتی ہے، اسے مواقع ملنے چاہئیں، مگر اسے اپنی گگلی بہتر کرنی ہوگی، یاسر کو قادر کی کوچنگ کی ضرورت ہے، عمران طاہر نے قادر ہی سے وہ گگلی سیکھی، جس نے اسے ورلڈ کپ میں کامیاب کرایا۔ رضا حسن ایک غیرمعمولی لیفٹ آرم سپنر تھے، انہیں معلوم نہیں کیوں نظرانداز کیا گیا۔ظفرگوہر سمیت ڈومیسٹک میں پرفارم کرنے والے اچھے سپنرز کو بھی پول میں شامل کیا جائے۔ہر پوزیشن کے لئے ہمیں بیک اپ رکھناہوگا، بڑے نام بھی پرفارم نہ کریں تو انہیں باہر بٹھا دیں، برانڈ کھلاڑیوں کے نہیں، پراڈکٹس کے ہوتے ہیں۔ اگر اس ورلڈ کپ میں شکست سے ہم کچھ سیکھ سکیں اور بورڈ اپنی پالیسیاں، اپنا سٹائل بدل لے تو پھر یہ ناکامی مستقبل کی کامیابیوں کا راستہ کھول دے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں